محمدقدرت اللہ رضوی
مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلہ پر سمت مشرق میں کچھ جنوب کو ہٹ کر چند پہاڑیوں کے درمیان ایک میدان کا نام’’منیٰ‘‘ہے جس کا عرض تو بہت ہی قلیل اور طول دومیل ہے، پورا میدان ایک مربع میل سے کم ہی ہوگا،یہاں چار پانچ دنوں تک حجاج کا ایسا ہجوم رہتا ہے کہ ایک عظیم الشان شہر آباد نظر آتاہے ،لاکھوں کی تعداد میں حجاج کے خیمے قناتوں اور پردوں کے انتظام کے ساتھ جابجا بکھرے نظر آتے ہیں،سواریاں الگ ہوتی ہیں لیکن پھر بھی نہ منیٰ کا میدان بھرا ہوانظرآتا ہے نہ ہی کسی وقت حاضرین پر تنگی سنی گئی،یہ کھلا ہوا معجزہ ہے حضور سرورکائنات ،فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا،کہ اِرشاد فرماتے ہیں’’منیٰ کا میدان حاجیوں کے لیے ایسا پھیلتا ہے جیسے ماں کا پیٹ بچے کے لیے کہ وہ جتنا بڑھتا ہے ماںکا پیٹ جگہ دیتاہے ۔ (النیرۃ الوضیۃ)
یہ وہی میدان ہے جس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام حکم خداوندی پاکر اپنے نوجوان بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے لے گیے تھے اور صبر ورضا کے اس کٹھن امتحان میں باپ بیٹے دونوں نے جس ثابت قدمی کا نمونہ پیش کیا تھا اس سے ملأ اعلیٰ کے فرشتے بھی لرزاٹھے تھے،ربِّ کریم کے حکم سے حضرت جبریل ؑ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ایک جنتی مینڈھا لاکررکھ دیا اور انھیں اٹھاکر دور کھڑا کردیا،اس طرح مینڈھے کی قربانی ہوگئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بچا لیے گیے ،پھر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی تسکین کے لیے ربِّ کریم نے اعلان فرمادیاکہ’’وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَااِبْرَاہِیْمَ قَدْصَدَقْتَ الرُّؤْیَا ‘‘(سورۂ صافات آیت نمبر۱۰۴) اے ابراہیم!تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔
اسی یادگار کو باقی رکھنے کے لیے قیامت تک کے استطاعت والے مسلمانوں پر قربانی واجب قرار دے دی گئی،حجاج کرام اسی میدان میں قربانی کے جانورذبح کرتے ہیں۔
یوں تو منیٰ کا سارامیدان قربان گاہ ہے لیکن حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد خیف کے پاس قربانی کی تھی وہاں قربانی کرنا افضل ہے۔ مگر اب وہاں ایک مسجد تعمیر ہوگئی ہے جسے مسجد نَحرکہتے ہیں اور موجودہ حکومت نے انتظامی مصلحتوں کے پیش نظر منیٰ میں قربانی کے لیے ایک جگہ خاص کرکے مذبح بنادیا ہے تاکہ خیموں اور راستوں میں خون بہہ کر گندگی اور بیماری کا سبب نہ بنے،عہد رسالت میں یہ میدان بالکل صاف تھا صحابۂ کرام نے درخواست پیش کی تھی کہ اگر حکم ہوتو منیٰ میں حضورکے آرام کے لیے ایک مکان تعمیر کردیا جائے لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیاتھا ،لیکن اب تو اس میدان میں بہت سے مکانات بن گیے ہیںجو صرف ایام حج ہی میںآباد رہتے ہیں۔
مسجدخِیف :جس کی فضیلت متعدد احادیث سے ثابت ہے اسی میدان میں حجۃ الوداع کے موقع پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد میں نماز ادافرمائی تھی، یہ ایک مربع شکل اور کھلے سائبان کی بہت وسیع مسجد ہے، بیچ صحن میں جہاں حضورؐ نے نماز ادافرمائی تھی ایک بڑا سا قبہ بنادیا گیا ہے’’جمرئہ اولیٰ،جمرئہ وسطیٰ اور جمرئہ عقبیٰ اسی میدان میں ہے۔ یہ وہ نشانیاں ہیں جہاں حاجی منیٰ میں کنکریاں مارتے ہیں،حدیث شریف میں ہے کہ جس کی کنکریاں قبول ہوجاتی ہیں انھیں فرشتے اٹھالے جاتے ہیں ورنہ تمھیں پہاڑ نظر آتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جوکنکریاںپڑی رہ جائے وہ معاذ اللہ مردودہوتی ہے، تو انھیں رمی جمار میں استعمال بھی نہیں کرنا چاہیے،حدیث شریف میں ہے کہ جب حضر ت ابراہیم ؑمناسک حج کرنے آئے توجمرئہ عقبہ کے پاس شیطان سامنے آیا آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر جمرئہ وسطیٰ کے پاس آیا آپ نے اُسے پھرسات کنکریاں ماریں کہ وہ زمین میں دھنس گیا پھر جمرئہ اولیٰ کے پاس آپ کے سامنے آیا تو آپ نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا ۔ (ابن خزیمہ الحاکم عن ابن عباس ؓ)اسی واقعے کی یادگار کے طورپر تینوں جگہ نشان کے لیے پتھروں کے ستون بنادیے گیے ہیںاورموجودہ دور میں ان کے اوپر پل کی طرح بہت وسیع چھتیں بنادی گئی ہیں جس کی وجہ سے اوپر نیچے ہر جگہ سے کنکری مارنے میں کافی آسانی ہوگئی ہے،حجاج حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی یادتازہ کرنے کے لیے تینوں جگہ کنکری مارتے ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ)
جمرئہ اولیٰ مسجد خیف کے پاس،جمرئہ وسطیٰ اس سے جانب مغرب کچھ فاصلے پر اور جمرئہ عقبہ اس سے بھی سمتِ مغرب منیٰ کی آخری سرحد پر مکہ معظمہ کی جانب واقع ہے۔
منیٰ کی مشرقی سرحد’’ بطن محسر‘‘(جہاں اصحاب فیل پر عذاب نازل ہوا تھا) اور مغربی سرحد’’ جمرۃ العقبہ‘‘ ہے،منیٰ ان دونوں سرحدوں سے گھرا ہوا ہے اور جنوب وشمال دونوں سمتوں سے اسے دوپہاڑ گھیرے ہوئے ہیں جنھیں’’اخشبین‘‘ کہتے ہیں۔
منیٰ کی وجہ تسمیہ : (یعنی منیٰ کو منیٰ کیوں کہا جاتا ہے)منیٰ کا معنیٰ ہے ’’بہانا‘‘ چوںکہ اس میدان میں بکثرت قربانی کے خون بہائے جاتے ہیں اس لیے اسے منیٰ(یعنی خون بہانے کی جگہ)کہاجاتا ہے۔منیٰ میں قربانی کے تین دنوں میں کروروں جانورذبح ہوتے ہیں پھر بھی وہاں نہ مکھی نظر آتی ہے نہ چیل کوّے،ایسا بھی نہیں کہ اس ملک میں مکھیاں ہوتی ہی نہیں ہیں کیوں کہ وہاں سے تین میل کے فاصلہ پر مکہ معظمہ میں بکثرت مکھیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔(الملفوظ جلدچہارم صفحہ۷)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام قبول توبہ کے بعد جب عرفات سے آکر یہاں پہونچے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ سے کہا کچھ تمنا کیجیے ،آپ نے جنت کی آرزو کی اِسی لیے اُس جگہ کومنیٰ یعنی اُمْنِیَّۃ اور خواہش کی جگہ کہا جانے لگا۔(تفسیر نعیمی پارہ دوم صفحہ ۳۱۳ بحوالۂ در منثور)
[email protected]>