مرحوم عمر مجید کی شخصیت ہمہ گیری ہے۔ وہ وادی کشمیر کے ایک معروف افسانہ نگار ، ناول نویس ، کالم نویس اور ماہر تعلیم بھی تھے۔عمر مجید عہد حاضر کے ایک مشہور افسانہ نگار تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ اُن کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۶۵ ء میں ہوا ، جب ان کا پہلا افسانہ بعنوان ’’ ایک بوڑھا ولر کے کنارے ‘‘ روز نامہ ’’ آفتاب ‘‘ میں شائع ہوا ۔اس کے بعد عمر مجید نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ان گنت افسانے قلم بند کیے ،جو ان کی وفات تک کشمیر اور بیران کشمیر سے شائع ہونے والے جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔عمر مجید کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ اُجالوں کے گھاؤ‘ ‘۱۹۶۸ء میں شائع ہوکر اہلِ نظر میں کافی داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔اس مجموعے میں شامل کہانیاں دراصل ہفت رنگ ہیں ۔ ان میں افسانہ نگار نے ایسی حقیقتوں اور سچائیوں کو دریافت کیا ہے جو مروجہ رحجانات سے انحراف کرتی ہیں۔ مجموعے میں شامل کہانیاں کشمیر کی ہو بہو عکاسی اور مصنف کی باریک بینی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان کہانیوں میں مصنف نے کسانوں اور مزدوروں کی مفلوک الحال زندگی کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اکثر افسانوں میں کشمیری تہذیب و ثقافت ، خلوص و محبت ، مہمان نوازی ، کشمیری چائے ، پھرن ، کانگڑی وغیرہ کی عکاسی بیان کی گئی ہیں۔
افسانہ ’’ مردہ چنار ‘‘ بھی مجموعے میں شامل ایک اہم افسانہ شمار کیا جاتا ہے۔جس کے شائع ہوتے ہی ادبی حلقوں میں کہرام سا مچ گیا۔ کیونکہ مصنف نے افسانے میں بعض کمالات اور کرامات کو الفاظ کا ملبوس پہنایا ہے۔ افسانے میں موضوع کی تازگی اور اسلوب کی شگفتگی پائی جاتی ہے، اور خاص کر یہ افسانہ ایک قطعی نئی ادبی طرز تحریر تھی۔
افسانہ’’ مردہ چنار‘‘ میں عمر مجید نے ایک غریب جھونپڑی میں رہنے والے مظلوم رحمان کی روداد بیان کی ہے، جس کو موسم سرما کے لیے قلیل آمدنی ہونے کی وجہ سے کانگڑیاں خریدنے کی بھی طاقت نہیں ہوتی ہے۔ رحمان کی غریبی کا شکار اس کا معصوم بیٹا بھی ہوجاتا ہے۔ وہ بے چارہ کھیلنے کودنے اور تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اکثر ماں باپ کو لکڑیاں جمع کرنے میں ہاتھ بٹاتا ہے۔رحمان اور اس کے اہل خانہ سب مل کر کبھی لکڑیاں جمع کرتے ہیں اور کبھی پتے تاکہ سردی کے موسم میں چھولھابھی جلے اور کانگڑی کے لیے کوئلہ بھی بن جائے۔ سردی میں ان کے پاس گرم کپڑے بھی نہیں ہوتے ہیں اور ان کا بیٹا کانگڑی کا سہارا لے کر دوسرے بچوں کا تما شا د یکھتا رہتا ہے، جو گرم گرم ملبوسات پہننے ہوئے برف میں کھیل رہے ہوتے ہیں،اور رحمان کا بیٹا ہمیشہ سے ان کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتا ہے۔کیونکہ غریبی کی وجہ سے اس نے بہت کم کپڑے پہننے ہیں اور ان مختصر کپڑوں میں ا س کو زیادہ سردی محسوس ہوتی ہے۔ غرض یہ چھوٹا سا کنبہ اسی مردہ چنار کی لکڑیوں سے اپنی زندگی کے دن گذار رہے ہیں ۔ جیسا کہ رحمان اپنی بیوی سے ایک دن یوں کہہ رہا ہے:۔
’’ یہ چنار نہ ہوتا تو سردی سے ہم لوگ مرجاتے ، اللہ بھی کتنا کار ساز ہے۔ ‘‘ ( عمر مجید کے بہترین افسانے ۔ مرتب سلیم سالک ۔ ۲۰۰۹ ۔ ص ۹۸)
افسانہ ’’ مردہ چنار ‘‘ بظاہر ایک سیدھی سادھی غریب رحمان اور اس کے خاندان کی کہانی ہے۔ لیکن اگر ذرا غور سے دیکھا جائے افسانہ نگار اس کہانی میں، ہمیں کچھ اہم نقطوں کی طرف ذہن نشین کرانا چاہتاہے۔افسانے کے آغاز میں ہی مصنف نے قدرت کے قانونِ اساسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان کتنا بھی چاہیے لیکن اس کی جوانی اور خوبصورتی ایک دن ضرور ڈھلنے والی ہے۔ جس طرح خزاں میں بوڑھے چنار کے سرسبز اور شاداب پتے سوکھ کر مرجاتے ہیں اسی طرح انسان لاکھ کوشش کے باوجود بھی ایک دن اپنی مغرور جوانی اور خوبصورتی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔افسانہ نگار ہمارا ذہن اس ذات کی طرف منتقل کرانا چاہتا ہے جس کے دست قدرت میں ان پتوں کی نفاست اور خوبصورتی ہے۔ یعنی اللہ ہی وہ ذات ہے جو ان سوکھے پتوں میں جان ڈال کر ہریالی بخشتا ہے۔
دوسرا نقطہ ہمیں قدرت کے اس نظام کی طرف دعوت دیتا ہے جہاں کوئی بھی تخلیق بے کار نہیں لگتی۔کیونکہ موسم خزاں میں جب پیڑ پودے سوکھ جاتے ہیں تو رحمان جیسے نہ جانے کتنے غریب لوگ پتوں کو جمع کر کے اپنا ذریعہ معاش بناتے ہیں اور خاص کر سرما کی کڑک سردی سے نجات پاتے ہیں ۔مصنف یہاں کشمیری تہذیب و ثقافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں کے لوگ پتوں کو جمع کر کے ان کو کوئلہ اور چھولھا جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عورتیں ان پتوں کو جمع کرتے وقت مختلف قسم کے گیت گاتے رہتی ہے:۔جیسے
جاڑا بیت جائے گا
برف پگھل جائے گی
اور بہار آجائے گی!!۔۔۔۔ ( عمر مجید کے بہترین افسانے ۔ مرتب سلیم سالک ۔ ۲۰۰۹ ۔ ص ۹۸)
مصنف نے افسانے میں امیر لوگوں کی عیش پرست زندگی اور غریب لوگوں کی تنگ دست زندگی کا بھی موازنہ پیش کیا ہے۔کیونکہ رحمان کا بیٹا جو پھٹے کپڑوں کی وجہ سے غلیظ لگتا تھا،پاس والی کوٹھی کے بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر اپنا دل بہلاتا تھا۔وہ بچے مختلف قسم کے گرم ملبوسات پہننے ہوئے برف کے بنائے ہوئے پتلے کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ وہ بچے برف کے پتلے کی آنکھوں میں بڑے بڑے کوئلے اور اس کے سر پر ٹوپی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس رحمان کے بیٹے کی کانگڑ ی میںکوئلہ بڑی محنت و مشقت کے بعد مل جاتا ہے اور امیر بچے ان کوئلوں کو فضول میں برف کے پتلے پر ضائع کرتے ہیں۔ امیر بچے اس پتلے کے سر پر ٹوپی اور گلے میں مفلر ڈالتے ہیں۔ اس کے برعکس رحمان کا لڑکا گرم ملبوسات کے بجائے ساتھ لگی ہوئی کانگڑی کا سہارا لے کر سردی سے راحت ڈھونڈتاہے ۔ رحمان کا لڑکاجس کی عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے اور تعلیم حاصل کرنے کی ہوتی ہے ، لیکن غربت کے مارے ان کی ماں درج ذیل الفاظ سے پکارتی ہے:۔
’’ بد بخت ۔۔۔ ابھی تماشا دیکھ رہا ہے جا لکڑیاں چن کے لا۔ ‘‘ ( عمر مجید کے بہترین افسانے ۔ مرتب سلیم سالک ۔ ۲۰۰۹ ۔ ص ۹۷)
مزید اگر امیر بچوں کو پنسل بناتے بناتے ذرا سی بھی چوٹ لگتی ہے تو ان کے والدین پریشان ہو کر ان کے لئے مختلف قسم کی دوائیاں اور پٹیاں منگوا تے ہیں لیکن جب رحمان کے بیٹے کا ہاتھ لکڑیاں جمع کرتے کرتے بُری طرح زخمی ہو جاتا ہے تو وہ بے چارہ پٹی باندھے کے بجائے اپنے زخمی ہاتھ کو اپنی پھٹی ہوئی نکر پر رگڑتا ہے۔افسانہ نگار نے یہاں بوڑھے چنار کی نفرت کو یوں اظہار کیاہے:۔
’’ کتنے چھوٹے اور کمینے ہیں یہ جھونپڑی وا لے۔ بد تہذیب ، بد اخلاق، ان کو بس پیٹ اور آگ کی فکر رہتی ہے۔ یہ بدصورت لوگ میری خوبصورتی کیا جانیں ۔ یہ انتظار میں لگے رہتے ہیں کہ کب میرے پتے سرخ ہوجائیں تو ان کے دل کی آگ ٹھنڈی پڑ جائے ۔ میری قدر تو یہ کوٹھی والے تہذیب یافتہ لوگ کرنا جانتے ہیں ، اس کوٹھی میں رہنے والی خوبصورت جوان لڑکیاں جس کے بال میرے خزاں کے پتوں کی مانند سرخ ہیں، جب اپنے گورے گورے ملائم ہاتھوں سے مجھے کینوس پر دلکش رنگوں سے سجاتی ہے تو اس کی ماں کتنی خوش ہوجاتی ہے۔ ‘‘ ( عمر مجید کے بہترین افسانے ۔ مرتب سلیم سالک ۔ ۲۰۰۹ ۔ ص ۹۸)
غریب لوگوںکی تنگ دستی تب حد پار کرتی ہے، جب دولت مند لوگ ان کا ذریعہ معاش چھین لیتے ہیں۔اسی طرح جس طرح رحمان کا ذریعہ معاش ایک امیر آدمی اپنے پیسوں سے بوڑھے چنار کے پتوں کو خرید کر رحمان کا ذریعہ معاش چھین لیتا ہے، اور رحمان کو پتے جمع کرتے وقت یوں ڈاٹتا ہے:۔
’’ تم یہ پتے کیوں جمع کر رہے ہو ۔ ‘‘
رحمان نے پہلے اس کو حیرت سے دیکھا پھر بولا۔
’’ جناب ہم ہر سال جمع کرتے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’ جناب کے بچے ۔۔۔ ہم نے اس سال اس باغ کے تمام چناروں کو خریدا ہے ۔
چلو بھاگو یہاں سے ۔۔۔ ‘‘ موتی تو ندو والا گرجا۔
’’ جناب ۔۔۔۔‘‘ ! رحمان نے ہاتھ جوڑے ۔
’’ کلو ۔ منجے ۔۔۔۔‘‘ موتی توند زور سے ہلی۔۔۔ کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو ۔ بھگا دو انھیں یہاں سے۔۔۔۔ ‘‘
( عمر مجید کے بہترین افسانے ۔ مرتب سلیم سالک ۔ ۲۰۰۹ ۔ ص ۱۰۰)
افسانہ نگار عمر مجید نے افسانے کے ذریعے ہمارا ذہن ایک اہم نقطے کی طرف منتقل کرانے کی کوشش کی ہے۔ کہ انسان میں مواخات ، مواسات ، ہمدردی اور سخاوت وغیرہ جیسی خصلتیں ہونی چائیں۔ کیونکہ جس طرح بوڑھے چنار کو جھونپڑی میں رہنے والے افراد خانہ کی کراہنے کی آوازیں سن کر ان پر رحم آتا ہے اور تمنا کرتا ہے کہ اس کے پتے پل بھر میں سرخ ہوجائیں اور پھر وہ چیخ چیخ کر رحمان کی بیوی سی کہے ’’ جلدی آؤ ۔۔۔ اور میرے پتے جمع کرو۔ اسی طرح سماج کے ہر فرد میں ایسا جذبہ ایسی ہمدردی غریبوں اور محتاجوں کے لیے ہونی چائیں۔یعنی ہر صاحب نصاب فرد پر یہ فرض بنتا ہے کہ چار پانچ ضیافتوں سے لطف اندوز ہونے سے پہلے وہ ایک بار آس پڑوس میں جھانک کر دیکھے کہ کہیں کوئی بھوک سے تو نہیں مر رہا ہے۔
غرض افسانہ ’’مردہ چنار‘‘ پلاٹ ، مکالمہ نگاری، کردار نگاری اور منظر نگاری کے لحاظ سے ایک قابلِ تعریف افسانہ ہے۔اس میں کشمیری ثقافت ، غریبوں کی تنگ دستی اور عصری مسائل وغیرہ بیان کیے گئے ہیں ۔ اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ افسانہ ’’مردہ چنار‘‘ ایک عمدہ جدید افسانہ ہے ۔
رابطہ : ریسرچ اسکالر یونیورسٹی آف میسور
فون: ۔ 9107458737