ملک منظور
منشیات کی وباء آج کے دور کا سب سے بڑا سماجی ناسور بن چکی ہے۔ یہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور قوم کا مسئلہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ وباء دن بدن خطرناک رفتار سے پھیل رہی ہے اور خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں، لیکن جب یہی نسل منشیات کے اندھے کنویں میں گر جائے تو ایک پورے معاشرے کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ایک طرف جہاں حکومت اس ناسور کے خاتمے کے لئے کوششیں کررہی ہےتو دوسری طرف عوام تواتر کے ساتھ بےحسی اور غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔اس معاملے میں اکثر لوگ یا تو خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں یا اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر سب کچھ حکومت پر چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ نادان تو اس حد تک بےوقوفی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اِسےحکومت کی ہی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ یہ سوچ نہ صرف غلط ہے بلکہ اس سوچ سے ہم اپنی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ منشیات فروش کون ہیں؟
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ منشیات فروش کوئی سرکاری ایجنٹ نہیں ہوتا، دراصل وہ شخص ہے جو راتوں رات امیری کے خواب دیکھتا ہے، دولت کی ہوس میں اندھا ہوجاتا ہے، اور اپنی عیاشی کے لیے انسانیت کو تباہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہ لوگ ہماری گلیوں، محلوں اور تعلیمی اداروں میں چھپ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی مکاری یہ ہے کہ یہ سب سے پہلے نوجوانوں کو معمولی قیمت پر منشیات فراہم کرتے ہیں، پھر جب عادت پڑ جاتی ہے تو قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ اس طرح نوجوان ان کے شکنجے میں آجاتے ہیں۔ ایسے افراد کے خلاف حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا تعاون بھی نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم سب مل کر خاموشی توڑیں اور غیرت و ہمت کا مظاہرہ کریں تو یہ وباء قابو میں آسکتی ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہر گھر میں کوئی نہ کوئی فرد منشیات کا عادی ہوگا اور ہر والدین کے لئے پچھتاوا ہوگا۔
ان حالات میں والدین اور نوجوانوں کی ذمہ داری کیا ہے،اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔کیونکہ اس وباء کا خاتمہ کرنا محض حکومت یا پولیس کاہی کام نہیں ہے بلکہ یہ والدین ،معاشرےاور نوجوان نسل کی بھی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو عمدہ تعلیم، اچھے کپڑے اور لذیذ کھانے دینا ہی کافی نہیں ہے، ان کے لیے ایک محفوظ، صحت مند اور مثبت ماحول فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر اردگرد کا ماحول منشیات سے آلودہ ہے تو کوئی بچہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ بچے سب سے زیادہ اپنے دوستوں اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ محض اعتماد پر اکتفا نہ کریں بلکہ احتیاط کے ساتھ اپنے بچوں کے چال چلن پر نظر رکھیں۔ اچانک بدلنے والے رویے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔ان چند اہم علامات کو معمولی نہ سمجھیں: �اگر لڑکا یا لڑکی چیزیں چھپانے لگے�اپنے کمرے میں کسی کو نہ آنے دے یا تنہائی پسند ہوجائے�نیند میں بے ترتیبی، یعنی یا تو بہت زیادہ سوئے یا بالکل نہ سوئے�پیسوں کی بار بار مانگ کرے اور نہ ملنے پر جھگڑنا شروع کرے�اسکول یا کالج سے جی چرانا یا کارکردگی میں نمایاں کمی دکھانا�آنکھوں �کا لال ہونا یا بار بار زکام رہنا�ڈر اور خوف کی کیفیت طاری ہونا�اپنے ہی خیالوں میں گم رہنا ۔یہ سب علامات والدین کو فوراً خبردار کرنے کے لیے کافی ہیں۔
انفرادی یا سماجی ذمہ داری : منشیات صرف ایک فرد کو نہیں بلکہ پورے سماج کو متاثر کرتی ہیں۔ گھروں میں چوریاں بڑھتی ہیں، ڈاکے پڑتے ہیں، خواتین کی عزتیں غیرمحفوظ ہوجاتی ہیں، نوجوانوں میں بدمعاشی اور بدحواسی بڑھتی ہے، والدین کی محنت اور خواب بکھر جاتے ہیں اور معاشرہ اخلاقی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔
ہم سب پر یہ اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر عقابی نظر رکھیں۔ جہاں بھی یہ لعنت دکھائی دے ،وہاں خاموش نہ رہیں بلکہ یا تو خود اس کے خلاف کھڑے ہوں یا سرکاری اداروں کو بروقت اطلاع دیں۔
کون کون لوگ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں؟ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں:ایک منشیات فروش اور دوسرامنشیات کا عادی فرد۔
منشیات فروش اسکولوں، کالجوں، کوچنگ مراکز، کھیل کے میدانوں اور عوامی مقامات کو اپنا ہدف بناتے ہیں۔ ان پر کڑی نظر رکھنا اور فوری طور پر حکام کو اطلاع دینا لازمی ہے۔
جبکہ منشیات کے عادی افراد دراصل مریض ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ نفرت یا بائیکاٹ کے بجائے ہمدردی اور بروقت علاج کی ضرورت ہےاور ان کی زندگی میں سدھار لاناہم سب کاانسانی اور دینی فریضہ ہے۔
غلط فہمیاں اور توہمات نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں
ہمارے معاشرے میں سب سے بڑی رکاوٹ غلط فہمیاں اور توہمات ہیں۔ اکثر والدین جب دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے کا رویہ بدل رہا ہے تو وہ فوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس پر کسی نے جادو، تعویذ یا جنات کا اثر کردیا ہے۔ نتیجتاً وہ انہیں کسی پیر یا درویش کے پاس لے جاتے ہیں۔ جب ان سب سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، تب ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور بچہ منشیات کا عادی بن چکا ہوتا ہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ توہمات کو چھوڑ کر حقیقت پسندانہ رویہ اپنائیں۔ وقت پر علاج ممکن ہو تو نوجوان اس لعنت سے آزاد ہوسکتا ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں کئی ریہیب مراکز قائم کئے ہیں جہاں علاج اور تربیت کے بعد نوجوان صحت مند زندگی کی طرف لوٹتے ہیں۔ ضلع کولگام میں بھی ایک ریہیب مرکز ہے جہاں متعدد نوجوان اس لت سے نجات پاچکے ہیں۔
ضلع کولگام میں ایڈمنسٹریشن کے قابل تحسین اقدامات :
جہاں ملک بھر میں منشیات کے خلاف مہم جاری ہے، وہیں ضلع کولگام میں ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں ایک بھرپور مہم چل رہی ہے۔ گاؤں گاؤں آگہی پروگرام ہو رہے ہیں، اسکولوں اور کالجوں میں لیکچرز دئیے جا رہے ہیں، نوجوانوں کو منشیات کے نقصانات بتائے جا رہے ہیں اور لوگوں کو اس مہم میں شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ نہایت حوصلہ افزا قدم ہے اور امید کی جارہی ہے کہ کولگام جلد ہی منشیات سے پاک ضلع قرار پائے گا۔بے شک منشیات صرف ایک شخص کا نہیں بلکہ پورے سماج کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے اب خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ذمہ داری نبھائیں، اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھیں، نوجوانوں کو شعور دیں اور منشیات فروشوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔ یہی وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس ناسور کے خلاف جدوجہد کریں۔اگر آج ہم نے آگاہی پھیلائی، بروقت علاج فراہم کیا اور اپنے بچوں کو محفوظ ماحول دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں دعائیں دیں گی، ورنہ تاریخ ہمیں مجرم قرار دے گی۔