ہارون ابن رشید
زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی اقدام اٹھا کر لائحہ عمل ترتیب دئے جا رہے ہیں جیسے کہ تعلیمی ، سماجی ، سیاسی اور معاشی سطح پر بھی لوگوں کی سوچ بدل گئی ۔ ایک طرف سے اگر لوگوں کی معیار زندگی میں خاصی تبدیلی آگئی اور لوگوں کے پاس بینادی ضروریات کے علاوہ ہر قسم کی عیش و آرام کی چیزیں دستیاب ہونے لگیں، لیکن دوسری طرف اخلاقی انحطاط کا گراف بھی کافی نیچے چلا گیا ۔ ہر ایک معاشرے میں لوگوں کی زندگی کے معیار
سے متعلق کچھ وضع شدہ روایات ہوتی ہے اور ان کو پروان چڑھانے کیلئے معاشرے کے افراد اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور حصول معاش کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں ، یہ طریقے صحیح بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس معاشی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے فراق میں اور ہر سہولت کو میسر کرانے کے عوض غلط طریقوں سے بھی دولت کمانا ایک قابل قبول روایت بن چکی ہے ۔ اس تعلق سے اگر ہم اپنے سماج کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ بھی اس دوڑ میں
دوسرں
کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلتی ہوئی دے رہا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جو کھبی اپنی سادگی اور شرافت کیلئے اپنی مثال آپ تھا آج رشوت خوری ، بدعنوانی اور اسکینڈلوں کے ایک ایسے دلدل میں پھنس گیا ہے جہاں سے نکلنا نہ صرف مشکل دکھائی دے رہا ہے بلکہ محال بھی ہے ۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کسی حد تک یہاں کا موجودہ بینکنگ نظام ہے ، جنہوں نے لون کی فراہمی کو آسان بنا کر لوگوں کے لئے عیش کا سامان فراہم کیا جو سودی نظام پر مبنی ہے اور لوگاس چکی میں پستے ہوئے اپنے آپ کو ان حالات سے بے خبر پا رہے ہیں جن کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے ۔ چاہے گھر ہو یا دفتر جھوٹ نے اتنے جھنڈے اس طرح پیوست کر دئے ہیں کہ ہر زباں سے کوئی سچ بات نکلنا مشکل ہو رہا ہے ۔ اب یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ ، دھوکہ دہی ، چرب زبانی ، لوگوں کے پیچھے دوسرں کی برائی کرنا مسلمانوں کا شیوہ بن چکا ہے ۔ غلط طریقے سے دولت کی حصولیابی اور اخلاقی اقدار سے بے زاری نے ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ ہر ایک شخص اپنے آپ کو صحیح مان کر دوسرے کے متعلق غلط بیانی کرتا ہے اور اسے غلط کر دانتا ہے ۔ جب تک ہمارے معاشرے میں سچ اور جھوٹ میں تمیز نہ دکھائی دے ۔ تب تک ایک صحیح معاشرے کا تصور ناممکن ہے ۔ معاشی دوڑ میں صحیح اور غلط کا معیار بھلا کر ہم شائد یہ بھول رہے ہیں کہ اس دنیا میں کتنی ہی دولت کو سمیٹا جائے لیکن یہ کسی بھی صورت میں ہمارے لئے نجات کا سبب نہیں بن سکتی ۔ انسان کے نیک اعمال ہی وہ اصل دولت ہے جو اللہ کے حضور سرخ روئی کا سبب بننے کیلئے کافی ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر کے انسان کو ٹٹول لیں اور دیکھیں کہ کہیں دنیا کے عیش و آرام کو سمیٹتے ہوئے اپنے فرائض سے انجان بن کر اللہ کے ہاں اپنی رسوائی کا سامان تو پیدا نہیں کر رہے ہیں ؟ جس سے بچنے کیلئے ہم جتنا جلدی عمل کریں وہ غنیمت ہے ۔ مال و دولت اگرچہ دنیاوی و سنائی اور زنت کیلئے لازمی ہے لیکن اگر اس کو اپنی زندگی مقصد بنا دیا گیا اور ابدی زندگی کو بھول ڈالا تو یہ مال و متاع انسان کیلئے جہاں آرام دہ تھا وہیں یہ اس عذاب عظیم کا باعث بھی بن سکتا ہے اور یہ بھی ہے کوئی دولت کا صحیح اور اصولوں کے مطابق خرچ کرتا ہے تو اس کیلئے یہ مال و متاع نجات کا ذریع بھی بن سکتا ہے ۔
[email protected]