ڈاکٹر عریف جامعی
انبیائی تاریخ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ رہی تھی۔ دراصل سلسلہ رسالت کے ذریعے خدائے واحد کی الوہیت کا نظریہ اور عبادت کا طریقہ کار آدم ؑ سے لیکر سیدنا عیسىٰ ؑتک تمام انبیاء کرام علیہ السلام سکھاتے آئے تھے۔ دین حق کی اس پیغام رسانی کے دوران اللہ تعالی کی ان برگزیدہ ہستیوں نے جس جانفشانی، بے نفسی اور سوز و گداز کے ساتھ جدوجہد کی تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر انبیاء علیہ السلام کو لوگوں کی طعن و تشنیع اور استہزاء کے ساتھ ساتھ تشدد اور ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا۔ انسانیت کے ان خیرخواہوں میں اکثر کو اپنوں نے گھر سے بے گھر بھی کیا اور ایک بڑی تعداد کو قتل بھی کیا گیا۔ تاہم ایک بات مسلم ہے کہ انسانیت کے ان گلہائے سرسبد نے سب کچھ گوارا کیا لیکن حق کو ناحق کے ساتھ خلط ملط کرنے کی کوششوں، جو باطل پرستوں کا مرغوب شغل ہوا کرتا ہے، کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔
تاہم انبیائی سرگزشت کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک طالب علم بعض اوقات اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے کہ پیغمبران کرام ؑ نے شاید انسانیت کو خدا کی طرف بلاکر محسوس دنیا (یا دنیائے شہود) کے ٹھوس حقائق سے بیگانہ کردیا! اگرچہ اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انبیاء کرام علیہ السلام کی دعوت کا اصل زور خدا کی بادشاہی (آخرت، معاد، جنت) کے لئے ہوتا تھا، لیکن اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ انہوں نے نہ صرف دنیا کو برت کر انسان کو دنیا میں انسانی شرف کے ساتھ جینا سکھایا بلکہ علم اور صنعت و حرفت کو آگے بڑھانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں ادریس ؑ کی قلم کی اختراع (ایجاد) کرکے علم کو فروغ دینا کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح داؤد ؑ نے صنعت لباس میں دلچسپی لیکر ’’ کار دنیا‘‘ کا ایک طرح سے تزکیہ کیا۔ لیکن داؤد ؑ نے ہی اللہ کی تحمید اور تقدیس سے پر زبور کے ’’ترانوں‘‘ کو لے بخش کر ایک طرف چرند و پرند کو وجد میں لایا تو دوسری طرف دنیا میں ہی اس طرح کی فضا قائم کی جو جنت کے مکینوں کو حاصل ہوگی جو وہاں ’’کوئی لغو یا گناہ کی بات نہیں سنیں گے، بلکہ (ہر طرف سے ان تک) سلام ہی سلام پہنچے گا‘‘(الواقعہ، ۲۵-۲۶)
اسی رازونیاز کے ساتھ رب تعالی کی یکتائی (توحید) اور کبریائی (تکبیر) کے اقرار و اعلان کو روئے زمین پر ایک عالمگیر مرکز فراہم کرنے کے لئے کے لئے اللہ تعالی نے ابوالانبیاء، سیدنا ابراہیم ؑکو اس گھر کی تعمیر نو کرنے کا حکم دیا جسے دراصل آدم ؑ نے تعمیر فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے ’’بیت العتیق‘‘ (قدیم گھر، الحج، ۲۹) کی قدیم بنیادوں میں سے ’’حجر اسود‘‘ کو نئی تعمیر میں نصب کیا۔ اس کے بعد جب ابراہیم ؑ کو حج کی منادی کرنے کا حکم دیا گیا (الحج، ۲۷) تو طواف کرنے والوں کے لئے یہ لازم ٹھہرایا گیا کہ ’’حجر اسود‘‘ سے ہی طواف کی ابتداء کریں اور اسی پر طواف کو مکمل کریں۔ توحید کی بنیاد پر مناسک بندگی اور آداب زندگی سکھانے کے بعد ابراہیم ؑ نے پیغام توحید کی عالمگیر تبلیغ، اشاعت اور تکمیل کے لئے ایک آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لئے دعا فرمائی۔ (البقرہ، ۱۲۹)
اسی آخری نبی ؐ کو اللہ تبارک و تعالی کی کبریائی بیان کرتے ہوئے دس برس سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ اس دوران آپؐ اور آپؐ کے ساتھی اس قسم کی بیشتر صعوبتیں سہہ چکے تھے اور سہہ رہے تھے جو اگلے پیغمبران کرام ؑ اور ان کے ساتھیوں نے برداشت کی تھیں۔ انہی حالات میں ایک دفعہ رسول اللہؐ ’’حجر اسود‘‘ کے پاس آرام فرما تھے۔ یہاں پر یہ اس بات کا واضح رہنا ضروری ہے کہ ’’نبی ؐ کی آنکھیں سوتی تھیں، جبکہ دل ہمیشہ بیدار رہتا تھا: تنام عینای و قلبی یقظان۔‘‘ (ابن ہشام) ظاہر ہے کہ قلب مبارک پر وحی ہر صورت میں آتی تھی۔ اس لئے امت مسلمہ میں رائج معراج کے بارے میں یہ بحث کہ ’’کیا معراج جسمانی تھی کہ روحانی‘‘ کو شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس طرح حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’معراج تو تھی جسمانی، لیکن نبی ؐ اس وقت روحانیت کے اعلی درجے پر فائز تھے۔‘‘
بہرحال بیت العتیق (کعبہ) کے حجر اسود سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ اس آسمانی سفر پر روانہ ہوئے۔ چونکہ انسان کو ایک ذمہ دار مخلوق کے طور پر زمین پر بھیجا گیا ہے، اس لئے اس کا ہر کام اپنا ایک اثر چھوڑ جاتا ہے۔ انسان کی کارگزایوں کے انہی اثرات کو ممثل کرکے نبی ؐ کو ان کا مشاہدہ کرایا گیا۔ عالم ملکوت کا ذمہ دار نمائندہ (روح الامین، روح القدس) ہونے کی وجہ سے جبرائیل ؑ نے قدم قدم پر ان مشاہدات کی تشریح کی۔ جب نبی ؐ نے پہلے آسمان پر ایک بزرگ ہستی کو کبھی خوشی اور کبھی رنج کی حالت میں دیکھا، تو آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ آپؐ کے پدر بزرگوار یعنی آدم علیہ السلام ہیں۔ ان کی خوشی کا راز انکی نیکوکار اولاد ہے، جبکہ اپنی بری اولاد کی برائی ان کو رنجور کرتی ہے۔
معاشرتی عدل و انصاف (سوشل جسٹس) اور امن و سکون، انسانی تکریم اور انسانی اخلاقیات کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ نبی ؐ کو ظالموں اور متکبرین کا انجام بد دکھایا گیا، آپ ؐ کے سامنے انسان کی غیر ذمہ داری سے پیدا ہونے والے فساد کے اثرات سے بھی پردہ اٹھایا گیا اور اخلاقی رذائل کا برا نتیجہ بھی مبرہن کرکے دکھایا گیا۔ یتیموں پر ظلم کرکے ان کا مال ہڑپ کرنے والے اونٹوں کے جیسے ہونٹوں سے آگ کے انگارے کھارہے تھے۔ سود خواروں کو اس طرح دیکھا گیا کہ انہیں مست اونٹ جیسے جانور روند رہے تھے، جبکہ ان کے پیٹ اتنے بڑے (پھولے ہوئے) تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پارہے تھے۔ غیر ذمہ دار فتنہ پرور مقرر اپنے ہونٹ قینچیوں سے کاٹ رہے تھے، جبکہ لوگوں پر زبان طعن دراز کرنے والے اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ بدکار مرد و خواتین کو نفیس اور تازہ گوشت چھوڑ کر بدبودار اور سڑا ہوا گوشت کھاتے ہوئے پایا گیا۔
آگے بڑھتے ہوئے دوسرے آسمان پر نبی ؐ نے دو خالہ زاد بھائیوں، یعنی عیسیٰ ؑ اور یحیٰ ؑ کو دیکھا۔ تیسرے آسمان پر بدر منیر کی طرح چمکتے چہرے والے پیغمبر، یعنی یوسف ؐ کو دیکھا۔ چوتھے آسمان پر ایک بلند مقام (مکانا’’علیا‘‘) والے پیغمبر، یعنی ادریس ؑ کو دیکھا۔ پانچویں آسمان پر آپؐ نے ایک درمیانی عمر والے شخص، جس کی داڑھی اور سر کے بال دونوں سفید تھے، کو دیکھا اور آپ ؐ کو بتایا گیا کہ یہ ہارون ؑ ہیں۔ چھٹے آسمان آسمان پر آپؐ نے موسیٰ ؑ کو دیکھا جو دراز قامت اور گندم گوں تھے۔ ساتویں آسمان پر آپؐ نے اپنے سے مشابہ بوڑھے شخص کو کرسی پر ’’بیت المعمور‘‘کے دروازے کے آگے بیٹھا ہوا دیکھا۔ بتایا گیا کہ یہ آپؐ کے جد امجد سیدنا ابراہیم ؑ ہیں۔ علماء کرام کا خیال ہے کہ نبیؐ کی ان انبیاء کرامؑ کے ساتھ ملاقات کے پیچھے کی اصل حکمت تو خدا ہی بہتر جانتا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان انبیاء ؑ کو بھی حق کی پیغام رسانی کے دوران مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ ان پیغمبران کرام علیہ السلام کو بھی اپنے حساب سے اور اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق ’’معراج‘‘ کرائی گئی۔
یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ معراج کے دوران نبیؐ نے ابراہیم ؑ کو جس مقام پر فائز دیکھا وہ دراصل ان کی توحید کی خاطر کی گئی جددوجہد اور جانفشانی کی ایک ممثل شکل ہے۔ یعنی یہ ایک حسین اور دلنشین نسبت کا اظہار ہے جو ابراہیم ؑ کو بحیثیت ’’حنیف مسلم‘‘ توحید کے ساتھ ہے۔ جس طرح آسمانوں پر ملائکۃ المقربین ’’بیت المعمور‘‘ (آباد گھر، مسجد) کو اپنی زیارت، سجدوں اور طواف کا مرجع بنائے ہوئے ہیں، اسی طرح ابراہیم ؑ نے زمین پر توحید کی پیغام رسانی کے بعد ایک ایسے قدیم گھر (بیت العتیق) کی تعمیر نو کی جو اللہ تعالی کے مقرب بندوں کی زیارت، سجدوں اور طواف سے ’’معمور”‘‘(آباد) رہتا ہے! اگر ذرا احتیاط کے ساتھ تصوف کی زبان بھی استعمال کی جائے، تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’بیت المعمور‘‘ اس دل کو بھی کہتے ہیں جو تجلیات ربانی اور یاد الٰہی سے سے منور اور آباد رہتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات نہایت ہی دلچسپ ہے کہ ابراہیم ؑ کی باپت اللہ تعالی نے فرمایا: ’’جب کہ (وہ، ابراہیم) اپنے رب کے پاس بے عیب دل (قلب سلیم) لائے۔‘‘(الصافات، ۸۴)
ابن سعد کے مطابق یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قلموں کی آواز سنی۔ ظاہر ہے کہ ’’الملا الاعلی ‘‘میں ہونے والے فیصلوں (گفتگو) کو بھلا کو جان (سن) سکتا ہے؟ (الصفت، ۸ اور ص، ۶۹) تصوف کی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں پر (شاید) عالم ملکوت اور عالم لاہوت کے درمیان حدبندی (ڈمارکیشن) ہوتی ہے۔ ’’سدرۃ المنتہیٰ ‘‘اسی حدبندی کا نشان ہے۔ واضح رہے کہ ’’سدرہ ‘‘کو پاک و ہند کے ماحول میں بیری کے درخت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ تاہم اگر یہ درخت خودرو ہو تو کانٹے دار اور جھاڑی نما ہوتا ہے۔ اگر اس کی کاشت کی جائے یا اگر اسے اگایا جائے تو اس کے کانٹے نہیں رہتے۔ اس صورت میں یہ سایہ بھی دیتا ہے اور پھل بھی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح یہ رحمت الٰہی کا ایک تصور پیش کرتا ہے۔ یہاں سے جبرائیلؑ نے نبی ؐ کی آگے بڑھنے کے لئے راہنمائی تو کی لیکن خود آگے نہیں بڑھے۔ قرب الٰہی کی اس انتہائی شکل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انوار ِالٰہی کے فیضان اور اس متجلّی ماحول میں آپؐ کے آیات الٰہی کے مشاہدے اور اس دوران آپؐ کی حضوری کی کیفیت کو بس کلام الٰہی کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا بیان ہے: ’’اسے (یعنی جبرائیل کو) تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ سدرۃ المنتہی کے پاس۔ اسی کے پاس جنتہ الماوی ہے۔ جب کہ سدرہ کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو چھا رہی تھی۔ نہ تو نگاہ بہکی، نہ حد سے بڑھی۔ یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں۔‘‘ (النجم، ۱۳-۱۸)
معراج کے انعامات میں سے تین تحائف بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک سورہ البقرہ کی آخری دو آیات جن میں انسانیت پر اللہ تعالی نے اس طرح کرم فرمانے کا اعلان فرمایا ہے کہ ’’کسی بھی شخص پر اس کی وسعت کے مطابق ہی بوجھ ڈالا جاتا ہے اور بھول چوک میں ہوئی خطاؤں کی مغفرت کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔‘‘ (البقرہ، ۲۸۶) دوسری نعمت یہ ہے کہ ’’اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کی مغفرت فرمائے گا بشرطیکہ وہ شرک سے مجتنب رہے ہوں۔‘‘ تیسرا انعام پانچ وقت کی نماز ہے جسے نبی ؐ نے ایک طرف اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے اور دوسری طرف مومنین کے لئے معراج، یعنی اللہ تعالی کے ساتھ قربت اور حضوری کا بار بار ملنے والا ایسا موقع جو انسان کو توحید پر قائم رکھنے کے لئے کافی و شافی ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی نہایت دلچسپ ہے کہ (امام بخاری کے مطابق) رسول اللہؐ نے واپسی پر یروشلم پہنچ کر وہاں پر آپؐ کے لئے منتظر تمام انبیاء علیہ السلام کا امام بن کر ان کو شکرانے کی نماز پڑھائی۔ ظاہر ہے کہ انبیاء ؑ کی جماعت جو آدم ؑ سے لیکر محمدؐ تک ایک ہی جماعت (امت واحد) رہی ہے، کا ایک ساتھ سجدہ شکر بجا لانا اس بات کا غماز ہے کہ دین حق کو قائم کرنے کے لئے جو جدوجہد ان سب نے کی تھی وہ امام الانبیاء ؐ کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچنے والی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے سورہ بنی اسرائیل، جس میں معراج کا دو آیات (۱ اور ۶۰) میں ذکر ہوا ہے، کو معراج کی سورہ ہی قرار دیا ہے، کیونکہ دین کا مکمل قیام انہی خطوط پر عمل میں آیا جو اس سورہ میں کھینچے گئے ہیں۔
(مضمون نگار محکمہ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]