شام کو ڈیوٹی سے گھر پہنچ کر 45 سالہ حاشراپنے کمرے میں بستر پر لیٹا تھا، کروٹیں بدل رہا تھا۔ اس کی حرکات سے واضح تھا کہ وہ بے آرام ہے۔
اس کی نظر اپنی بیٹیوں، عمل اور بسمل پر تھی جو فرش پر کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ وہ بار بار سائیڈ ٹیبل کی طرف بھی دیکھ رہا تھا، جیسے وہ کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔
اس کی بیوی، رمین، باورچی خانہ سے غصے میں چلائی، “سنیں! عبیّر مجھے کھانا پکانے نہیں دیتا، ذرا اسے پکڑ لو۔ ابھی تک اس نے چائے بھی نہیں پی۔” عبیّر کی عمر 18 ماہ تھی۔
حاشر نے بات سنی مگر نظرانداز کر دی۔ بیوی بیچاری کیا کرتی؟ عبیّر ضد کر رہا تھا کہ اسے موبائل فون چاہیے۔ آخر کار، رمین نے بچاؤ کا راستہ نکالا اور بچے کے ہاتھ میں موبائل دے دیا تاکہ وہ سکون سے اپنا کام کر سکے۔
حاشر بستر سے اٹھا، الماری کھولی اور ایئر فون نکالنے لگا۔ بدقسمتی سے اس کی تار کٹ چکی تھی۔ یقیناً یہ بچوں کی شرارت تھی۔ غصے میں اس نے بچوں کو ڈانٹا اور بستر پر کمبل کے اندر گھس گیا۔
حاشر نے آہستہ سے جیب سے موبائل فون نکالا اور پہلا کام یہ کیا کہ والیوم بٹن سے آواز کم کر دی۔ پھر انسٹاگرام کھولا اور ریلز دیکھنے لگا۔ آواز اتنی کم رکھی کہ مشکل سے اس کے کانوں تک پہنچتی۔
بچوں کو ڈانٹ کھانے کے بعد لگا جیسے باپ سو رہا ہے لیکن اچانک بستر سے آوازیں آنے لگیں۔ دراصل حاشر کا ہاتھ والیوم بٹن پر جا پڑا تھا۔
بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ ڈانٹ سننے کے باوجود دونوں بیٹیاں بستر پر چھلانگ لگا کر باپ کے سرہانے بیٹھ گئیں۔ بسمل، جو باپ کی لاڈلی تھی، بستر میں گھس گئی اور باپ کو گلے لگا لیا۔
حاشر نے احتیاطاً موبائل بند کر دیا۔ جب بیٹیوں نے ضد کی کہ وہ بھی فون دیکھنا چاہتی ہیں، تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ کچھ دیر ہاتھا پائی جاری رہی، دونوں بیٹیوں نے باپ کے بال کھینچے، اس کے بازو پر کاٹا اور پھر رونے لگیں۔
حاشر نے کسی طرح اپنی جان چھڑائی، بچوں کو دوبارہ کھلونوں میں مصروف کیا اور ایک بار پھر بستر پر لیٹ کر موبائل دیکھنا شروع کر دیا۔ بچوں کو بہلایا جا سکتا تھا مگر بڑوں پر یہ حربہ کارگر نہ تھا اور باپ کو تو کوئی ٹوک بھی نہیں سکتا، سوائے بیوی کے۔
اتنے میں باورچی خانہ سے عبیّر کے رونے کی آواز آنے لگی۔ ماں نے اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا تھا اور طیش میں کمرے کے دروازے کو لات مار کر عبیّر کو اندر دھکیل دیا۔ “عبیّر روتا ہوا باپ سے لپٹ گیا” اور ماں کی طرف دیکھ کر بولا، “دفع جاؤ، دفع جاؤ!”
رمین نے حاشر کو آڑے ہاتھوں لیا اور غصے میں بولی، “تم ہمیشہ لیٹے رہتے ہو، عمل کا ہوم ورک بھی نہیں کراتے۔ میم (Mam) نے کاپی پر جو نوٹ لکھا ہے وہ دیکھا بھی ہے؟ تم کیسے باپ ہو جو اپنے بچوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے؟ عبیّر کی آنکھوں میں سوجن ہے، دیکھ رہے ہو؟ لیکن تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہے نا؟”
حاشر نے جب کافی سن لیا، تو خود پر قابو نہ رکھ سکا اور میاں بیوی میں تلخی بڑھ گئی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی، جس سے ماحول میں کچھ ٹھہراؤ آ گیا۔
“السلام علیکم باجی، عمل اور بسمل گھر پر ہیں؟” مریم بولی، جو پڑوس میں رہتی تھی۔ وہ اپنی بچی کو لے کر آئی تھی لیکن رمین کے چہرے پر غصہ دیکھ کر فوراً پوچھا، “سب خیر ہے باجی؟ کیا ہوا؟”
رمین نے جواب دیا، “بس یہ بچے ہیں، ہر وقت فون میں گھسے رہتے ہیں، نہ کھانا کھاتے ہیں نہ ہی کچھ ہضم ہوتا ہے جب تک فون نہ دیکھیں۔” دراصل میں نے بھی اپنی بچی کے ہاتھ سے فون چھین لیا تھا، وہ پورے دو گھنٹے مسلسل دیکھتی رہی۔ اسی لیے یہاں لائی ہوں کہ سوچا اپنی بہنوں کے ساتھ کھیلے گی۔ باجی، ایک بات کہوں؟ یہ کہانی اب ہر گھر کی بن چکی ہے۔ روزانہ یہی تماشا ہوتا ہے۔
رمین بولی، “یہ سب تو ٹھیک ہے مریم لیکن تمہیں پتہ ہے کل بسمل کیا دیکھ رہی تھی؟ اس نے کچھ ڈراؤنی ویڈیوز دیکھ لی تھیں، اور پھر پوری رات روتی رہی۔ نیند میں بھی بڑبڑاتی رہی، ‘مما بھوت، بابا بھوت اس کی حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔”
مریم نے جواب دیا، “باجی، یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ میری بیٹی کے منہ سے ہر وقت گندے الفاظ نکلتے ہیں۔ ‘سالے، کُتے،حرامی ان کی زبان پر چڑھ گیا ہے۔ اس بات پر روز ان کے باپ سے ڈانٹ پڑتی ہے مگر کوئی اثر نہیں ہوتا۔”
وہی تو، رمین بولی، “یہ بچے دن بدن بدتمیز ہوتے جا رہے ہیں، کہیں لے جانے کے قابل نہیں رہے۔ پچھلے ہفتے جب میں میکے گئی تھی تو اندر جانے سے پہلے ہی بھائی نے کہہ دیا، ‘بہن، اگر برا نہ مانو تو اپنا فون اپنے پاس رکھو، اپنی بچوں کو مت دینا کیونکہ میں نے اپنے بچوں کو فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ میں خود بھی فون نہیں دیکھتا اور سمرا، اس کی بیوی، کے پاس بھی ایک چھوٹا سا کی پیڈ (Keypad) والا فون ہے۔ ہم خود بھی نہیں دیکھتے اور بچوں کو بھی نہیں دیکھنے دیتے۔”
مریم نے بات کاٹتے ہوئے کہا، “ارے باجی، یہ تو گنے چنے گھروں کی بات ہے جہاں اس طرح کا ڈسپلن ہے۔ آپ کو پتا ہے، کل میرے شوہر مجھے اپنے دوست کے گھر دعوت پر لے کر گئے تھے۔ جب ہم گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو وہاں بہت سے بچے کھیل رہے تھے۔ ایک بچہ مجھے کہہ رہا تھا، ‘اے لونڈیا، تُو کہاں جا رہی ہے؟! اور دوسرے بچے نے میرے شوہر کی شرٹ پر پانی سے بھرا ہوا واٹر بیلون (Water Baloon) مار دیا جس میں رنگ بھی ملا ہوا تھا، اور بولا، ‘ابے سالے! آج تو تیرا بینڈ بجا دوں گا، تُو آج نہیں بچ پائے گا!
کیا بتاؤں باجی، مجھے بچوں کا تو بُرا نہیں لگا لیکن جو صاحبِ خانہ تھے، وہ ہنستے ہوئے بڑی نرمی سے کہہ رہے تھے، “یہ سب بچے ایسے ہی ہوتے ہیں، اگر یہ شرارتیں نہ کریں تو پھر بچے کیسے کہلائیں گے؟” اس پر جب میرے شوہر کو غصہ آیا اور وہ جانے لگے تو میزبان کی بیوی نے فوراً ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی۔
خیر، باجی میں اب چلتی ہوں۔ چولہے پر سالن پک رہا ہے، کہیں وہ جل نہ جائے۔ میری بچی کچھ دیر یہاں ہے، آپ ذرا نظر رکھ لیجیے گا۔
رمین بھی اب اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ واشنگ مشین میں کپڑے دھلنے کے لیے ڈالئے ہوئے تھے اور وہ ویکیوم کلینر سے کمرے کی صفائی کر رہی تھی۔ اتنے میں عمل نے چپکے سے ماں کا فون چرا لیا اور اپنی بہن بسمل اور ہمسایوں کی بچی کے ساتھ دوسری منزل کی لابی میں صوفے کے پیچھے چھپ کر فون دیکھنے بیٹھ گئیں۔
ایک گھنٹے کے بعد جب ماں نے پورے گھر میں خاموشی دیکھی تو چیخ کر بولی، “حاشر، بچے آپ کے پاس ہیں؟” حاشر نے جواب دیا، “میرے پاس تو عبیّر ہے۔” رمین نے حیرت سے پوچھا، “تو بچیاں کہاں گئی ہیں؟”
پورے گھر کی تلاشی لینے کے بعد، وہ کہیں نہیں مل رہیں تھیں۔ اتنے میں رمین نے کھڑکی کھول کر مریم کو پکارا، “بچیاں کیا آپ کے گھر آئی ہیں؟” مریم نے کہا، “نہیں، باجی، وہ تو یہییں تھیں۔” اب دونوں نے مل کر محلے میں جا کر پوچھا، “کیا یہاں کوئی بچہ آیا ہے؟”
اتنے میں رمین کو یاد آیا کہ میرا فون تو باورچی خانہ میں رہ گیا تھا۔ کہیں بچے وہ لے کر بیٹھے تو نہیں ہیں؟ مریم نے جب رمین کا نمبر ڈائل کیا تو بچے فون کاٹ رہے تھے۔ اب انہیں سمجھ آ گیا کہ وہ گھر کے کسی کونے میں موجود ہوں گے۔
گھر پہنچ کر بچوں کو ڈھونڈا گیا، پھر انہیں ڈانٹ بھی پڑی۔ مریم نے اپنی بیٹی پر ہاتھ بھی اٹھایا اور تھپڑوں سے اس کے دونوں گال لال کر دیئے، اور کہا، “اسی وجہ سے تمہیں یہاں چھوڑا تھا تاکہ تم دوبارہ فون دیکھو۔ آج کے بعد تمہارا کہیں جانا بند ہے!”
مریم تو نکل گئیں لیکن رمین کے گھر میں پھر سے وہی ڈرامہ شروع ہو گیا، میاں بیوی کے نہ ختم ہونے والے جھگڑے، جو اَب بس معمول کی بات بن چکے ہیں۔
…………
سید عامر شریف قادری
Email: [email protected]
Address: (Kaprin) Shopian, J&K, India.