سبزار احمد بٹ
گرمائی تعطیلات کا اعلان ہوتے ہی نوید اپنی چھوٹی بہن ذکرہ اور اپنے ماں باپ کے ساتھ مغل باغات کی سیر کے لئے روانہ ہوا۔ نوید کو ابو نے پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ اس بار تعطیلات میں وہ مغل باغات ضرور جائیں گے۔ آج ابو نے اپنا وعدہ پورا کیا اور نوید خوشی خوشی باغ میں داخل ہوا۔
باغ میں قدم رکھتے ہی نوید مغلوں کے حسنِ انتخاب کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ باغ کے بیچوں بھیچ صاف و شفاف پانی کی نہریں بہہ رہی تھیں، سرو کے درخت نہروں کے کناروں پر اس انداز سے کھڑے تھے گویا کسی معزز مہمان کے استقبال کے منتظر ہوں۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی اور چڑیوں کی چہچہاہٹ نے باغ کی فضا کو مزید خوشگوار بنا دیا تھا۔
باغ میں کافی گہما گہمی تھی۔ ایک کونے میں ایک قدآور درخت ایستادہ تھا، جس پر چڑیوں کا شور و غل سنائی دے رہا تھا۔ وہ درخت باغ کے حسن کو دوبالا کر رہا تھا۔ نوید کافی دیر تک اسی درخت کے نیچے بیٹھا رہا اور اس پر بنے گھونسلوں کو بڑی دلچسپی سے تکتا رہا۔
اتنے میں نوید کے ابو اس کے پاس آئے اور پوچھا: “نوید! تم اتنی دیر سے اس درخت کو دیکھ کر کیا کر رہے ہو؟”
نوید نے سنجیدگی سے جواب دیا: “ابو! اس پیڑ پر بہت سی چڑیاں بیٹھی ہیں، لیکن ایک چڑیا ان سب کے بیچ میں ہے جو دونوں ٹانگوں سے محروم ہے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باقی سب چڑیاں اس کا بےحد احترام کرتی ہیں، اس کے گرد گھومتی ہیں۔ ایسا کیا ہے اس معذور چڑیا میں؟”
نوید کے ابو اس کے پہلو میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے: “بیٹا! اس کے پیچھے ایک سچی اور سبق آموز کہانی ہے، جو میں تمہیں کبھی اور سناؤں گا۔”
لیکن نوید ضد کرنے لگا: “ابو! مجھے ابھی وہ کہانی سنائیں، میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس چڑیا میں ایسا کیا ہے۔”
ابو نے مسکرا کر کہنا شروع کیا: “بیٹا! اس باغ سے چند کلومیٹر دور ہر سال پرندوں کا ایک میلہ لگتا ہے، جس میں اس باغ کے تمام پرندے شرکت کرتے ہیں۔ پچھلے سال بھی جب میلہ لگا تو تمام چڑیاں وہاں جانے کی خواہشمند تھیں، لیکن کچھ گھونسلوں میں ننھے ننھے بچے موجود تھے جنکا میلے میں لے جانا ممکن نہیں تھا۔
اس لئے چڑیوں نے فیصلہ کیا کہ ایک چڑیا باغ ہی میں رُک کر ان بچوں کی نگرانی کرے گی۔ چنانچہ سب نے اس چڑیا سے کہا کہ وہ ان بچوں کی دیکھ بھال کے لئے باغ میں ہی رہے گی ۔
جب باقی چڑیاں میلے میں چلی گئیں، تبھی اچانک ایک باز باغ میں نمودار ہوا اور اس نے ننھے بچوں پر حملہ کر دیا۔ اُس معصوم چڑیا نے بڑی ہمت سے باز کا مقابلہ کیا اور ایک ایک بچے کی حفاظت کی۔ باز نے زور سے اپنے پر مار کر اس کی دونوں ٹانگیں زخمی کر دیں اور وہ معذور ہو گئی، لیکن پھر بھی اُس نے ہار نہیں مانی اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بچوں کو بچاتی رہی، حتیٰ کہ باز کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
شام کو جب ساری چڑیاں واپس آئیں اور اس چڑیا کی حالت دیکھی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بچوں کو سلامت دیکھ کر وہ سب اس معذور چڑیا سے لپٹ کر رونے لگیں۔ وہ چڑیا، جو خود تکلیف میں تھی، سب سے پہلے بچوں کی خیریت دریافت کر رہی تھی۔
تبھی سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ اب سے یہ چڑیا اس باغ کی نگہبان ہوگی۔ اس کا حکم سب مانیں گے اور اس کی عزت کی جائے گی۔ آج بھی جب چڑیاں اسے دیکھتی ہیں تو انہیں اس کی قربانی یاد آتی ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی بتایا کہ ان کی زندگی اس چڑیا کی بہادری اور قربانی کی مرہون منت ہے، ورنہ باز انہیں ہلاک کر دیتا۔
نوید بڑی خاموشی اور سنجیدگی سے یہ کہانی سن رہا تھا۔ پھر آہستہ سے بولا: “ابو! میں سمجھ گیا، یہ سب اس چڑیا کی قربانی کا نتیجہ ہے جس نے اپنی جان داؤ پر لگا کر دوسروں کو بچایا۔ اسی لیے اُسے اتنی عزت اور وقار حاصل ہے۔”
ابو نے مسکرا کر کہا: “ہاں بیٹا! ہمیں بھی ہمیشہ دوسروں کے کام آنا چاہیے۔ یاد رکھو، قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔”
��
اویل نورآباد، کولگام
موبائل نمبر;7006738436