انیلہ افضال
آج ہمارے معاشرے میںخود نُمائی اور خود سری نے ایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہے جو چھونے سے ہی نہیں بلکہ متاثرہ ہَوا میں سانس لینے سے بھی پھیلتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہماری تہذیب، ہمارا تمدن اور ہمارے اقدار اس مقام پر جا پہنچے ہیں ،جس کے آگے صرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔اس سب میں الیکٹرانک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن اس کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کی خدمات سونے پر سہاگہ کے مصداق کام کررہے ہیں، کیونکہ الیکٹرانک میڈیا تو ایک بار سب دکھا کر رخصت ہو جاتا ہے، سوشل میڈیا، کچھ چھوٹے چھوٹے چنکس کی صورت میں، کبھی ریویو کی شکل میں تو کبھی یاداشت کے طور پر اس خود نمائی کے ناسور کو چھیڑتا ہی رہتا ہے۔بغور جائزہ لینے پر نمایاں ہورہا ہےکہ ہمارے معاشرے نوجوان نسل کی بیشتر تعداد کونمود و نمائش کے شکنجے میں جکڑدیا ہےاور اُن کی فطرت میں خود نمائی و خود سری گھُس چکی ہے ،جس کے باعث وہ احساس محرومی اور کم مائیگی کا شکار رہتی ہے۔ نمودو نمائش کے جذبے کو تسکین دینے کےلیے وہ دن و رات کا چین و سکون برباد کر رہی ہے۔ اس مقابلے میں وہ تمام طریقے استعمال کئے جاتے ہیں جو مدمقابل کو نیچا دِکھا سکیں، چاہے اس کے لیے انھیں خود کتنا ہی بے چین رہنا پڑے، یہ طرزِ فکر کسی طور بھی درست نہیں۔
سادگی کو نہ اپنانے والے ناشکرے پن کا شکار رہتے ہیں۔ آسائشات کی کمی کا شکوہ ہر وقت ان کی زبان پر رہتا ہے۔ اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی خواہش ہمہ وقت ان کے دل میں کروٹ لیتی رہتی ہے۔ بعض اوقات زندگی کی آسائشوں کو حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طریقہ کار اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جس کے باعث کئی سنگین جرائم وجود میں آتے ہیں۔ سادگی کا فقدان خیر و برکت سے محرومی، ذلت اور نامرادی کا باعث ہے۔ جو لوگ حد سے زیادہ نمود و نمائش کی طرف مائل ہوں ان کی اولاد کی تربیت بھی اس تصنع کی لپیٹ میں آجاتی ہےاور ایسی صورت میں گھر میں امن و سکون اور خیر و برکت غارت ہوجاتی ہے۔بے شک خود نمائی کی جو صورت حال ہمارے سامنے موجود ہے، ایسی پہلے کبھی بھی نہ تھی۔ ہر معاشرہ اپنے نوجوانوں پر انویسٹ کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ نسل اپنے معاشرے، اپنے ملک ، اپنی تہذیب اور اپنے کلچر کو نئی بلندیوں تک لے جائے گی، مگر افسوس! آج کے نوجوان اپنے موبائل ٹیلی فونوں کے کیمروں کا رُخ اپنی طرف کر کے اپنی ہی تصاویر کھینچ کھینچ کر انھیں مختلف زاویوں سے جانچتے ہیں، جو تصویر پسند نہیں آتی اسے ضایع کر دیتے ہیں اور جو سوئے اتفاق اچھی لگتی ہے اسے فوراً share کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ فون اور فیس بک پر خود نمائی کا یہ رجحان نئی نسل کو ایک ایسی سمت لے کر جا رہا ہے ،جہاں انھیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ان کی ساری گرامر’’ میں‘‘، ’’میرا‘‘،’’ مجھے‘‘ اور’’ میرے‘‘ لیے پر ختم ہو جاتی ہے۔
والدین جب بچے کوا سکول میں داخلہ دلواتے ہیں تو اس وقت بھی خود نمائی ساتھ نہیں چھوڑتی اور اپنی اوقات سے بڑےا سکول کا انتخاب کیا جاتا ہے، تو ایسا بچہ جب ان حالات میں جوان ہو گا تو اس میں اس کاعکس ضرور آئے گا۔ لباس ہو یا جوتے، کھانا ہو یا گھومنا، ہر چیز میں خود نمائی کا پہلو دیکھے گا۔یہ خواہش فی نفسہ کوئی بُری صفت نہیں بشرطِ کہ اس میں غرور اور منفی پہلو اُجاگر نہ ہوں۔بعض اوقات یہی احساس کوشش اور جدو جہد کے لیے اُبھار تا ہے۔اس صفت کا اصل وجود بُرانہیں، لیکن اہم بات اس سے استفادہ ہے، اگر خواہش کی درست راہنمائی کی جائے، اسے صحیح طریقے سے سیراب کیا جائے تو یہ بہترین نتائج کی حامل ہو تی ہےلیکن افسوس اس سے افادیت کے بجائےمنفی رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔فیس بک ہو یا فیشن انڈسٹری خود نمائی کے جذبے کوتسکین فراہم کرنے کےدیدہ زیب پلیٹ فارم ہیں۔ فیشن انڈسٹری دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ رہی ہے۔ کاسمیٹکس انڈسٹری اربوں ڈالرز کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ سگریٹ، کولڈ ڈرنکس، جوتے، بیگز، فون ، کار، ہر چیز سٹیٹس سمبل بن چکے ہیں۔ اس دوڑ میں اقدار کہیں پیچھے چھوٹ گئے ہیںاورتہذیب و کلچر کھو گئی ہے۔آج ہمارے معاشرے میں عزت و احترام اور اعزاز و سربلندی کا واحد ذریعہ مال و دولت، عہدہ، اختیار اور مادی وسائل کی کثرت رہ گیا ہے۔
بلندیِ اخلاق، پختگی کردار، شرافتِ نفس اور تقویٰ و طہارت کی کوئی قدر و منزلت نہیں رہی۔ ویسے تو خیر ابھی خدا جانے اور کیا کیا سامنے آئے گا، لیکن اس اکیس ویں صدی کے بارے میں اتنی بات تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ یہ خود نمائی کا زمانہ ہے۔ نوعمری میں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بالوں کا سٹائل بدلنے کی عادت یا بالوں کو بار بار ماتھے پر جھٹکنا، بات بات پر ہاتھ نچا کر نئی رولیکس نمایاں کرنا یا نئی ٹائی سے کھیلنا یا نیا جوتا دکھانے کے لیے ٹانگ پے ٹانگ رکھ کے بیٹھنا، یا کالا چشمہ خریدا ہے تو اس پر سے کئی دن تک سٹیکر لگائے رکھنا ،ہم میں سے ہر کسی نے نو عمری میں خود نمائی کی خاطر ان میں سے کوئی نہ کوئی حرکت ضرور کی ہوگی لیکن اب ان حرکتوں میں اسٹائل پروان چڑھ گیا ہے۔فی زمانہ یہ اپ گریڈ ہو کردکھاوے کی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔فی زمانہ اولین شرط یہ ہے کہ ہم خود نمائی (Self Projection) سے دوبارہ خود آگاہی (Self actualization) کی طرف سفر کریں اور یہ کام ہم جتنا جلد کرلیں اُتنا اچھا ہے ورنہ نہ ہمیں تاریخ معاف کرے گی اور نہ ہی آنے والی نسلیں۔
خود نمائی کی سب سے گھٹیا قسم ، عہدوں کی نمائش کرنا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوئی سماجی تقریب ہو یا کوئی ادبی تقریب، کسی تعلیمی ادارے کا سالانہ جلسے ہو یا کسی سیاسی جماعت کا عوامی مظاہرہ ہر جگہ یہ نظر آئے گی۔ مہمانانِ گرامی کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کے عہدوں کا تعارف بھی کروایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد غالبا ًحاضرین اور سامعین کو کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا کرنا ہوتا ہے۔ آج کا خود پسند نوجوان جب کل ان عہدوں کا امین بنے گا، تو کیا کچھ نہیں کر گزرے گا۔ اللہ کرے کہ یہ خود نمائی صرف مہنگے کپڑوں اور جوتوں تک ہی محدود رہے۔