بشیر اطہر
جب بھی ہم وادی کے اردو اُفق پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو اس پر کئی ایسی نسوانی آوازیں بھی جلوہ گر ہیں جنہوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں سے اردو زبان کے مستقبل کو تابناک بنایا ہے ۔انہی شاعرات میں سے ایک معتبر،باصلاحیت اور بابصیرت شاعرہ شبینہ آرا ءبھی ہیں جن کی کتاب’’یاد تنہا کبھی نہیں آتی‘‘ اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے ۔واہ! کیا نام ہے، جب کتاب کا نام ہی میٹھا ہے تو کلام کیسا ہوگا ،اس بات سے قارئین بخوبی واقف ہیں ۔یہ کتاب افگار دلوں کےلئے راحت جان اور پژمردہ دلوں کےلئے نوید سحر ہے۔ شبینہ آرا نے نعت، غزلوں اور نظموں کا یہ گلدستہ اس سنجیدگی سے تخلیق کیا ہے ۔لگتا ہے کہ نعت نہیں گُلباری ہورہی ہے، نرالے انداز اور نئے ڈھنگ سے نعت تخلیق کرنا کوئی ان سے سیکھے ،ان کے کلام میں فصاحت،پختگی اور سخن طرازی کی جھلک اچھی طرح سے نظر آرہی ہے، انہوں نے نعت کواعلیٰ الفاظ سے ایک انگوٹھی کی طرح تراشا ہے اور اس میں مختلف رنگوں کے نگینوں کو بھر کر ان کو خوبصورت بنایا ہے۔ انہوں نے روایتی نعت گوئی سے ہٹ کر نئے انداز سے نعت پیش کئے ہیں اور موجودہ پڑھی لکھی نسل اسی روش کی قائل ہے۔
قلم میں لُکنتیں اوراق داغ داغ مرے لبوں پہ اسم محمدؐ کا اِک نگینہ ہے
شبینہ آرا ءنے اپنی غزلوں اور نظموں میں تشبیہوں، استعاروں اور محاوروں کا بھی بھر پور استعمال کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ان کے استعمال کرنے سے صنف شاعری مزیدار اور خوبصورت بنتی ہے، شبینہ آرا کی کتاب کاٹائٹل بہت ہی عمدہ ہے’’ یاد تنہا کبھی نہیں آتی ‘‘مکمل جملہ ہے۔ بیشک یاد کبھی تنہا نہیں آتی بلکہ اپنے ساتھ ہجر،تنہائی، محبت، یادیں،ملاقاتیں، شکایتیں، گلے شکوے وغیرہ لاتی ہیں اور انہی سے زندگی خوبصورت بھی بنتی ہے اور اجیرن بھی ۔۔۔راقم کا اس پر رقمطرازی کرنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ شبینہ آراء کی سحر انگیز غزلیں پڑھنے والوں کےلئے راحت قلب اور روح کےلئے سکون کا باعث ہیں انہوں نے پروین شاکر کی طرح اپنی شاعری میں نئے لب و لہجہ اور تازہ بیانی کو اپنا شغل بنایا ہے ،ان کی غزلوں اور نظموں میں تازگی، ہجر ووصال،صداقت اور احساسات کی بھر پور رہنمائی کی گئی ہے، ان کی فنکارانہ صلاحیتوں نے غزلوں اور نظموں کو دوام بخشا ہے، ان کی شاعری کی زبان سلیس وسادہ ہے ۔
کوئی مرکز کوئی مدار نہیں
سانس لینے پہ اختیار نہیں
جانے کس قید میں یہ آدم ہے
بستیوں میں کہیں پہ غار نہیں
شبینہ آراء نے اپنا کلام منفرد انداز اور بیباک لب ولجہ سے پیش کیا ہے اور نسوانی جذبات کو زبان دیکر ان کے جذبات اور احساسات کو ہیروں سے تراشا ہے۔
ہجر کی پوٹلی میں بھر بھر کے یاد تھی اور ان کے وعدے تھے
میں جہاں سے فرار ہوجاتی مجھ پہ رنج والم کے پہرے تھے
شبینہ آرا نے اپنی ایک نظم ’’میں زندان کاٹ سکتی ہوں‘‘ میں دنیا کی بے ثباتی اور محبوب حق سے شکوہ کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس نظم میں بھی تنہائی کی ذکر ہے مگر ملنے کی آش بھی ہے۔
تمہارے سب کے سب منصف مجھے سولی چڑھائیں گے
مجھے اس قصرِ الفت سےنکالیں گے کبھی تنہا
نہ جانے پھر کہاں کس موڑ پرمیں آخری سانسیں
تمہارے پیار کی خوشبو میںلے کر لوٹ جاؤں گی
اسی دنیا میں،جس کو عالم ارواح کہتے ہیں
شبینہ جی نے اسی نظم پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت نظم کو اپنے مجموعہ ’یاد تنہا کبھی نہیں آتی‘میں پیش کیا ہے ۔ان کی نظمیں پیاری بھی ہیں اور ان میں مٹھاس بھی ہے ان کی سبھی نظمیں شاہکار نظمیں ہیں ان نظموں کو سجانے سنوارنے میں سخن طرازی سے کام لیا گیا ہے ،ان کے میٹھے بول انسان کے دل کو کُرید رہے ہیں اور اس بات پر اُکسا رہے ہیں کہ اگر اس شاعرہ پر رقمطرازی نہیں کی گئی تو حق ادا نہ ہوا، کیونکہ انہوں نے کم عمری میں ہی کمال کردیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شبینہ آرا نے ان سماجی بندشوں کو ہٹایا ہے جن سماجی بندشوں کی وجہ سے ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں چار دیواریوں میں قید ہیں اور کچھ لکھنے یا پیش کرنے سے کتراتی ہیں کیونکہ یہ معاشرہ شعراء کو حقیر نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ہمیں امید قوی ہے کہ آپ اس معاشرے کی نسوانی آوازوں کےلئے بہترین راہنما ثابت ہوں گی ۔شبینہ جی کی نظموں میں ہجر بھی ہے مقاومت بھی ہے آشتی بھی ہے اور امید بھی ہے تم چراغاں کرو میں آؤں گی، اے موت ذرا مہلت دے، میں نے خود کشی کرلیں، زندگانی میری اور کہانی کی یوں ابتدا ہوگئی، working lady, میں کیوں رو نہیں پاتی اور کوئی کاندھا نہیں میسر ہے ،جیسی شاہکار نظمیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ شبینہ آرا نے یہ نظمیں خود تخلیق نہیں کی ہیں بلکہ ان کو یہ نظمیں یا تو الہام سے ملی ہیں یا ان کے پیچھے کسی غیبی مخلوق کا ہاتھ ہے کیونکہ ان کی اکثر نظمیں دل کو پیوستہ ہو جاتی ہیں، ان کی نظمیں نئی فکر اور نیا ولولہ عطا کرتی ہیں۔ ان کے کلام میں ابہام نہیں ہے بلکہ سادگی ہے جس کی وجہ سے ان کا کلام ایک عام قاری کے فہم میں بھی آسکتا ہے جو ایک شاعر یا شاعرہ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
نظم working lady میں عورتوں کے کرب انگیز زندگی کو خوبصورت پیرائے میں سجایا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی خاتون آکر یہ قصہ میرے کانوں میں سُنا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ مجھے سُنیں، داد دیں اور اس ظالمانہ زندگی سے چُھٹکارا بھی دیں جس نے کام والی خواتین کی زندگیوں پر داب بٹھایا ہے، دن بھر کے کام کاج نے ان کی زندگیاں اجیرن بنادی ہیں اور معاشرے کی غلامی نے انہیں خاموش کردیا ہے، ان کی زندگیاں اندر سے سُلگ رہی ہیں مگر ان کے منہ سے اُف تک نہیں نکلتا۔
اور اپنی راتوں کو سب کے کپڑے
بھی دھو رہی ہوں، سکھارہی ہوں
میں گھر کے کاموں کو روز صبح
ادھورا رکھ کے سمیٹی ہوں
تو پھر نکلتی ہوں اپنے آفس
یہی دو جگہیں ہیں میری دنیا
یہیں پہ دنیا سمٹ گئی ہے
تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور شاعرہ شبینہ آراء کو ’’یاد تنہا کبھی نہیں آتی‘‘ نے ہمعصر معتبر شعراء کے پاس ہی تخت نشین کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ادبی اُفق پر چھا جائے گی اور آنے والے زمانے میں ایک اچھی شاعرہ کے طور پر اُبھرے گی ۔آپ ایک نڈر، بیباک اور آزاد خیالات کی شاعرہ ہیں، اسی آزاد خیالی اور بیباکی نے ان کی شاعری میں چار چاند لگائے ہیں۔آپ نےمعاشرے کی طرف سے لگائے ہوئے نسوانی دیواروں کو پھاند کر شاعری کی ہے اور اپنی غیرت مندی سے خود کو سماجی آئینہ کے برعکس دکھا کر شاعری کا مشغلہ چُن لیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ایک بہترین شاعرہ کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے ۔اگر شبینہ آرا ءکی اس مجموعے پر لکھا جائے گا تو ایک ضخیم کتاب درکار ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ شبینہ آراء کا شاعری گلدستہ منظر عام پر آنے سے اردوزبان و ادب میں ایک اور دُر کا اضافہ ہوا ہے۔
رابطہ۔7006259067
[email protected]