آج بھی ہم اُسی معاشرے میں سانس لے رہےہیں،جس کا تعلق دین ِ اسلام سےہے اورجس میںرائج رسم ورواج ،اصول و عقائد ، قوانین وضوابط انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ ہیں جو تمام کائنات کا خالق ومالک ہے۔ مگر افسوس! آج ہما را معاشرہ اسلامی کہلانے کے باوجود بے اعتدالی اور افراط وتفریط کا شکار ہےاور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی زیادہ ترتعداد ’اسلام‘ کے محض نام لیوا رہ گئے ہیں،اگرچہ اللہ تعالیٰ کو تو مانتے ہیں لیکن نہ اللہ کی مانتے اور نہ ہی اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہیں۔جس کے نتیجے میں ہم عملی طور پر لاقانونیت اور نفس پرستی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔آج جب ہم اپنے معاشرے کا سرسری جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہماری گفتار اور ہمارے کردار کا معیار انتہائی پست ہوچکا ہے۔ ہر معاملے میںہمارے تعلقات خود غرضی کی بنیاد پر استوار ہو چکے ہیں جو معمولی اختلاف پر دشمنی میں بدل جاتے ہیں۔ برداشت اور رواداری معدوم ہو چکی ہے اور ہر فرد دوسرے فرد کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ یہ المیہ صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر ہمارے لئے زوال کا سبب بن چکا ہے اور نتیجتاً ہماری معاشرتی بنیادیں لرز رہی ہیں اور ہم بحیثیت معاشرہ اپنی اصل شناخت کھو رہے ہیں۔ہر بُرائی اور خرابی آج ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ نا پ تول میں کمی، ملاوٹ ، چوری، سود، جھوٹ، رشوت ، منافقت، زنا، عریانی، نشہ خوری،جوا بازی، فحاشی وغارت گری غرض ہرسطح پر ہمارا معاشرہ اخلاقی ، معاشی اور سیاسی اعتبار سے گراوٹ اور بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے۔گویااسلام کے پیرو کار ہوکر بھی ہم اپنے دینی احکامات کی پاسداری نہیں کررہے ہیںاور نہ ہی انسانیت کی بقاء کے لئےمحبت و اخوت اور عدل و انصاف کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیںکہ جس سے غیر مسلم بھی اسلام کی اصل حقیقت اور اس کے پیرو کاروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ جب ہم اپنےاسلاف اور اسلام کے پیروکاروں کے کردار و عمل اور خوبیوںکے متعلق سُنتے ہیں، پڑھتے ہیں یا ذِکر کرتے ہیں تو بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اور کبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ حاکم بنتے تو نہ ظلم کیا کرتےنہ طرف داری سے کام لیتے۔ وہ عزت والے تھے اور دوسروں کی بھی عزت کرتے تھے۔وہ متعصب نہ تھےبلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی ،وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔ وہ غیر مسلموں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔اسی لئےکئی غیر مسلم مغربی دانشوروںکے اقوال ہیں کہ ’’اسلام‘‘ اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہےجو ترقی یافتہ دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے اور اس نے انسان کوبہتر زندگی کے ایسے اصول بتا ئے ہیں ، جن میں تبدیلی نا ممکن ہے۔ذرا غور کریں کہ ایک طرف وابستگان اسلام کے یہ بلند اخلاق کہ اغیار بھی اعتراف پر مجبور اور دوسری طرف ہماری موجودہ حالت ِ زار۔ آج کے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاق وکردار ،حسن معاملات اور نرمی و محبت کے آثار مٹتے جارہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ احکاماتِ الٰہی کی عدمِ عدولی،اسلامی ضوابط و قوانین کی عدمِ پاسداری اور اللہ کے محبوب نبی کریمؐ کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے فکر و عمل میں تبدیلی لائیں، پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائیںکیونکہ جب ہم اللہ کے نام لیوا ہیںتو اللہ کی مان لینے میں ہی عافیت و سلامتی ہے ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جھوٹ بولنے والا ، ملاوٹ کرنے والا ، کم تولنے والا، ذخیرہ اندوزی کرنے والا، دھوکہ دہی کرنے والا، حق تلفی کرنے والااور اپنے مسلمان بھائی پر ہتھیار اُٹھانے والا مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ تاریخ بھی گواہ ہے کہ جب مسلمانوں میں یہ سب برائیاں نہیں تھیں تو وہ اپنے عہدکے سپر پاور سمجھے جاتے تھے لیکن آج انہی بُرائیوں اور خرابیوں کی وجہ سے وہ زبوں حالی کا شکار ہے۔اس لئےاگر ہم واقعی اپنے معاشرہ کی اصلاح حا ل کے خواہش مند ہیں تو اللہ کی رسّی کو تھام کر ہی تباہی سے بچایاجاسکتا ہے اور سب سے پہلے ہمیںخود میں بہتری لانے کی کوشش کرنی ہوگی،پھرہم دوسروں کو بہتری لانے کے قابل ہوں گے۔