بلا شبہ اتحاد ،یکجہتی ،رواداری ،عدل و انصاف اور دینداری کے اوصاف ہی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے ضامن ہوتے ہیں۔جس معاشرے میں ان اوصاف کا بول بالا قائم رہتا ہے، وہ معاشرہ ترقی کے راستے پر گامزن رہتا ہے اور جس معاشرےمیںیہ اوصاف معدوم ہوجاتے ہیں،اُس معاشرے کا زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس کی بنیادیں کمزور پڑجاتی ہیںاور وہ اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے،ظلم اور ناانصافی کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے، قانون کی عزت ختم ہو جاتی ہے،لوگ بے چینی اور مایوسی کا شکار ہوجاتےہیںاوراُن کا معاشرتی نظام بکھرجاتا ہے۔ لوگ خود اپنے فیصلے کرنے لگتے ہیں اور اپنے ذاتی مقاصدکے حصول کے لیےہر جائز و ناجائز راستے اختیار کرنے لگتے ہیں۔جس سے ظلم کا دائرہ کار بڑھتا ہے، لوگ ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں، سماجی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے، انتشار اور انارکی فروغ پاتی ہے اور معاشرہ معاشی طور پر پسماندہ ہو جاتا ہے۔ کاروباری ماحول تہس نہس ہوجاتا ہے اور لوگ محض انفرادی مقاصد کے حصول و تحفظ کے لیے جدوجہد میں مصروف ہو جاتے ہیں، جس سے معاشی ترقی رُک جاتی ہےاوریہی معاشی بدحالی معاشرے کے زوال کی علامت بن جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ جب معاشرےکے زیادہ تر افراد معاشی طور پر کمزور ہو ں،اُن کے لئے روزگار کے مواقع میسر نہ ہو اور غربت و فاقہ کشی عام ہو، تو اس سے نہ صرف معاشرے کی ترقی رُک جاتی ہے بلکہ اس کے زوال کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔جب لوگ اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پاتےتو غربت کا دائرہ کاروسیع ہوکر معاشرتی عدم توازن پیدا کرتا ہے۔ معاشرہ، معاشی طور پر کمزور ہونے سے تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور صحت کی مناسب سہولیات حاصل کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں، جس سے مستقبل کی نسلیں بھی پسماندگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ معاشی بدحالی کے باعث جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو وہ غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، معاشی بدحالی سے نہ صرف معاشرے میں جرائم کا پھیلاؤ ہوتا ہے بلکہ معاشرتی عدم استحکام بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ لوگوں میں بے چینی اور مایوسی بڑھتی ہے اور وہ حکومت اور حکومتی نظام سے مایوس ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرے میں انتشار اور بغاوت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ معاشی کمزوری کے باعث معاشرہ اپنی خود مختاری کھو دیتا ہے۔ اُسے ملک اور اُس کے اداروںپر انحصار کرنا پڑتا ہے، جو اس کے فیصلوں اور پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سے معاشرے کی خود داری متاثر ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے تابع ہوکر رہ جاتی ہے۔ معاشی بدحالی کے باعث بیشترغیر ریاستی سرمایہ کار اس معاشرے میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مقامی صنعت و تجارت کا عمل خست و پست ہو جاتا ہے اور روزگار کے مواقع ناپید ہوجاتے ہیں، جس سے معاشرے میں معاشی بحران مزید گہرا ہو جاتا ہے۔معاشی بدحالی کے باعث محنت کشوں،مزدوروں اور کسانوں کی حالت بگڑ جاتی ہے۔ انہیں ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا، جس سے ان کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب معاشرے کے افراد معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں تو سماجی تفریق بھی بڑھ جاتی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہے اور معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ معاشی بدحالی کے باعث معاشرےکی ذہنی صلاحیت تک کمزور ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ معاشی خوشحالی کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ جب معاشرہ معاشی طور پر مضبوط ہوتا ہے، تو وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اقدامات کر سکتا ہے اورملک اور دیگر اداروںمیں عزت و وقار حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن جب معاشی بدحالی کا سامنا ہو تو اُس کا زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔یہ تمام نشانیاں ہمارےکشمیری معاشرے میں واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ضرورت اس بات کی معاشرہ ہوش کے ناخن لیں ، ان تمام نشانیوں پر گہری نگاہ ڈالیں اور اس صورت حال کو روکنے اور ان کے سدباب کے لیے بروقت اقدامات اُٹھائیں، اپنی تہذیب، اقدار، علم، قیادت اور اتحاد کو مضبوط کرنے سے ہی ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔