مختار احمد قریشی
بے شک ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے، جہاں سے اس کی شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ایک ماں کی محبت، شفقت اور فہم و فراست بچے کے ابتدائی سال میں اسے نیکی، اخلاقیات اور بنیادی اصولوں سے روشناس کراتی ہے۔ یہی ابتدائی تربیت مستقبل کے ایک باشعور، بااخلاق اور ذمہ دار فرد کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جب ایک ماں اپنے بچے کو سچائی، دینداری، محنت اور صبر سکھا دے تو وہ بچہ زندگی میں کسی بھی چیلنج کا سامنا کر سکتا ہے۔ ایک نیک مدبر ماں معاشرے کے لیے ایک صالح انسان تیار کرتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف خاندان بلکہ پورے سماج پر پڑتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے، ان کی بنیاد ایک مضبوط اور تربیت یافتہ نسل نے رکھی، جس کے پیچھے ماؤں کی انتھک محنت شامل تھی۔
آج کے دور میں، جہاں ٹیکنالوجی، مغربی ثقافت اور جدید رجحانات نے خاندانی نظام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، وہاں عورت کی ذمہ داریوں میں مزیداضافہ ہورہا ہے۔اس لئے وقت کے تقاضے کے مطابق عورت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان کو ان چیلنجز کے مقابلے کے لیے تیار کرےبلکہ انہیں دینی، اخلاقی اور سائنسی علوم سے روشناس کرائے، تاکہ وہ دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب اور اقدار کی حفاظت کر سکیں۔ عورت اگر اپنی طاقت کو پہچان لے، اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کی فلاح کے لیے استعمال کرےاور تربیتی ذمہ داریوں کو ایک مشن کے طور پر سنبھالے تو وہ ایک ایسی نسل کو پروان چڑھا سکتی ہے جو دنیا میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ اسی لئے کہاگیا ہےکہ ’’تم مجھے ایک اچھی ماں دو، میں تمہیں ایک بہترین قوم دوں گا۔‘‘
بلاشبہ عورت کی تربیتی ذمہ داریوں کا دائرہ صرف بچوں اور خاندان تک محدود نہیں بلکہ انہیں معاشرتی اور قومی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کا ملکہ بھی حاصل ہے۔ جوعورت باشعور ، تعلیم یافتہ اور اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لاتی ہےتو وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک اچھی ماں کی گود میں پلنے والا بچہ اگر بہترین اخلاق اور کردار کا حامل ہو تو وہ آگے چل کر ایک نیک، دیانت دار اور باہمت فرد کے طور پر اُبھر سکتا ہے، جو نہ صرف اپنے گھرانے بلکہ پوری قوم کے لیے باعث فخر بن سکتاہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین کی تعلیم، آگاہی اور تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ آنے والی نسل کو ایک روشن اور بہتر مستقبل فراہم کر سکیں۔تربیت کے میدان میں بھی عورت کا کردار صرف الفاظ یا نصیحتوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا طرزِ زندگی، اس کے فیصلے، اس کی سوچ اور اس کا رویہ بچوں اور معاشرے پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر ایک عورت خود ایماندار، محنتی اور باوقار ہو تو اس کی اولاد بھی انہی اصولوں پر پروان چڑتی ہے۔جو عورت اپنے بچوں کو صبر، حوصلہ، دیانت داری اور خلوص کے اوصاف سکھا دیتی ہے،وہ بچے ایک مثالی معاشرے کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو عورت بےصبری، جھوٹ اور بے اصولی کا مظاہرہ کرتی ہے، اُس کی تربیت کا منفی اثر پورے گھرانے پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کی تربیت کو صرف نصاب تک محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اس کے عمل اور کردار میں بھی بہترین تربیتی اصولوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔
آج کے دور میں، جہاں اخلاقی اور سماجی بحران شدت اختیار کر چکے ہیں، عورت کو مزید ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اسے بچوں کو صرف نصابی تعلیم ہی نہیں بلکہ اخلاقی اقدار، دینی شعور اور عملی زندگی کے اصول بھی سکھانے ہوں گے تاکہ وہ آنے والے چیلنجز کا سامنا کر سکیں۔ ایک عورت اگر ماں کی حیثیت سے اپنے بچوں کو محبت اور نرمی سے بہترین اصول سکھائے، بہن کے طور پر بھائی کی رہنمائی کرے، بیوی کی حیثیت سے شوہر کے فیصلوں میں دانائی دکھائے اور بیٹی کے طور پر والدین کی عزت کا سبب بنے تو وہ ایک ایسا خاندان تشکیل دے سکتی ہے جو معاشرتی اصلاح میں اہم کردار ادا کرسکتاہے۔
(مضمون نگار پیشہ سے اُستاد ہیں ،بارہمولہ بونیار سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔18082403001
[email protected]