سرینگر//عسکریت پسندوں کی طرف سے ممکنہ طور پر موبائل فونوں کا استعمال بند کرنے کے بیچ پولیس کے صوبائی سربراہ منیر احمد خان نے کہا کہ موبائل فونوں کے بغیر بھی1990کی دہائی کے طرز پر جنگجوئوں کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔ پولیس نے اس بات کو واضح کیا کہ1990کی دہائی میں بھی عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے کامیاب آپریشن کئے گئے جب موبائل فونوں کا وجود بھی وادی میں نہیں تھا۔ پولیس کنٹرول روم سرینگر میں صفائی مہم کے حاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے کہا ’’ پولیس ان جنگجوئوں،جنہوں نے یا تو موبائل فونوں و سم کارڑوں کو بند کیاہے،یا تباہ کیا ہے کے خلاف 1990 کے طرز پر حکمت عملی ترتیب دیں گی،اور ہم انہیں اس کے باوجود پکڑ سکتے ہیں‘‘۔ پولیس کی طرف سے ہائی الرٹ کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں آئی جی کشمیر منیر احمد خان نے بتایا’’پلوامہ میں فدائین حملے کے بعد پولیس کو خبر ملی کہ جیش محمد کے2گروپ جنوبی کشمیر اور سرینگر کے مضافاتی علاقوں میں نقل و حرکت کر رہے ہیں اور امکانی طور پر عید سے قبل حملہ کرینگے‘‘۔ پلوامہ فدائین حملے بعد پولیس جوانوں اور افسران کو چوکس اور متحرک رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے یہ اُنکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جانوں اور افسران کو الرٹ رہنے کی ہدایت دے سکتے ہیں ۔۔ایک اور سوال کے جواب میںانسپکٹر جنرل آف پولیس کا کہناتھا کہ مقامی جنگجو پہلے آزادانہ طور پر نقل وحرکت کرتے تھے ،لیکن اب اس میں رکاوٹ آئی ہے اور یہ کامیاب آپریشنز کے سبب ممکن ہو پا یاہے ۔ اسلام آباد(اننت ناگ) میں حال ہی میں پولیس کے ایک افسر کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے بعد پولیس کی طرف سے احتیاتی اقدامات اٹھانے سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے آئی جی کشمیر منیر احمد خان نے کہا’’ ہم نے پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی ہے کہ ان جگہوں پر رہنے سے پرہیز کریں جہاں پر وہ آسانی سے ہدف بن سکتے ہیں‘‘۔