جموں و کشمیر کےلیفٹینٹ گورنر منوج سنہا نے پھر ایک بار یہ بات دوہرائی ہے کہ انتظامیہ نے جموں و کشمیر کو منشیات سے پاک بنانے کے لئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے۔ انہوں نے گذشتہ روز محکمہ داخلہ کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منشیات کے خلاف زیر و ٹالرنس کی پالیسی کے تحت پولیس ،سول انتظامیہ اور لوگوں کو مل جُل کراس لعنت کے خاتمے کے لئے کام کرنا چاہئےتاکہ یہاں کی نوجوان نسل اس لعنت سے بچایا پائے ۔وادی ٔ کشمیر کا ہر ذی ہوش فرد ایک طویل عرصے چلی آرہی اس صورت حال سے بخوبی واقف ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ناجائز اور غیر قانونی دھندے،منشیات کا کاروبار ،نقلی ادویات کی فروخت ،ناجائز منافع خوری اور رشوت خوری کے رجحان میںکوئی کمی نہیں ہورہی ہے بلکہ جرائم کی وارداتوں کے ارتکاب میں بھی اضافہ ہورہا ہےجبکہ بعض ایسی وارداتیں بھی ہو رہی ہیں ،جن میںانسانی زندگیاں موت کے گھاٹ اُتاری جارہی ہیں۔ظاہر ہے کہ جرائم کی روک تھام کے ذمے دار محکموں میں پولیس کا ادارہ ساری دُنیا میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے لیکن ہمارے یہاں صورتحال اس حوالے سے خاصی مختلف نظر آتی ہے۔ محکمے میں فرض شناس افسروں اور اہلکاروں کی موجودگی سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا جو انسداد جرائم کی مہمات میں اپنی زندگیاں دائو پر لگادیتے ہیں لیکن پولیس کا عمومی رویہ اس کے برخلاف نظر آتا ہے، جس کے باعث عام تاثر یہی ہے کہ محکمہ پولیس کے اکثرآفیسر اور اہلکاراپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوںکا سنجیدگی کے ساتھ مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پائیدار طریقے پرجرائم پر قابو پاناناممکن بن جاتا ہے۔آج بھی اطراف و اکناف میںمنشیات کا استعمال کرنے والوں کی ٹولیاںگھوم پِھر رہی ہیں جبکہ ہسپتالوں میں زیر علاج نشیئوں کی صورت ِ حال دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہےکہ یہ کس معاشرے کے جوان بچے ہیں جو اس لعنت کا شکار ہوچکےہیںاور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر اپنے گھر والوں اور معاشرے کے لئے بوجھ بن بیٹھے ہیں۔ افسوس ناک بات ہے کہ جن والدین کی یہ پیارے اورراج دُلارےجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس غلیظ ماحول میں پڑ کے اب چلتی پھرتی لاشیں دکھائی دیتے ہیں،اس کے بعد بھی ہمارے یہاں جس قدر نوجوان نسل نشہ کی لَت میں پڑرہی ہے ، اُس سے کہیں زیادہ منشیات فروشوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وہ یہ میٹھا زہر کس طرح نوجوان نسل کی نَس نَس میں بھر رہے رہے ہیں،پولیس کی حِس ابھی بھی اس کی تہہ تک پہنچ نہیں پارہی ہے۔ منشیات فروشوں نےپڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اپنا آلۂ کار بنا لیا ہے،جو مختلف آبادیوں اور مختلف علاقوں میں اَن پڑھ اور زیادہ تر پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کومنشیات فراہم کررہے ہیں۔یہاں تک کہ شہر اور دیہات کے مختلف علاقوں میں واقع اسکولز اور کالجز کے باہر بھی منشیات مافیاکے کارندے طلباء و طالبات کو منشیات بہم پہنچارہے ہیں۔حقائق انتہائی کرب ناک اور دلوں کو دہلانے والے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو معاشی بحران اور مادہ پرستی کی دوڑ میں لگا کر شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ وہ اس ڈپریشن سے نکلنے کا واحد علاج جان لیوا اِس میٹھے زہر ہی کو سمجھتے ہیں، اِسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کے لئے جہاںچوریاںکرنے سے گریز نہیںکرتے،وہیں اپنے سگّے رشتوں اور رابطہ داروں کو ذہنی اور جسمانی طور نقصان پہنچانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں۔منشیات کے کاروبار اور استعما ل کے خلاف پولیس کی روزانہ کاروائیوں کے باوجود یہ سلسلہ دن بہ دن فروغ کیوں پارہا ہے ،اس سوال کا ابھی تک کوئی ٹھوس جواب نہیں مل رہا ہے۔شائدہمارا معاشرتی رویہ بالکل خود غرضانہ ہوچکاہےجو ہمیں کوئی درست سمت نہیں دکھا رہا ہےاور معاشی اصلاح کا علَم اُٹھانے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں ہورہا ہے۔جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ جب تک منشیات کے بڑھنے کے اسباب و محرکات کو ختم کرنے کے لئےمعاشرے کا ہر طبقہ اپنا ذمہ دارانہ اور غیر منصفانہ کردارادا نہیں کرتا، تب تک اس کے خاتمہ ممکن نہیں۔اس لئے گورنر مسٹر سنہا کا یہ کہنا بالکل درست ہےکہ منشیات کے خلاف زیر و ٹالرنس کی پالیسی کے تحت پولیس ،سول انتظامیہ اور لوگوں کو مل جُل کراس لعنت کے خاتمے کے لئے کام کرنا لازمی ہے۔