محمد عرفات وانی
رات کی سیاہی آسمان پر یوں پھیلی تھی جیسے کائنات نے اپنے سارے دکھ سمیٹ کر اندھیرے کے پردے میں چھپا دیئے ہوں۔ اسی سناٹے میں ایک تنگ و تاریک گلی کے کونے پر، ایک نوجوان اپنی ہی پرچھائی کی مانند دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ سانسیں بےترتیب، آنکھوں کے گرد وحشت کے سائے اور ہاتھ میں لرزتی ہوئی سرپنچ۔ اس میں وہ زہر بھرا تھا جو لمحہ بھر کا سکون دیتا ہے مگر زندگی بھر کا چراغ بجھا دیتا ہے۔
وہ نوجوان شہریار تھا۔
ایک عام سا لڑکا، مگر خواب غیر معمولی۔ ماں باپ کی دعاؤں کا مرکز، ان کی امیدوں کا محور۔ والد ایک چھوٹے سرکاری ملازم، جن کے پسینے کی ہر بوند بیٹے کے مستقبل کے لئے وقف تھی۔ ماں بھی خاموش دعاء کی صورت، جو بیٹے کی کامیابی کو اپنی مسکراہٹ سے زیادہ عزیز سمجھتی تھی۔
مگر خواب جب خواہشات کے شور اور محرومی کے طوفان میں دب جائیں تو کمزور دل ٹوٹنے لگتا ہے۔ شہریار بھی ٹوٹنے لگا۔ دوستوں کی چمک دمک، مہنگے کپڑے، نئے فون، ہر وہ آسائش جو اس کے والد کی حیثیت سے باہر تھی۔ وہ اوپر سے مسکرا دیتا مگر دل میں ایک خالی پن گونجتا رہتا۔
اسی خلاء نے اسے ندیم کے قریب کر دیا۔ ندیم،جس کی آنکھوں میں ہنسی تھی مگر ہنسی کے پیچھے زہر چھپا ہوا۔ ایک دن اس نے شہریار کے کان میں سرگوشی کی:
دنیا جینے کے ہزار راستے دیتی ہے، بس ہمت چاہیے۔ پیسہ ہی پیسہ۔۔۔ اگر تم چاہو تو۔
یوں پہلی پُڑیا شہریار کے ہاتھ آئی۔ پہلا کش، پہلا سرور۔ وہ لمحہ جس نے سکون کے بہانے اسے دلدل میں اُتار دیا۔ دلدل ایسی کہ جس میں قدم رکھنے والا کبھی واپس نہیں آتا۔
وقت گزرتا گیا۔ محبت کے رنگ مدھم ہو گئے، خواب بکھر گئے، ماں کی مسکراہٹ اور والد کی نصیحتیں سب پس منظر میں ڈھل گئیں۔ اب زندگی کا مرکز صرف ایک تھا، نشہ۔ پہلے جیب خالی ہوئی، پھر دوستوں سے مانگنے لگا، پھر چوری تک بات جا پہنچی۔
ایک دن والد نے بیٹے کو اس حال میں دیکھا تو صبر ٹوٹ گیا۔ آنکھوں میں آنسو اور دل میں شعلہ لئے وہ چیخ اٹھے:
“یہ کیا زہر ہے جو تمہاری رگوں میں نہیں بلکہ ہماری سانسوں میں دوڑ رہا ہے؟”
لیکن شہریار کے لئے یہ الفاظ بےمعنی ہو چکے تھے۔ زہر نے کانوں کو سُن اور دل کو پتھر بنا دیا تھا۔
پھر وہ رات آئی جب آسمان بھی رو رہا تھا۔ بارش کی بوندیں یوں برس رہی تھیں جیسے کائنات خود نوحہ پڑھ رہی ہو۔ شہریار کی رگوں میں طلب بےقابو ہو گئی۔ جیب خالی اور دوست غائب، گھر سے نکلنے کی ہمت باقی نہ رہی۔ بےبسی نے اسے ایک نئی ڈرگ کے حوالے کر دیا۔ ایسی ڈرگ جو ایک ہی لمحے میں سب کچھ سلب کر لیتی ہے۔
اس نے سرنج بازو میں گُھسائی۔ لمحہ بھر کو ماں کی تھکی ہوئی آنکھیں اور والد کی خاموشی نگاہیں سامنے ابھریں۔ ایک سوال سا دل میں اٹھا’’کیا واقعی سکون اسی زہر میں ہے؟‘‘ —مگر جواب دینے سے پہلے ہی اندھیرا چھا گیا۔ اس کے وجود نے زمین کو بوجھ بن کر جکڑ لیا۔
صبح ہوئی تو محلے میں ایک ہی خبر گونج رہی تھی:
“شہریار مر گیا۔”
لاش کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ کچھ آنکھوں میں آنسو تھے، کچھ زبانوں پر زہر۔
ماں کی چیخیں گلی کے ایک ایک پتھر میں پیوست ہو رہی تھیں اور باپ کی خاموشی خود ایک ایسا نوحہ تھی جسے کوئی سن نہیں سکتا تھا۔
زندگی کی راہوں پر اس کا سفر تھم گیا، مگر گلی کے سناٹے میں ایک سوال ابھی بھی زندہ تھا:
“قصور اس کا تھا، یا اس سماج کا جو دکھاوے کی روشنی میں حقیقت کے اندھیرے کو بھول گیا؟”
یہ سوال وہی سن سکتا ہے جس کے دل میں آنے والی نسلوں کے لئے دھڑکن باقی ہو۔
���
کچھمولہ ترال پلوامہ کشمیر
[email protected]