26جون کو پوری دنیا میں منشیات کے انسداد کا دن منایاگیا ۔ا س سلسلے میں دنیا بھر سمیت جموںوکشمیر میں بھی تقاریب منعقد ہوئیں جن میں منشیات کی سنگینی کو اجاگر کیاگیا۔منشیات کے تئیں صفر رواداری کی پالیسی کے باوجودجموں و کشمیرمیں منشیات کی وجہ سے نوجوانوں کی پوری نسل کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔عمر عبداللہ حکومت کو درپیش سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت ہے جس میں خاص طور پر نوجوانوں میں ہیروئن کا بڑھتا ہوا استعمال انتہائی تشویشناک ہے۔صورتحال کس قدر سنگین ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2021سے جموں و کشمیر میںنارکوٹکس ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک سبسٹینس ایکٹ کے تحت6500 سے زیادہ مقدمات درج کئے گئے اور 9424گرفتاریاں کی گئیں۔مزید یہ کہ گزشتہ پانچ برسوں میں تقریباً 8000کلو گرام منشیات تلف کی گئی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران کشمیر میں منشیات کے استعمال، خاص طور پر ہیروئن کی لت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کی مرکزی وزارت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں بھارت میں اوپیئڈ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ سماجی انصاف اور امپاورمنٹ کی وزارت کی ایک رپورٹ سمیت مختلف اندازوں کے مطابق جموں و کشمیر میں مختلف منشیات کا استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد 10لاکھ سے 14لاکھ کے درمیان ہے۔وزارت نے مزید بتایا کہ جموں و کشمیر میں 1.4لاکھ لوگ بھنگ کے فعال صارفین ہیں جن میں 36000خواتین شریک شراکت دار ہیں۔ یہ معاشرے کے ہر ذی شعور کیلئے عین صدمہ ہے کیونکہ معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ تیزی سے منشیات کے استعمال کی لعنت کا شکار ہو رہا ہے۔5.34لاکھ مرد اور 8000خواتین کی کافی تعداد افیون کی لت میں مبتلا ہیں۔ مزید یہ کہ 1.6لاکھ مرد اور 9000خواتین سکون آور نشے کا شکار ہیں۔عملی طور پر ایک ہیروئن کا استعمال عام بن چکاہے ۔انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنس، جی ایم سی سری نگر کی ایک بصیرت انگیز رپورٹ نے کشمیر میں ڈرگس پر انحصار کے پھیلاؤ کو آبادی کا 2.87فیصد شمار کیا ہے۔ان میں سے، پریشان کن 2.23 فیصد اوپیئڈز کا غلط استعمال کرتے ہیں، ایک ایسی تعداد جو خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے، اور صحت عامہ کی ممکنہ ہنگامی صورتحال کے بارے میں جنگی بنیادوں پر اقدامات شروع کرتی ہے۔ماہرین اس مسئلے کی وجہ منشیات کی آسان دستیابی، نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع کی کمی اور پچھلی دہائیوں میں موجود سماجی و سیاسی منظرنامے سمیت متعدد عوامل کو قرار دیتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ80کی دہائی سے2000تک چرس کا استعمال عام تھا تاہم پھر معاملات بدل گئے ہیں اور اب عادی لوگ ان انجیکشنوں سے آگے بڑھ سخت گیر منشیات یعنی افیون اور ہیروئن کی جانب مائل ہوگئے۔انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز سرینگر کی ایک تحقیق کے مطابق کشمیر میںسب سے زیادہ ڈیمانڈ نشہ آور اشیاء کی ہے جو 85.30فیصد ہے اور اس میں52.3فیصد ہیروئن کا استعمال ہورہا ہے جبکہ اس کے علاوہ 11.6فیصد بھنگ اور2.1فیصد شراب نوشی کا سہارا لے رہا ہے ۔تحقیق کے مطابق انتہائی قلیل تعداد میں منشیات کے عادی لوگ دیگر چیزوں کا سہارا لے رہے ہیںجن میں0.2فیصد نشہ آور گولیوں اور 0.7فیصد دیگر اشیاء جیسے بوٹ پالش وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں۔
موجودہ حکومت نے منشیات کی لعنت سے نمٹنے کیلئے مزید جامع حکمت عملی کا وعدہ کیا ہے اور منشیات کے خلاف جنگ نیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور کا حصہ ہے۔حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ منشیات سمگلنگ کو روکنے کیلئے مرکزی حکام اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرے گی اور پہلے سے متاثرہ افراد کے علاج کیلئے ضروری وسائل مہیا کرے گی۔نشے سے متاثرہ خاندانوں کیلئے سپورٹ سسٹم کی ضرورت بھی ایک ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔تاہم یہ بھی ہمیںماننا پڑے گا کہ جب تک ہم مجموعی طور بحیثیت سماج اس عفریت کے خلاف مل کر نہیں لڑینگے تو کچھ بدلنے والا نہیں ہے اور ہم اپنے نوجوانوں کے جنازے اٹھتے دیکھتے رہیں گے جو اس قوم کی تباہی کا آخری ذریعہ ثابت ہوگا۔