رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج واقعہ ٔطائف کے پس منظر میں وقوع پذیرہوئی۔واقعہ ٔطائف سے متعلق آپؐ سے اُم المومنین حضرت عا ئشہ ؓ نے استفسار فریا :’’ یا رسول اللہؐ!کیا آپؐ پر اُحد کے دن سے بھی سخت دن کوئی نہیں گزرا ہے؟ آقائے نامدار نے فرمایا:’’تیری قوم کی طرف سے اور تو جو تکلیفیں پہنچیں سو پہنچیں مگر سب سے بڑھ کر سخت دن وہ تھا جب میں نے طائف میں عبدیالیل کے سامنے دعوت اسلام رکھی اور اس نے اسے رد کردیا اور مجھے اس درجہ صدمہ ہوا کہ قرن الثعالب کے مقام تک جاکر بہ صد مشکل طبعیت سنبھل گئی‘‘۔یہ اُس دور ِ پُر آشوب کی بات ہے جب مکہ کی سرزمین تخم ِاسلام کی کاشت کے لیے اب بنجر ثابت ہورہا تھا،البتہ جہاں کہیں زرخیز زمین تھی وہاں اسلام کا بیج ایک تناور درخت بن کر توحید رُبانی کا بہشتی ثمرہ اور جنت نما سایہ دے رہاتھا لیکن اب حال یہ تھا کہ اپنی جان کھپا دینے کے باوجود مکہ کا سوادِاعظم خدائے بزرگ و برتر کی و حدانیت قبول کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں تھا۔ کفار ومشرکین ِ مکہ کے معاندانہ روّیہ سے بدل ہوکر آپؐ طائف کے دعوتی سفرپر اس اُمید کے ساتھ روانہ ہوئے کہ شاید اہل طائف اسلام کے نور سے منور ہوجائیں۔طائف سے متعلق محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ظن نیک کیا کہ زمین زرخیز ہے تو فکرو نظر کی قوتیں بھی بیدار ہوں گی،دل و دماغ بھی مائل بہ ہدایت ہوں گے،روحیں مشاہدۂ حق کی طرف ملتفت ہوں گی۔ اس لئے پیغام ِ حق کے جواب میں اگر اہل مکہ گونگے اور بہرے ہوگئے ہیں تو طائف سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں،وہاںچلنا چاہیے۔۔۔۔طائف میں آپ ؐ کے ساتھ کتنی بدسلوکی کی گئی اور آپؐ کو کس بے دردی کے ساتھ ٹھکرایا گیا، اُس کا اندازہ اس دعا سے کیا جاسکتا ہے جو طائف سے واپسی پر آپؐ نے کائنات کے خالق و مالک سے فریاد کی شکل میں کی:’’خدا وندا! میں تیرے ہی حضور اپنی بے بسی اور بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں،اے ارحم الرّحمٰن! تو سارے ہی کمزوروں کا رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے ۔۔۔۔ مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے دُرشتی کے ساتھ پیش آئے یا کسی دشمن کے حوالے جس کو تو نے مجھ پر قابو پالینے کا یارا دیر پا ہے؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پرواہ نہیں ہے ،اگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لئے زیادہ کشادگی ہے۔میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اُس نور کی جو اندھیرے میں اُجالا کرتا ہے اور دنیا و آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے۔ مجھے اس سے بچالے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہویا میں تیرے عتاب کا مستحق ہو جائوں۔تیری مرضی پر راضی ہوں۔یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے۔کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں ہے‘‘۔آپ ؐ کی اس دل گداز دعا میں ہم سب کے لئے ہدایت و رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے ؎
یہ شہادت گہۂ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
رحمتِ عالم نورمجسم نے ان ظالموں کے لیے زید بن ؓ حارثہ کی التجا کے باوجود کوئی بد دُعا نہیں کی ،کیوں کہ حضورؐ کی شان رحمت ورافت ہے ،خلق خدا پر آپ ؐ لامتناہی شفقت دل وجان میں لئے مشکلات اور ایذاؤںکے باوجود مصابرت کے لامثال نمونے ہیں‘بندگانِ خدا کے لیے بے پناہ تڑپ‘پیغام حق پر انتہائی یقین اور اس کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچانے کا جذبہ اس ارشادگرامی سے بخوبی جھلکتا ہے : اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیںلاتے تو اُمید ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور خدائے واحد کی پرستار ہوں گی ۔ سبحان اللہ ! داعیانہ تڑپ اور امید فردا کی یہ زندہ و جاوید مثال۔طائف کے اس دردناک دعوتی سفر کے فوراًبعد نصرتِ الٰہی کا دروازہ کھلا اور ۲۷/رجب(۱۰بعثت) معراج کا وہ مرصع تاج آقائے نامدار صلعم کے سر مبارک پر رکھا گیا جو تاقیامِ قیامت عرو ج اسلام اور رفع ذکر نبویؐ کا رمز واشارہ ہے اور آپ ؐ کے لئے محبوبیت خداوندی کا وہ اعزاز ہے جو تاریخ عالم میں انبیائے کرام سمیت کسی اور کوعطا ہو انہ ہوگا۔ معراج اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کی ایک ضیافت طبع اور عزت افزائی کااظہار ہے‘ جس کا مقصود ایک جانب آپؐ کی دلداری و دل نوازی کرنے ، طائف کے زخموں کو مندمل کرنے اور جس سخت ترین امتحان وآزمائش سے آپؐ وہاں گزرے ، اس کا لا ثانی صلہ دینا ہے ۔دوسری جانب اللہ کے بندوں کو دس نکات یا دفعات پر مشتمل آئین ِ حیات سو نپ دینا اور بندگان خدا میں کارخانہ ٔ ہست وبود کے راز ونیاز سے کماحقہ واقف کر انا اور تسخیر کا ئنات کا جذبہ اُبھارنا تھا۔ اس سیر افلاک کے ہمہ جہت مقاصد ہیں ۔
واقعۂ معراج اس ارشاد خداوندی کی تفسیر وتشریح بھی ہے کہ’’عُسر(سختی) کے ساتھ یُسر(آسانی) ہے۔’’بے شک عُسر کے ساتھ یُسر ہے‘‘( سورہ ٔالانشراح۔۵ اور ۶ آیت)''
آپؐ کی مکّی زندگی جب عُسر کی انتہائوں کو چھونے لگی تو ربّانی ارشاد کے عین مطابق مدّنی زندگی بالآخر یُسر کی ہی عملی تفسیر گردانی جاسکتی ہے۔۔۔۔ مکّی زندگی میں’’انسانی حاکمیت‘‘ کی غیر فطری جلوہ گری تھی جو عُسر کی مہیب اور بدترین صورت ہے‘برعکس اسکے مدّنی زندگی ’’حاکمیت ِالہٰ‘‘سے تعبیر کیجائی ہے۔۔۔ تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے یہ حقیقت مبرہن ہوتی ہے کہ عُسر اور یُسر کا معاملہ ہمیشہ سے اسلام جیسے دین ِ فطرت کے ساتھ منسلک رہا ہے اور آئیندہ بھی رہیگا۔تاتا ریوں نے ۱۲۵۸ء میں قلمرو عیا سیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔سات دنوں میں ۱۹ لاکھ انسان لقمۂ اجل بن گئے۔بغداد کی ۳۲لائبریریوں کی لاکھوں کتابیں دجلہ میں پھینک دی گئیں اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت کلّی طور مفلوج ہوئی۔لیکن اسی عُسر کے بطن سے یُسر اس طرح پھوٹ پڑا کہ ۴۰ سال بعد یہی تاتا ری مسلما ن ہوگئے اور اقوام ِ عالم میں مسلمانوں کو دوبارہ ایک باعزت مقام حاصل ہوا ؎
ہے عیاںیورشِ تاتا کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے (اقبالؔ)
عُسر اور یُسر ( سختی اور آسانی یا دھوپ چھاؤں) زندگی کی ایک مستقل بالذات حقیقت ہے ، یہ معاملہ فطری طور اُمت مسلمہ کے ساتھ لگا رہے گا۔آج ہم عُسر کے جس کٹھن، جاں گداز اور پُر آشوب دور سے گزر رہے ہیں ،محولہ بالا ربانی ارشاد کی رُو سے اسی عُسر کے جلو میں یُسر کی ضیاء پاشی ہوگی بشرطیکہ ہم قرآن وسنت کے سنہری،فطری،آفاقی اور الہامی تعلیمات کو حرزِجاں بنائیں ،اپنی زندگی کو انہی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کما حقہ سعی وجہد کریں‘ رجوع الیٰ اللہ اپنا وظیفہ حیات بنائیں اور کسی بھی صورت میںداعیانہ کردار اور امید فراد سے دست کش نہ ہوجائیں۔۔۔ طائف کا سفرداعیانہ کردار اور معراج اسی امر واقع کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
واقعۂ معراج سے متعلق’’مقالات ِ سیرت‘ؐ‘ کے مصنف ڈاکٹر محمد آصف قدوائی رقمطراز ہیں کہ’’نبوت کے ۱۳ ویں سال اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ملکوت السموات والارض کی سیر کرائی۔یہ بحث اکثر سننے میں آتی ہے کہ معراج جسمانی تھی یا روحانی بیداری کی چیز تھی، یا خواب کی ‘ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ جسمانی تھی اور بیداری کی حالت میں واقع ہوئی تھی۔ہم کواس سلسلہ میں ابن ِ اسحاقؒ کی یہ بات بہت پسند آئی کہ خدا قادر ِمطلق ہے ‘ وہ اپنے بندہ کو رات کے وقت لے گیا جس طرح چاہا اور جیسے چاہا تاکہ وہ اسؐ کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جو چاہے دکھائے، یہاں تک کہ آپؐ نے خدا کی شان اور اس کی قدرت کے عظیم الشان مناظر دیکھے ،جو کچھ دیکھے او ر اس قدرت کو دیکھا جس سے وہ کچھ چاہتا ہے کرتا ہے‘‘(سیرۃ ابن ِ ہشام باب الاسراء)واقعۂ معراج کے دوران سورہ ٔاسراء اور سورہ نجم کی روشنی میں آپؐ کو اللہ بزرگ وبر تر کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایاگیااور آسمان و زمین کی بادشاہت بے پردہ وبے حجاب ہوکر آپؐ کے سامنے آگئی۔ یہ دونوں سورتیں اعلان کرتی ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ وسلم دونوں قبلوں ( مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ) کے نبی اور دونوں سمتوں مشرق و مغرب کے امام اور اپنے پیشرو تمام انبیاء کرام ؑکے وارث اور بعد میں آنے و الی پوری نسل انسانی کے رہبر و رہنما ہیں،آپؐ کی شخصیت اور آپ ؐ کے سفرِ معراج میں مکہ بیت القدس سے اور مسجد ِحرام مسجد ِ اقصیٰ سے ہم آغوش ہوگئی۔آپ ؐکی امامت میں تمام انبیاء کرام ؑنے نماز پڑھی اور یہ دراصل آپ ؐکے پیغام و دعوت کی عمومیت و آفاقیت،آپؐ کی امامت کی ابدیت اورہر طبقۂ انسانی کیلئے آپؐ کی تعلیمات کی ہمہ گیری کی دلیل و علامت تھی‘‘
معراج کا پیغام جو آپؐ کے ذریعے اللہ بزرگ و برتر نے عالم ِ انسانیت کے نام قیامت تک دیا تاکہ الٰہی اصولوں پر اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کی تعمیر کی جاسکے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ۹سے۲۹ تک میں پوری شرح و بسط کے ساتھ یہ اصول موجود ہیں۔معراج کا پیغام سمجھنے کیلئے ان آیات کا مطالعہ ازبس لازم ہے۔مختصراً واقعۂ معراج سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی محبوب ِ الٰہی بھی ہیں اور مقصود ِوجود ِ کائنات بھی ؎
اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو وہ ہے آج کی رات
گرہِ یک گام ہے ہمت کے لئے عرش ِ بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات
اقبالؔ