طارق شبنم
’’ بہو اے بہو ۔۔۔۔۔۔ کہاں رہ گئی تم ۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ساریکا اپنے کمرے میں ظہر کی نماز اد کررہی تھی کہ ساس کی گرج دار آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرا ئی سا تھ ہی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز بھی آئی ۔اس نے جلدی جلدی نماز اداکی اور کچن میں گئی، جہاں ساس تیوریاں چڑھاکے اس کے انتطار میں کھڑی تھی ۔
’’ بہو ۔۔۔۔۔۔ تمہیں کچھ خیال بھی ہے افطاری تیار کرنے کی ۔یہ گوشت ہے اور یہ سبزی، تین چار قسم کے پکوان بنانا ،آج شاید بٹیا کوثر بھی آئے گی لیکن میرے لئے چکن ہی بنانا ،شوگر پیشنٹ ہوں نا۔۔۔ہاں پورے صحن کی صفائی بھی کرنا ،بٹیا کے ساتھ شاید اس کا شوہر بھی ہوگا‘‘ ۔
اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا اورحسب معمول اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لئے چلی گئی اور ساریکا افطاری کے لئے مختلف قسم کے پکوان بنانے میں مصروف ہوگئی ۔
رمضان کا مقدس مہینہ چل رہا تھا اور ساریکا کا معمول تھا کہ وہ آدھی رات کو بسترچھوڑ کر افراد خانہ کے لئے سحری تیار کرتی تھی،سحری کھانے کے بعد برتن وغیرہ صاف کرتی تھی اور ٖفجر کی نماز ادا کرکے بچوں کے لئے ناشتہ وغیرہ بناتی تھی ،انہیں تیار کرکے سکول بھیجنے کے بعد گھر کے دوسرے کاموں میں لگ جاتی تھی اور ظہر کی نماز کے بعد افطاری کے لئے مختلف قسم کی ضیافتیں تیار کرتی تھی ۔افطاری کے بعددیر رات تک گھر کے کاموںمیں مشغول رہ کر تھک ٹوٹ صرف چند گھنٹوں کے لئے کر سوجاتی تھی ۔
’’ بہو ۔۔۔۔۔ بہو ۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
ساریکا سوچوں کی بھول بھلیوں میں گم کچن کے کاموں میں مصروف تھی کہ ساسوں ماں نے آواز دی اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ با ادب اس کے سامنے حاضر ہوگئی۔
’’بہو ۔۔۔۔۔ یہ میرے کپڑے ہیں ان کی استری کرواور ہاں افطاری کے لئے گا جر کا حلوہ اور سلاد بھی بنانا‘‘۔
ساسوں ماں، جو تسبح ہاتھ میں لئے چار پائی پر گائو تکئے کے ساتھ ٹیک لائے بیٹھی تھی،نے حکم صادر کرتے ہوئے کہا ۔
’’جی ماں جی ۔۔۔۔‘‘۔
واپس آکر ساریکا پھر سے کچن کے کاموں میں جٹ گئی اور کچھ دیر بعد کپڑوں پر استری پھیرنے لگی ،ساس کے کپڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور شوہر کے کپڑوں کی بھی استری کردی جس کے ساتھ ہی افطاری کا وقت قریب آگیا ۔ساس کے کپڑے اس کے کمرے میں لئے اور واپس آکر افراد خانہ کے لئے فرینی بنائی اور شربت روح افزا کا پانی تیار رکھا ۔اس دوران مہمان بھی آگئے ۔ساریکا نے مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کیا ،ان کی خیر عافیت دریافت کی اور انہیں مہمان خانے میں بٹھایا۔اسی دوران ساریکا کا شوہر بھی دفتر سے آیا۔
’’ساریکا ۔۔۔۔۔۔ میرے سر میں درد ہے ،ایک کڑک چائے بنانا میرے لئے ‘‘۔
شوہر نے آتے ہی حکم صادر فرمایا ۔
اذان ہوئی تو سارے افراد خانہ روزہ کھول کر نماز ادا کرنے لگے جب کہ ساریکا ان کے لئے مختلف پکوان پروسنے لگی ۔۔۔۔۔۔
’’ساریکا ۔۔۔۔۔۔جلدی سے مجھے چائے دیدو‘‘ ۔
اس کا شوہر کچن میں آدھمکا ۔
’’ ساریکا ۔۔۔۔۔جلدی سے کھانا لائو بہت بھوک لگی ہے‘‘ ۔
ساریکا نے چائے اس کے سامنے رکھی ہی تھی دوسرے کمرے سے ساس کی آواز آئی ۔
’’ آئی ماں جی‘‘۔
ساریکا نے کہا اور دوسرے کمرے میں،جہاں اس کے ساس سسر اور مہمان بیٹھے تھے ، کھانا سپلائی کرنے لگی اور وہ مزے سے کھانے لگے اور ساریکا سے کبھی ایک چیز تو کبھی دوسرے چیز کی فرمائش کرنے لگے ۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو سا ریکا ،جس کے سر میں درد کی لہریں اٹھ رہی تھی ،نے وہاں سے برتن وغیرہ سمیٹ کر کچن میں رکھ لئے اور چائے کی پیالی لے کر پینے لگی ۔
’’ ساریکا ۔۔۔۔۔ تم چائے پینے بیٹھ گئی ،اندر مہمان بیٹھے ہیں ،ان کے سامنے کچھ میوے رکھو‘‘ ۔
ساس نے کچن میں آکرتسبیح کے دانے پھیرتے ہوئے تلخ لہجے میں کہاحالانکہ وہ جانتی تھی کہ ساریکا بھی روزے سے تھی اور پانی کے چند گھونٹوں سے سوا اس نے ابھی کچھ کھایا پیا نہیں ہے ۔ساریکا نے چائے چھوڑ کر میوے کاٹے اور مہمانوں کے سامنے رکھ کر آئی اور چائے پینے بیٹھ گئی ۔
’’ ساریکا ۔۔۔۔۔۔ جلدی سے کھانا دیدو نماز کے لئے دیر ہورہی ہے‘‘ ۔
ابھی اس نے چائے کے ایک دو گھونٹ ہی پئے تھے کہ ا س کا شوہر کھانا کھانے آگیا ۔اس نے چائے کی پیالی ایک طرف رکھ دی اور شوہر کے لئے کھانا پروس کر اس کے سامنے رکھا اوربرتن صاف کرنے لگی ۔اسی دوران اس کا دیور اور نند جو صرف کھانے پینے کے وقت اپنے کمروں سے نکلتے تھے ،بھی کچن میں کھانا کھانے آگئے ،برتن چھوڑ کر ان کی نا ز برداری کرنے کے بعد وہ پھر سے برتن صاف کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔
’’بہو ۔۔۔۔۔۔ میں اپنے کمرے میں نماز پڑھنے جارہی ہوں ،چائے ذرا ٹھیک ٹھاک بنانا اور ہاں سحری کے لئے پراٹھے بھی بنانا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
ابھی وہ برتن ہی صاف کر رہی تھی کہ ساسوں ماں نے پھر سے کچن میں وارد ہوکرحکم سنایا ۔برتن صاف کرنے اور جھاڑو پونچھا کرنے کے بعد اپنے کمرے میں جا کر بچوں،جو کھیل رہے تھے، کو کھانا کھلا کر سلایا اور واپس آکر تھوڑا سا کھانا پروسا اور کھا نے لگی۔ اتنے میں اس کی بڑی نندبھی کچن میں آگئی اور اسے باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔ کچھ لمحوں کے بعد ہی اس کا شوہر بھی مسجد سے نماز پڑھ کے واپس آیا۔
’’جلدی سے ایک گرما گرم چائے لے کر آئو ‘‘۔
اس نے حکم صادر فرمایا ۔
ساریکا نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور پہلے دوسرے کمرے میں ساس سسر اور مہمانوں کے لئے چائے لے کر گئی اور چائے ان کے سامنے رکھ کریہ سوچ کر خود بھی وہاں بیٹھ گئی کہ کہیں مہمان یہ نہ سوچیں کہ میں ان کے پاس بیٹھی ہی نہیں ۔
’’ساریکا ۔۔۔۔۔۔ ساریکا ۔۔۔۔۔۔ کہاں مر گئی تم ،چائے کیوں نہیں لائی ۔کوئی بھی کام وقت پر نہیں کرتی ہو۔تمہیں دوسروں کے وقت کا احساس ہی نہیں ہے‘‘۔
چائے میں کیا ذرا سی تاخیر ہوئی کہ اس کا شوہر اپنے کمرے میں زور زور سے چلانے لگا ۔
’’ جی ۔۔۔۔۔آرہی ہوں‘‘۔
وہ اٹھی ا ور کچن سے چائے لے کر شوہر کے سامنے رکھی ۔
’’تمہیں کچھ احساس ہے کہ میں روزے سے ہوتا ہوںاور دفتر سے تھکا ہارا آتا ہوں ‘‘۔
’’جی ۔۔۔۔۔۔میں مہمانوں کو چائے لے کر گئی تھی اسی لئے۔۔۔۔۔‘‘۔
ساریکا،جس کے دل میں شوہر کے اس غیر مناسب رویئے سے ایک ہوک سی اٹھی،نے ایک دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ اطمینان بھرے لہجے میں کہا ،لیکن اس مسکراہٹ کے پردے میں ایک حزن وملال بھی چھپا ہوا تھا ۔
’’بکواس بند کرو اور دفا ۔۔۔۔۔ـ‘‘۔
شوہر نے سخت غصے بھرے لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہنا شروع کیا ِ،لیکن اسی وقت اس کی بڑی بہن کمرے میں داخل ہوئی ۔
’’ بھیا ۔۔۔۔۔۔کیا کرتے ہو۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ اس نے اور اس کی ماں نے بہو کو نوکرانی سمجھ رکھا ہے ،یہ بے چاری سحری سے پہلے اٹھتی ہے اور دیر رات تک کام کرتی رہتی ہے،سب کے ناز اٹھاتی ہے، اس کے بغیر گھر کا کوئی فرد گھر کا ایک کام بھی نہیں کرتا ہے اور یہ ماں بیٹا اس کو ہر وقت کوستے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
یہ ساریکا کے سسر کی آواز تھی ۔
’’ مجھے کیوں بیچ میں گھسیٹتے ہو ‘‘۔
اس کی بیوی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
’’تو چپ کر ،بے رحم مکارعورت ۔۔۔۔‘‘۔
اس نے تیز لہجے میں ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کیا۔
رہنے دیجئے پاپا جی ۔۔۔۔۔ آپ جا کر آرام کیجئے۔
ساریکا ،جس کی بڑی بڑی مخمور آنکھوں میںخاموش احتجاج تھا،نے اپنے سسر ،جو بیٹے ا ور بیوی کو کھری کھری سنا رہا تھا،کو انتہائی نرم لہجے میں کہااور وہ دونوں کمرے سے نکل گئے ۔ساریکا کا سسر ایک رحم دل انسان تھا اور ساریکا کے ساتھ ہر وقت ہمدردی کے ساتھ پیش آتا تھا،جب کہ بیوی کو بھی بہو کے ساتھ بیٹی جیسا برتائو کرنے کی نصیحتیں کرتا تھا۔
’’ بھیا ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا طریقہ ہے ،میں افطاری سے پہلے یہاں پہنچی تب سے اب تک بھابھی ایک منٹ کے لئے بھی نہیں بیٹھی،روبوٹ کی طرح لگاتار کام کر رہی ہے ،اس کے با وجود بھی تمہارااور ممی کا اس سے یہ سلوک ،وہ بھی اس مقدس مہینے میں ،مجھے شرم آرہی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ لیکن دیدی ۔۔۔۔۔‘‘۔
’’بھیا ۔۔۔۔۔ایک عورت اپنا سب کچھ چھوڑ کر پرائے گھر جاتی ہے ،اسے ایسے شریک سفر کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے عزت دے، بچوں کی طرح بہلائے، سمجھائے اور خوش رکھنے کی کوشش کرے نہ کہ نوکرانی سمجھ کرچھوٹی چھوٹی باتوں پراس کی بے عزتی کرکے اس کے عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے‘‘ ۔
کہہ کر وہ چلی گئی ۔کچھ دیر بعد کچن کا کام ختم کرکے ساریکا ،جس کے چہرے پر افسرگی کی برف سی جمی ہوئی تھی ،کمرے میں داخل ہوئی اور مصلح بچھا کر نماز پڑھنے میں مشغول ہوگئی جب کہ اس کا شوہر پشیمانی کی حالت میں بستر پر کروٹیں بدلتا رہا ۔
���
اجس بانڈی پورہ(193502)کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛9906526432