ہارون ابن رشید۔ ہندوارہ
خالق کائنات کا اٹل اصول ہے کہ ہر بنی نوع کو موت کا مزا چھکنا ہے۔ ‘ کل نفس ذائقتہ الموت ‘ موت زندگی کے تسلسل کا ہی نام ہے یہ بات عین اسلام ہے زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں لیکن ہم دنیادار سمجھتے ہی نہیں ہیں جلیل القدر پیخمبر حضرت موسی علیہ السلام اکثر اللہ تبارک تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کیلئے کوہ طور جایا کرتے تھے وہیں سے انہیں ہدیات اور احکام ملتے تھے اسی دوران حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوگیا وہ کئی دن مغموم رہے آخر کار ایک دن موسی علیہ السلام جب کوہ طور پر پہنچے تو ندا آئی موسی! جوتے اتار کر اوپر آنا موسی علیہ السلام نے حیرانگی سے کہا اے باری تعالیٰ میں تو روزانہ جوتوں سمیت یہاں آتار رہتا ہوں , پھر آواز آئی موسی جوتے اتار کر اوپر آنا اب تمہارے لئے دعا کرنے والی ماں زندہ نہیں ہے۔ یہ ہے ماں کا رتبہ۔ دنیا فانی ہے اس میں کوئی آدمی بھی ہمیشہ کیلئے نہیں رہتا , ہر آدمی پر موت تاری ہوجاتی ہیں , کسی نہ کسی دن روح اپنے جسم عنصری سے پرواز کر جائیگی پھر انسان خوش فہمی میں کیوں رہتا ۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت انتہائی ڈروانا لفظ ہے۔ زندگی اتنا ہی خوشگوار لفظ ہے۔ کیونکہ زندگی عیاشی بن چکی ہے موت کسی کو یاد ہی نہیں ۔ کیوں اسے یاد نہیں کہ زندگی فانی ہے ہر فرد کی تقدیر میں لکھا ہےکہ اس کی موت , کہاں اور کس طرح سے واقع ہوگی ۔ اپنے پیاروں کی جدائی ہم سب کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ ” توبہ کرو ” رب کی عبادت کرو اور نی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔ موت کا نام سن کر ہی اکثر لوگوں پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے یقیناً ہر زندہ کو موت کا مزہ چھکنا ہے زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے اور جو اس بات کو فراموش نہیں کرتے وہی دین و دنیا و سرخرو ہوتے ہیں۔جو اللہ کو راضی کر لیتے ہیں ان کیلئے یہ دنیا ایک امتحان گاہ بن جاتی ہے پھر یہ دنیا اور وہ دنیا کوئی معافی نہیں رکھتی وہ بر ملا کہہ سکتے ہیں۔ اب جیسے ہر وقت , ہر آن یہ احساس بیدار رہتا ہےکہ موت کو کسی نہ کسی وقت گلے لگانا ہی ہے تو اسے یہ فکر ستائے رہتی ہے کہ دوسری دنیا کیلئے اسکے پاس کچھ ہے بھی یا نہیں , اللہ ہی بہتر طور سے ہر انسان کے اعمال سے واقف ہے کیونکہ ہر انسان کی نیکی و بدی اسکے اعمال نامہ میں درج ہے جو اسے دکھا دئے جائیں گے اس سے استفسار کیا جائے گا ان تمام کاموں کے بارے , جو دوران زندگی اس نے کئے ہیں نیک کاموں کا بہتر صلہ دیا جائے گا گناہوں کی سزا دی جائے گی نیکیاں اور بدیاں ترازو میں رکھی جائیں گی جو پلہ باری ہوگا اسی کے مطابق انصاف ہوگا دوسری زندگی میں بھی وہی شخص کامران ہوگا اور اس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کے آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ قرار دیا ہے۔یہاں جو عمل اچھا یا برا کیا جائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا ” اس دنیا میں انسان کی ساری حالتیں مشقت کی ہیں , حتی کہ کھانا پینا اور دوسرے تمام کام مشقت سے خالی نہیں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی قدرت و طاقت دی ہے کہ وہ ان مشقتوں پر حاوی ہے نہ یہ کہ مشقتیں انسان پر حاوی ہیں۔ دنیا کی زندگی موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور ہمیشہ رہنے والی زندگی کا آغاز ہوتا ہے دنیا دارالعمل ہے اور مرنے کے بعد انسان دارالجزاء میں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے دنیا میں کئے گئے اعمال کی جزا ملے گی۔اگر انسان کے اعمال اچھے ہوئے تو وہ کامیاب قرار پائے گا اور اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا اور اگر اعمال برے ہوئے تو وہ ناکام قرار پائے گا اور سزا کا مستحق ٹھرے گا دنیا کی زندگی امتحان گاہ ہےاور یہاں اچھے یا برے عمل کرنے کی آزادی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ” اس نے موت کو زندگی کو تخلیق کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے ” ( سورہ الملک ) زندگی کا یہ وقفہ بہت قیمتی ہے یہاں انسان کی آزمائش ہے کہ اچھے کام کرکے آتا ہے یا برے۔ انسان موت کے ساتھ ہی کوئی عمل کرنے کے قابل نہیں رہتا کیوں کہ اب وہ دارالعمل سے نکل چکا ہوتا ہے اور وہ مجبور و بے بس ہے جب وہ اگلی دنیا دیکھ لے گا تو اسکی خواہش ہوگی کہ اسے کچھ مہلت دی جائے تاکہ وہ اچھے کام کرلے مگر ایسا ممکن نہ ہوگا اب وہی عمل اسکے کام آئیں گے جو وہ کر چکا۔ سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں “یاد رکھو اللہ پاک شرک معاف نہیں کرے گا اور شرک کے علاوہ جس گناہ کو جسے چاہے معاف فرما دیگا اور جس نے خدا کا کسی کو شریک کیا اس نے بڑا بہتان باندھا۔ “سورہ زمر میں ارشاد فرمایا ” آپ فرما دیں کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے میری رحمت سے نہ امید نہ ہو یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا وہ بڑی بخشش والا اور انتہائی مہربان ہے ” ایسے میں بنی نوع انسان وہ کام ہی کیوں کرے جو اسکی سزا کا سبب بن جائے۔ اس لئے اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑو جا کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے جو غصے کو پی جاتے ہیں خوشی اور غم میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اللہ مخلصوں کو محبوب رکھتا ہے بہرحال یہ حقیقت مد نظر رکھی جائے کہ موت اٹل ہے جس سے آج تک کوئی بچ نہیں پایا ہے۔