کیامن کی آنکھیں ہوتی ہیں ؟ شاید ہوتی ہیں کیونکہ اگر ایسا کہا جائے کہ آنکھوںکی روشنی سے محروم ایک نابینا شخص انشاء پرداز ،داستان طراز ، مورخ،فلسفی ،ماہر تعلیم ،معاشری مصلح ،صحافی ،یونیورسٹی کا ریکٹر ،وزیر تعلیم اور مصنف و محقق تھا تو بہت سارے پڑھنے والے یقین نہیں کریں گے اور لکھنے والے کی صحت پر شک بھی کرسکتے ہیں جو لازمی ہے کیونکہ یہ بات ہی کچھ عجیب سی لگتی ہے، مگر یہ بہر حال ایک حقیقت ہے کہ اسلامی دنیا میں ایک ایسی ہی شخصیت ابھی کچھ عرصہ قبل تک مشرقی وسطیٰ میں موجود تھی جس کی صلاحیتوں ،علمی تبحر اور بے انتہا خدا داد ذہانت و فطانت کے آگے سارا یورپؔ بھی معترف ہونے کے علاوہ عش عش کرتا نظر آتا تھا ۔یہ ڈبل ڈاکٹریٹ !جی ہاں دو بار پی ایچ ڈی کرنے والی عظیم شخصیت مصرؔ کے طہٰ حسین تھے۔
ڈاکٹر طہٰ حسین1889ء میں مصر کے ایک گائوں حجاجہ میں پیدا ہوئے ۔اُن کے والد ایک روایتی پرانی طرز کے دیہاتی مگر پڑھے لکھے آدمی تھے۔ڈاکٹر صاحب اپنے چوبیس بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے اور بوجہ عدم دستیابی سہولیات اور علاج معالجہ صرف تین برس کی عمر میں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوگئے تھے مگر اُن کی ہزار ہا صفحات پر پھیلی ہوئی تصانیف میں کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ان رشحاتِ قلم کا فاضل تخلیق کار دنیا کی سب سے بڑی نعمت یعنی آنکھوں کی بصارت سے محروم تھا ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے علم کا خزانہ ظاہری آنکھوں کی مدد سے نہیں بلکہ من کی آنکھوں اور سماعت کے سہارے تالیف و تصنیف کرکے جمع کیا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کو بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا مگر بصارتی معذوری کے سبب وہ اسے پورا کرنے سے قاصر تھے ۔شوق بہر حال رقیب سروسامان ہوتا ہے، اس لئے پیہم ضد اور لگاتار کوششوں سے وہ بھی اپنے بھائیوں کا سہارا لے کر مدرسہ جانے لگے ،انہوں نے مدرسہ میں جلد ہی کلام پاک حفظ کرلیا اور اس کے ساتھ ہی عربی صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھ لیں ۔اُن کے ایک بھائی جامعہ ازہر ؔ میں تعلیم پارہے تھے ،ان کواپنے اندھے بھائی کے علمی ذوق اور ذہانت نے مجبور کردیا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ جامعہ ازؔہر لے جائیں ۔جامعہ میں کچھ علماء کی تنگ نظری ،علمی رعونت اور نظریات کے اختلاف نے ڈاکٹر صاحب کو بد دل کردیا ۔غصے میں آکر اور دل برداشتہ انہوں نے جامعہ کی مخالفت میں اخباروں میں لکھنا شروع کیا اور جامعہؔ کو خیر باد کہہ کر وہ مرکزی قاہرہ یونیورسٹی میں داخل ہوگئے ،انہوں نے 1914میں ابوالعلاؔ ء المصری پر ایک مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرلی۔اس مقالے نے ماہرین تعلیم اور ارباب یونیورسٹی کو اس حد تک متاثر کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو سربونؔ یونیورسٹی (فرانس) میں یونیورسٹی کے خرچے پر مزید تعلیم و تحقیق کے لئے بھیج دیا ۔یہاں انہوں نے فرانسیسی زبان میں ابن ِخلدون ؔ پر اپنا معرکتہ الآرا تحقیقی مقالہ لکھا اور دوسری مرتبہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری فرانس سے حاصل کرلی۔دوہری ڈاکٹریٹ کی ڈگری پانے والے اعمیٰ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جامعہ ازہرؔ کے مخالفین بھی اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے۔
پیرس میںقیام کے دوران انہوں نے اپنے عالم خیال میں یونیورسٹی کی ایک طالبہ سوزنؔ کی تصویر اپنے دل کے نہاں خانوں میں بٹھا لی جس کے ساتھ اُن کو بے پناہ محبت تھی۔سوزن کو بھی ڈاکٹرصاحب کے ساتھ عقیدت تھی۔چنانچہ 1917ء میں انہوں نے اپنی رفاقت ومحبت اور سوزنؔ کی عقیدت کو دائمی رنگ دینے کے لئے شادی رچائی ۔سوزن اُن کے سارے کام انجام دیا کرتی تھی ۔وہ اُن کو کتابیں پڑھ کر سنایا کرتی تھی ،اُن کے مضامین لکھتی تھی اور اُن کے ڈکٹیٹ کی ہوئی تقاریر کو صاف کرکے پڑھ کر سناتی تھی،وہ رفیق سفر ہونے کے علاوہ اُن کی ذاتی مددگار (Personal Assistant)اور رفیق کار بھی تھی۔
فرانس سے واپس آنے کے بعد ڈاکٹر صاحب قاہرہ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔مصر میں عربی زبان کی تعلیم کا جدید نصاب اُنہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔انہوں نے علم اور تحقیق کے میدان میں آزادانہ درس و تدریس کا نعرہ بلند کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ جدوجہد کی ۔سن 1930ء میں جب مصرؔ میں حکومت کی جانب سے تعلیمی آزادی پر پابندیاں عاید کی جانے لگیں تو انہوں نے اس کی کھلم کھلا مخالفت کی جس کے باعث انہیں ملازمت سے برطرف کیا گیا مگر صرف چند سال کے بعد ہی یعنی1936ء میں انہیں صدر شعبہ تعلیم (Head of the Education Deptt)کی حیثیت سے یونیورسٹی میں بحال کیا گیا ۔سن 1940ء میں وہ وزارت تعلیم میں شعبہ ثقافت کے ناظم مقرر ہوئے اور دو سال کے بعد انہیں وزارت تعلیم کا فنی مشیر بنادیا گیااور اس طرح سے اُن کے مشورے سے سن 1943ء میں تمام مصرؔ میں ابتدائی تعلیم مفت کردی گئی اور ثانوی تعلیم کے لئے بھی آسانیاں فراہم کی گئیں۔اُسی زمانے میں وہ ایک شاندار اور منفرد تعلیمی کارنامے کی بنیاد رکھ چکے تھے اور وہ کارنامہ اسکندریہؔ یونیورسٹی کا قیام تھا جس کے وہ ریکٹر مقر ر ہوئے ۔انہوں نے اس یونیورسٹی کو بھی قاہرہ یونیورسٹی کی طرح دنیا کی بڑی اور مشہور یونیورسٹیوں کی صف میں لا کھڑا کردیا ۔واقعی وہ اُن کا ایک یادگار اور قابل تعریف کارنامہ تھا ۔
سن 1945ء میں ملکی سیاست نے پلٹا کھایا اور انہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا لیکن صرف پانچ سال بعد جب مصرؔ میں ایک آزاد حکومت قائم ہوئی تو نئی حکومت نے انہیں وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز کردیا ۔انہوں نے بہت جلد تمام ملک میں ثانوی تعلیم بھی مفت کرادی۔
ڈاکٹر صاحب کم وبیش ساٹھ کتابوں کے مصنف ہیں اور اُن کی ہر ایک بات چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہوتی ضائع نہیں کی جاتی تھی بلکہ اُن کے مجموعوں اور تالیفات میں شامل کرلی جاتی تھی۔ڈاکٹر طہٰ حسین کی شخصیت حیرت انگیز تھی ۔ایک طرف اُن کی بینائی سے محرومی اور دوسری طرف اُن کی بے پناہ علم و آگہی،ذہانت ،تدبر اور کارکردگی کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔ایسی نابغۂ روزگار شخصیات دنیا میں بہت کم اور بہت دیر کے بعد پیدا ہوتی ہیں ؎
اب عشق میں نہ قیسؔ نہ فرہادؔ ہے کوئی
تارے شمار کون کرے ہجر ِ یار میں
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995