ایک ایسے وقت جب جموںوکشمیر میں سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کا داخلہ بڑھانے کے جتن کئے جارہے ہیں اور اس ضمن میں نہ صرف خصوصی داخلہ مہمات چلائی جارہی ہیں بلکہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت سرکاری سیکٹر کو تعلیم کے شعبہ میں فروغ دینے کی کوششیں ہورہی ہیں تاہم آج بھی حکومتی دعوئوںکے برعکس ہمارے سکولی تعلیم کے نظام کی حالت بہتر نہیں ہے ۔سکولوں میں طلباء کے لئے سیکھنے کا اچھا ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بنیادی ڈھانچے سے متعلق تمام مطلوبہ سہولیات فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سکولوں میں طلباء کے لئے مناسب جگہ ہونی چاہئے او ر کلاس رومز کی کمی نہیں ہونی چاہئے تاہم اس حوالے سے صورتحال افسوسناک ہے۔یہ افسوسناک صورتحال نہیں تو اور کیا ہے کہ جموں میں قائم12354سرکاری سکولوں میں سے اکثر سکولوں میںکمرہ جماعت کی کمی ہے اور اساتذہ کو مجبوراً بچوں کو کھلے آسمان تلے پڑھانا پڑرہا ہے اور خراب موسمی حالات میں بچوں کو گھر بھیجنا پڑتا ہے۔کشمیر کی حالت بھی اس سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے جہاں دیہی اور دوردراز علاقوں میںقائم تعلیمی ادارے حکومت کے دعوئوں کی قلعی کھول رہے ہیں۔
سوچھ بھارت مشن اور دیگر کئی سکیموںکے تحت سکولوں میں طلبہ و طالبات کیلئے علیحدہ بیت الخلائوں و غسل خانوں کے قیام کی خاطر کروڑوں روپے صرف کئے گئے لیکن آج بھی یہ حالت ہے کہ ہزاروں سکولوں میں غسل خانے دستیاب ہی نہیں ہیں۔خود ایک حالیہ سرکاری سروے کے مطابق 3093سرکاری سکولوں میں طالبات کیلئے غسل خانے دستیاب نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ 20فیصد سرکاری سکولوں میں طالبات کے بنیادی حق پر ہی شب خون مارا جارہا ہے جبکہ نجی سیکٹر کے سکولوں میں حالت اس سے بھی انتہائی خراب ہے جہاں 50فیصد سکولوں میں زیر تعلیم طالبات کیلئے علیحدہ بیت الخلا کی سہولت دستیاب ہی نہیں ہے۔اعدودوشمار بتاتے ہیں کہ 15فیصد کے قریب سکول ایسے ہیں جہاں طالبات کیلئے بیت الخلاء اور غسل خانہ ،کوئی سہولت دستیاب نہیںہے ۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے سکولوں میں زیر تعلیم طالبات کو کس طرح کی ذہنی کوفت سے دوچار ہونا پڑرہا ہوگا۔اتنا ہی نہیں ،سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جموںوکشمیر میں قائم23173سرکاری سکولوں میں سے18431سرکاری سکولوں میں بنیادی طبی سہولیات کا تصور ہی نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ 80فیصد سرکاری سکولوں میں طبی سہولیات کا نام ونشان تک نہیں ہے اور معمولی سا زخم لگنے پر بھی بچوں کو ہسپتالوں کا رخ کرناپڑرہا ہوگا۔اسی طرح70فیصد نجی سکولوں میں بھی یہ سہولیات میسر نہیں ہیں حالانکہ وہاں طبی سہولیات کے نام پر بچوں سے مسلسل فیس وصولی جاتی ہے۔
سکولوں میں بنیادی تدریسی ڈھانچہ کی کمی مسلسل ایک مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ایک کمرے میں بیک وقت ایک سے زائد کلاسز کا انعقاد دیہی سکولوں میں معمول سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زیادہ ہجوم ہوتا ہے۔ طلباء کو اسباق پر توجہ مرکوز کرنے اور ان کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اساتذہ ایک کمرے میں بیک وقت دو یا تین کلاسیں لیتے ہیں لیکن سمجھے گا کون؟۔ حکام کو چاہئے کہ وہ فوری طور ایسے سکولوں کی نشاندہی کریں اور مزید کلاس رومز تعمیر کریں تاکہ ایک کمرے میں صرف ایک ہی کلاس لی جاسکے اور بچوںکی تعلیم متاثر نہ ہو۔
جہاں تک غسل خانوںا ور بیت الخلائوں کا مسئلہ ہے تو یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔اطلاعات ہیں کہ لڑکیاں ایسے سکولوں میں پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ حکام فوری طور پر اس مسئلے کو حل کریں اور تمام سکولوں میں واش روم فراہم کریں۔لڑکیوں کو صرف اس لئے ناخواندہ نہیں رہنا چاہئے کہ حکام اپنا فرض سمجھداری سے ادا نہیں کر رہے ہیں۔ ہر سکول میں واش روم مہیا کیا جاناچاہئے ۔جب حکومت ترقی پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے تو سکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت فراہم کرنے میں کیا حرج ہے؟ ایسی سہولت کے لئے اتنے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔اعلیٰ حکام کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ جب بھی سکول کی نئی عمارت دور دراز علاقوں سمیت کہیں بھی تعمیر کی جائے تو اس میں لازمی طور پر واش روم بھی ہونا چاہئے۔ ایسے اقدامات بھی اٹھائے جائیں کہ ایسی سہولت نہ رکھنے والے سکولوں کو بھی یہ سہولت مل جائے کیونکہ اس کیلئے مرکزی سرکار کی جانب سے فنڈس کی کوئی کمی نہیں رکھی گئی ہے۔
ایک انتہائی اہم شعبہ ہونے کے ناطے تعلیم حکومت کی اولین ترجیح کا متقاضی ہے۔کچھ مسائل جو بظاہر بہت چھوٹے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت بڑے مسائل ہوتے ہیں۔ ان مسائل کا حل نہ ہونے سے شعبہ تعلیم براہ راست متاثر ہوتا ہے۔بچوں کو کچھ حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا جن کے وہ سکولوں میں مستحق ہیں۔ سیکھنے کا اچھا ماحول اور سکولوں میں بنیادی ڈھانچے سے متعلق مناسب سہولیات کا ہونا تعلیم کے معیار کو بڑے پیمانے پر بلند کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور اس ضمن میں تجاہل عارفانہ سے گریز کرنا چاہئے ۔مقامی لوگوں کو بھی اپنے مسائل کو متعلقہ حکام سے اٹھانا چاہئے اور مسائل کو حل کروانا چاہئے کیونکہ یہ ان کے بچوں کے مستقبل سے جڑے ہوئے مسائل ہیں۔