معروف ادیب ،مدرس ،تنقید نگار اور مقالہ نگار پروفیسرداؤد کشمیری کاچند روز قبل جنوبی ممبئی کے صابوصدیق اسپتال میں انتقال ہوگیا ۔ ان کی خواہش کے مطابق بعد نماز فجر جنوب وسطی ممبئی کے ناریل واڑی قبرستان میں انہیں سپردخاک کردیا گیا ۔ داؤد کشمیری کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اوردوبیٹے ہیں۔ان کے ایک صاحبزادے ڈاکٹر طارق کشمیر ی پیشۂ طبّ سے وابستہ ہیں اور ایک بیٹا فیوجیو تھراپسٹ ہے اور امریکہ میں برسرروزگار ہے۔مرحوم داؤدکشمیری ممبئی شہر کے سماجی ،تعلیمی اور سیاسی حلقوں میں بھی سرگرم رہے۔مرحوم کے آباواجداد کا تعلق ریاست جموں وکشمیر سے تھا ،لیکن آزادی سے قبل ان کے دادا نے پنجاب کا رُخ کیا جب کہ اُن کے والدین ممبئی چلے آئے۔ 1960کے عشرے میں داؤد کشمیر ی نے درس وتدریس شروع کی اور مہاراشٹر ودربھ کے امراوتی شہر میں معلم بن گئے ۔ممبئی میں جنوبی ممبئی کے داؤدی بوہرہ فرقہ کے برہانی کالج میں خدمات انجام دیں اور اداکار منوج کمار کے مقالہ اور اسکرپٹ تیار کرتے رہے ۔دراصل منوج کمار اردولکھنا پڑھنا نہیں جانتے ہیں اور ان کے ڈائیلاگ داؤدکشمیری ہی لکھا کرتے تھے۔مشہور شاعر علی سردار جعفری سے کئی معاملات پر ان کا اختلاف تھا ۔ ’’سردار جعفری کی شاعری فن یا مدفن ؟‘‘ لکھ کر یہ اختلاف نمایاں طور شائقین کے سامنے آگیا ۔
داؤدکشمیر ی کی حیات اور ادبی خدمات کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ ایک تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اردوبھی مقالہ نگار ثوبیہ قمرالزماں انصاری نے پروفیسر صاحب علی کی نگرانی میں تیار کیا تھا ،اس کے مطابق داؤد کشمیری ایک اچھے نثرنگار کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھے ۔اگرچہ مرحوم کشمیری کلاسکیت کے حامل بھی تھے مگر علاوہ ازیں انہیں اشتراکیت کے ساتھ فکری قربت تھی اور جدیدیت کے ترجمان بھی بن جاتے تھے۔ان کی شخصیت کے کئی پہلوتھے کیونکہ وہ فیض احمد احمد کو کافی پسند کرتے تھے۔
انہوںنے فیض اور ہماری کلاسیکی شاعری کے مخصوص ٹکشن اورامیجری کی تشریح کی اور انہوںنے جس انداز میں تشریح کی اس کے بعد ان کی ناقدانہ حیثیت بھی تسلیم شدہ ہوگئی ۔ وہ ایک شارح نگار، ناول نگار،طنز ومزاح نگار اورصحافی ہونےکے ساتھ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔
مرحوم داؤدکشمیر ی نے علی سردارجعفری کی شاعری میں فنی قدروں کی بحث میں جوانداز اپنایا،اس کی وجہ سے تنقید نگاری میں ایک تنازعہ ضرور پیدا ہوا،لیکن ناول نگار ی کی وجہ سے انہیں ادبی حلقہ میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوگئی ۔شاعری میں ان کی کتاب’’عجیب وغریب ‘‘،نثر میں ’’کہاسنا معاف بس ‘‘،’’سرداری جعفری کی شاعری ۔فن یا مدفن؟‘‘،’’شرح کلام فیض ‘‘،’’اردوشاعری میں امیجری ‘‘اور ناول نگاری میں’’ ایک شہر کی کہانی ایک شخص کی زبانی ‘‘ ، ’’جاگتے رہو‘‘۔اس کے ساتھ ساتھ دینی کتابوں میں مفتاح القرآن ، منتخب التفاسیر جلد اوّل اور دوّم ،سیرت النبیؐ کے علاوہ انگریزی کتابیں نیشنل لیگویج اردویا انگریزی اور’’ ربیس آف کمیونلزم ‘‘بھی شائع ہوئی ہیں۔ان کے شاگرد اور سماجی اور تعلیمی میدان میں سرگرم مصطفی پنجابی کا ماننا ہے کہ ڈاکٹر داؤد کشمیری ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور کسی بھی معاملہ میں بے باکی اور بلاخوف اظہار کرتے تھے جب کہ پروفیسر قاسم امام کہتے ہیں کہ انہیںفیض احمد فیض پر دسترس تھی ، ایک اچھے استاد تھے ، ہمیشہ خوش لباس رہے ،خوش کلامی کا مظاہرہ کرتے ،اپنے شاگردوں سے بہترسلوک کرتے ‘‘۔داود کشمیری نے مسلسل لکھا اور حال تک وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ، فیض احمد فیض کو کافی پسند کرتے ہوئے انہوںنے ان کی شاعری پر شرح لکھی تھی۔انہیں مہاراشٹر ساہتیہ اردواکادمی اور دیگر ملکی تنظیموں اور اداروں نے غیر معمولی ادبی خدمات کے اعتراف میں بہت سارے اعزازات و تمغہ جات سے نوازا تھا۔