پروفیسر مشتاق احمد
حال ہی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) نے ملک میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کو کیمپس کھولنے کی اجازت دے دی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے ہندوستانی طلبا وطالبات کو نہ صرف آسانیاں پیدا ہوں گی بلکہ ملک سے جو ایک خطیر رقم غیر ملکوں میں چلی جاتی ہے اس میں بھی کمی واقع ہوگی کیوں کہ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں ہندوستانی طلبا کو اپنی فیس ودیگر اخراجات کے لئے ڈالر کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی اپنی رپورٹ میں اس کی وضاحت کی تھی کہ 2022ء میں تقریباً 13لاکھ ہندوستانی طلبا وطالبات نے غیر ملکی یونیورسٹیوں کا رُخ کیا ہے جن پر 25ارب ڈالر کے اخراجات ہوتے ہیں۔ بلا شبہ حال کی دہائی میں اپنے ملک کی یونیورسٹیوں کے معیار کی پستی کا حوالہ دے کر بڑی تعداد میں طلبا غیر ملکی یونیورسٹیوں کا رخ کرنے لگے ہیں ۔برطانیہ ایک تنظیم برٹش ایجوکیشن سٹن ٹرسٹ کے چیئر مین سر پیٹر لیمپل نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ برطانیہ کی دس بڑی یونیورسٹیوں میں برطانیہ کے مقامی طلبا سے زیادہ ہندوستانی طلبا داخلہ کے لئے درخواست دیتے ہیں اور ان میں تقریباً صد فیصد طلبا کو کسی نہ کسی فیکلٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔سر لیمپل کے مطابق برطانیہ کی دس یونیورسٹیوں میں جن میں عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیاں آکسفورڈ اور کیمبرج شامل ہیں،ان میں 23897ہندوستانی طلبا نے داخلہ کے لئے فارم داخل کئے ہیںجب کہ برطانیہ کے مقامی طلبا کی تعداد22621ہے۔ان کے مطابق صرف کیمبرج اور آکسفورڈ میں 7998ہندوستانی طلبا کے داخلہ فارم حاصل ہوئے ہیںجبکہ برطانیہ کے شہری طلبا کی تعداد 7544ہے۔ اس اعداد وشمار سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندوستانی یونیورسٹیوں کے تئیں ہمارے طلبا کے ذہن ودل میں کس طرح کے منفی رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔شاید اس لئے یو جی سی نے بر وقت یہ فیصلہ لیا ہے کہ غیر ملکی یونیوسٹیوں کو ملک کی بڑی یونیورسٹیوں کے احاطے میں یا پھر آزادانہ طورپر کیمپس کھولنے کی اجازت دی جائے۔ واضح ہو کہ لندن اسکول آف اکنامکس کے نگراں ڈاکٹر گیون کان لان نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ہندوستانی طلبا کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے برطانیہ کی معاشیات کو بڑا فائدہ پہنچ رہاہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں ہندوستانی طلبا سے مقامی طلبا کے مقابل دس گنا فیس لی جاتی ہے اور جب طلبا وہاں داخلہ لیتے ہیں تو پھر اس کے طعام وقیام کے اخراجات کی وجہ سے بھی برطانیہ کی اقتصادی حالت مستحکم ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ اپنے مالی منفعت کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم رشی سونک نے ایک ایسی اسٹوڈنٹ ویزاپالیسی بنائی ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی طلبا کے لئے وہاں کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا آسان ہوگیا ہے اور اس سال کے اکتوبر تک 148848طلبا وطالبات کو اسٹوڈنٹس ویزا ملا ہے ۔اتنا ہی نہیں برطانیہ کے نامور اسکولی تعلیمی ادارے ہیرو اور ویلنگٹن بھی ہندوستان میں اپنے مراکز کھولنے جا رہے ہیں کیوں کہ انہیں یہاں سازگار ماحول مل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پونے اور بنگلورو میں کئی اسکول ابھی تک کھل چکے ہیں۔برطانیہ کی جن یونیورسٹیوں میں طلبا داخلہ لے رہے ہیں ان میں معروف یونیوسٹیوں کے علاوہ نئی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں اور انجینئرنگ ومیڈیکل کالج میں بھی یہاں کے طلبا کثیر تعداد میں داخلہ لے رہے ہیں۔میڈیکل ،انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس وغیرہ میں طلبا کی زیادہ دلچسپی ہے۔
بہر کیف ،یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے اجازت نامے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی، ملبورن یونیورسٹی، کوئس لینڈ یونیورسٹی، ٹکساس یونیورسٹی اور سینٹ پیٹرس ورک یونیورسٹی جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں نے ہندوستان میں اپنا کیمپس کھولنے کے لئے رضا مندی ظاہر کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھلنے کے بعد ایسے طلبا جو غیر ملکی اخراجات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں ،وہ اب اپنے ملک میں ان عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں گے۔ لیکن ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ غیر ملکی یونیورسٹیاں ہندوستان میں جب آئیں گی تو اپنے داخلہ فیس میں کمی کریں گی یا نہیں اور دوسرا اہم سوال یہ بھی ہے کہ ہماری حکومت نے اپنی تعلیمی پالیسی میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ تعلیم کے ذریعہ ہندوستانی وراثت کی شناخت کو مستحکم کیا جائے گا۔اگر غیر ملکی یونیورسٹیاں آتی ہیں تو وہ ’’ووکل فار لوکل‘‘ کے اصول کو اپنائیں گی ؟اس لئے میرے خیال میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے لئے دروازہ کھولنے کے ساتھ ساتھ ان پر معقول فیس اور ہندوستانی تہذیب وتمدن کے تحفظ کے لئے بھی شرائط طے کرنے ہوں گے۔ساتھ ہی ساتھ اپنے ملک کی یونیورسٹیوں میں بھی بنیادی ڈھانچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے کے لئے نہ صرف لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے بلکہ انقلابی اقدام بھی اٹھانے چاہئیں تاکہ ہماری یونیورسٹیوں میں نئے نئے تکنیکی شعبے قائم ہو سکیں اور مراکز سے دور دیہی علاقوں کی یونیورسٹیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت اپنے وطن عزیز میں مختلف سرکاری اسکیموں اور اسکالر شیپوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جو خاندان اہلِ ثروت ہیں، وہ اپنے بچوں کو بڑی فیس دے کر غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھیج رہے ہیں لیکن جو پسماندہ اور معاشی طورپر کمزور ہیں ان کے لئے اگر ملکی یونیورسٹیوں کو عصری معیار کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لائق نہیں بنایا گیا تو ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے خسارہ ثابت ہو سکتا ہے۔اگرچہ موجودہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی میں بھی اس کی وکالت کی ہے کہ اب تک کی پالیسیوں میں جو نقص رہا ہے اس کو دور کرنے کے لئے ہی یہ نئی پالیسی بنائی گئی ہے ۔اس لئے اب ہمارے ماہرین تعلیم اور مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کی حکومتوں کو بھی اس مسئلہ پر غوروفکر کرنا ضروری ہے کہ اپنے ملک میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس کی توسیع سے ہماری نئی تعلیمی پالیسی کے ساتھ ساتھ ہماری قدیم یونیورسٹیوں کے مستقبل پر اس کے کیا مضر اثرات نمایاں ہوں گے۔چوں کہ ابھی وقت ہے کہ غیر ملکی یونیورسٹیوں کی آمد کے قبل اگر اپنے ملک کی یونیورسٹیوں کی تصویر بدلنے کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو ممکن ہے کہ اس وقت اگر بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹیوں میں ہمارے ملک کی محض چند یونیورسٹی اورآئی آئی ٹی جیسے مراکز کے شمار ہوتے ہیں تو آئندہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ واضح ہو کہ ہر سال بین الاقوامی سطح پر مختلف تنظیموں کے سروے کے ذریعہ یونیورسٹیوں کی رینکنگ کا خلاصہ کیا جاتا ہے اور اس میں ہماری یونیورسٹیوں کو خاطر خواہ جگہ نہیں ملتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹیاں نہیں ہیں مگر نہ جانے کس پیمانے کے تحت جب رینکنگ کی فہرست جاری ہوتی ہے تو ان میں ہمیں مایوسی ہاتھ آتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یو جی سی نے جو فیصلہ لیا ہے، اس کے بعد قومی سطح پر کس طرح کا نظریہ سامنے آتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی بات ہے کہ غیر ملکی یونیورسٹیوں کی آمد کے بعد ہماری ملکی یونیورسٹیوں کی شناخت کے مسخ ہونے کا راستہ تو ہموار نہیں ہو جائے گا۔
موبائل ۔9431414586
ای میل۔[email protected]