ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ یہاں میرٹ نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔معاشرے کے ہر شعبے میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں تاہم سرکاری ملازمتیں دیتے ہوئے جس طرح نوجوانوں کی حق تلفی کی جاتی ہے، وہ بہت بڑا المیہ ہے۔زیادہ تر سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر نوکریاں دی جاتی ہیں۔ 45 سال کی عمر میں بھرتی ہونے والے 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہوکر پنشن و مراعات کا حق دار بن چکے ہیں۔ معاشرے میں با اثر افراد کی اولادیں پیدا ہوتی رہیں گی، رشوت اورسفارشی کلچر جاری رہے گا۔ہمیں معلوم ہے کہ با اثر لوگوں کے بچے کس طرح میڈیکل کالجوں میں جاتے ہیں ۔اس فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ موجود رہے گا، میرٹ کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی۔ ہمارے یہاں کیا ہوااور کیاہو رہا ہے، کسی کو صحیح معنوں میں اس کی خبر ہی نہیں۔ ہماری جمہوری حکومتیں کس طرح قانون اور میرٹ کا قتل کرتی رہیں، اس کے اصل اعداد و شماراگر سامنے آ جائیں تو جموں و کشمیرکی ساری آبادی ہکا بکا رہ جائے گی۔ اس وقت بے روز گاری اتنی ہے کہ چند سیٹوں کے لئے ہزاروں درخواستیں آ جاتی ہیں ،جن میں اعلیٰ پوزیشنیں لینے والے نوجوان بھی موجود ہوتے ہیں مگر نوکری کا قرعہ فال اْن کے ہی نام نکلتا ہے، جن کی تگڑی سفارش یا پھر دینے کو بھاری رقم موجود ہوتی ہے، قواعد و ضوابط اسی لئے بنائے جاتے ہیں کہ ان میں رہ کر کام کیا جائے مگر اسی نظام میں ایسی گنجائش بھی رکھی گئی ہے کہ رولز اینڈ ریگولیشنز کو نرم کر کے چور دروازے ڈھونڈ لئے جاتے ہیں، خاص طور پر جب مطلوبہ تعلیم کے مطابق افراد کم دستیاب ہوں۔ مگر جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ موجود ہو جو مطلوبہ تعلیم اور تجربے کی حامل ہو تو انہیں چھوڑ کر دس بارہ سال عمر میں رعایت دے کر بوڑھے افراد کو بھرتی کر لینا ایک ایسا سنگین مذاق ہے۔ملک میں بھرتیوں کے لئے اعلیٰ ادارے موجود ہیں جن میں مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن شامل ہیں۔ ایک عام تاثر یہ موجود ہے کہ ان کے ذریعے ہونے والی بھرتیاں شفاف ہوتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جب حکومت شرائط و ضوابط کو خاص مقاصد کے تحت نرم کر دیتی ہے تو پھر ان اداروں کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں، عمر کی حد مقرر ہی اس لئے کی جاتی ہے کہ نئے آنے والوں کے لئے راستے کھلتے رہیں۔جس تیزی کے ساتھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ہر سال فارغ التحصیل ہوتی ہے، اس تناسب سے تو سرکاری نوکریاں دینا ریاست کے لئے ممکن بھی نہیں لیکن جو نوکریاں نکلتی ہیں کم از کم ان پر تو میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کی جانی چاہئے، مگر ایسا نہیں ہوتا دکھائی دیتا، غریب اور متوسط گھرانوں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم کے باوجود محروم رہ جاتے ہیں اور سفارش کے ذریعے نا اہلی اور کمتر تعلیم کے حامل سرکاری ملازمت کے مزے لوٹتے ہیں۔ ہمارے دفتروں کا یہ جو زوال ہے، اس میں اس سفارش کلچر کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ جب کمتر ذہانت اور صلاحیت کے مالک افراد آگے آجائیں گے تو معیار بھی اسی سطح پر گر جائے گا۔ ووٹ خریدنے کے لئے جہاں پیسے کا لالچ دیا جاتا ہے، وہاں سرکاری ملازمتوں کو بھی بطور ایک ذریعے کے استعمال کرتے ہیں۔ جب نوجوانوں کو یہ معلوم ہو کہ ان کی لیاقت، ذہانت اور تعلیم کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہونا تو وہ محنت کیوں کریں گے۔چنانچہ جب محدود ملازمتیں بھی چہیتوںاور سفارشیوں کو دے دی جاتی ہیں تو نوجوانوں میں اضطراب بڑھتا ہے۔نفسیات کے ماہر بتا رہے ہیں کہ نوجوانوں میں ڈپریشن بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ یونیورسٹیاں جن میں پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں، ڈگریاں دینے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں، ہنر مند افراد پیدا کرنے کی بجائے تعلیم یافتہ افراد پیدا کر رہے ہیں، جن کی معاشرے میں کھپت ہی نہیں۔میرٹ پر اگر ذہین اور قابل نوجوانوں کو ملازمتیں ملنے لگیں تو کم از کم اس کا یہ نتیجہ تو نکلے گا کہ نوجوانوں میں محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ انہیں اس امر کا یقین ہوگا کہ اچھی پوزیشن حاصل کریں گے تو ایک روشن مستقبل انہیں منتظر ملے گا۔ نوجوان نسل کو اگر ہمارے ارباب سیاست اور ارباب اختیار اتنی ہی امید بھی نہیں دے سکتے تو پھر انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ قوم کی رہبری کا دعویٰ کریں۔