شہر سرینگروادی ٔ کشمیرکی بیشتر مصروف بازاروں، سڑکوں اور چوراہوں پر فروخت ہونے والے غذائی اجناس ،جن میںتلےہوئے آلو ،ندرو اور کئی دیگر پکے ہوئے کھانے کےاجناس فروخت کرنے والے خوانچہ فروشوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں ۔ زیادہ تر راہ گیر اور مسافر اپنی بھوک مٹانے کیلئے انہی خوانچہ فروشوں کے سامنے کھڑے ہوئے یابیٹھ کر یہ غذائی اجناس خرید کر کھاتے ہیں۔ایسے غذائی اجناس خرید کرکھانے والے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑکوںپر فروخت ہونے والے یہ غذائی اجناس عموماً غیر معیاری اور ملاوٹی ہوتے ہیں،جبکہ بیشتر ریستورانوں ، مٹھائیوںاور بیکری دکانوں سے متعلق بھی یہی شکایات سامنے آتی ہیںکہ ان کی تیار شدہ غذائی اشیاءبھی کسی قسم کی کوالٹی یا معیار کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔ان غذائووں کے کھانے سےصارفین دست ، قَے،بخار اور دیگر بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں،کیونکہ Processed Foodبنانے والے ، چھاپڑیوں اور دکانوں پر غذائی اجناس فروخت کرنے والے افراد ان غذائی اجناس کو لذیذ اور مزہ دار بنانے کیلئے مختلف کیمیائی ادویات اور رنگوں کا استعمال کرتے ہیں، جن سےغذائی اجناس مضرِ صحت ہی نہیںبلکہ خوفناک بیماریوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔اگرچہ ہمارے یہاں، بازاروں ،دکانوں اور ریسٹوران میں فروخت ہونے والے غذائی اجناس کی کوالٹی اور معیارکی نگرانی رکھنے والا محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ کنٹرول آرگنائزیشن بھی موجود ہے لیکن اُس کی حالت اُس ہاتھی کی بن کر رہ گئی ہے،جس کےدانت کھانے کے اور ، دکھانے کے اور ہیں۔ یہ بھی بتایا جارہاہے کہ یہاں موجود فوڈ ٹیسٹنگ لیبارٹری بھی بالکل ناقص ہےجوصحیح نتائج نہیں دیتی ہے اور جو نتائج دیتی بھی ہیں اُن میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔حالانکہ چند سال قبل ایف ایس ایس اے آئی کے ڈاکٹر للت اورڈائریکٹر ریفرلز میسور ڈاکٹر شیلندر کمار نے عدالت عالیہ کے دونفری بنچ کو بتایا تھاکہ پبلک ہیلتھ لیبارٹری پٹولی جموں اور پلک ہیلتھ لیبارٹری ڈلگیٹ معدنیات یا غلاظت کاکوئی تشخیصی ٹیسٹ نہیںکراتی۔رپوٹ میں لکھا گیا تھا کہ لیبارٹری میں معمولی نوعیت کے سامان موجود ہیں جن میں الیکٹرونک بیلنس، furnace uffle،butyro-refractometer اور ٹنٹومیٹر شامل ہیں۔ اُس وقت کمیٹی نے اپنی رپوٹ میں لکھا تھا کہ موجود ہ لیبارٹری فوڈ سیفٹی سٹینڈارڈ کے قوائد و ضوابط کے منافی ہے۔ فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈارڈ ریگولیشن ایکٹ2011کے مطابق بھارت کے تمام ریاستوں میں غذائی اجناس اور کھانا فروخت کرنے والے تمام دکانداروں، چھاپڑی فروشوں ، فوڈ پروسیسنگ یونٹوں اور ریستوران کی رجسٹریشن کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے مگر جموں و کشمیر میں صرف فوڈ پروسیسنگ یونٹوں اور ریستوران مالکان کو ہی رجسٹریشن فراہم کی جاتی ہے جبکہ سڑکوں، چوراہوں پر مٹھائیاں، کھانا،بُنے ہوئے گوشت اور مچھلی فروخت کرنے والوں،پکوڑے و سموسے،ندرو اور حلوہ پوری بیچنے والوں کو کوئی بھی رجسٹریشن فراہم نہیں کی جاتی ہے ۔ کشمیر میں کینسر جیسی مہلک بیماری کے پھیلائو کی بڑی وجوہات میں کھانوںمیں کیمیائی ادویات اور مصنوعی رنگوں کا استعمال بھی ہے اور ان مصنوعی رنگوں اور لذت مصالحوں سے پیدا ہونے والے ذائقے کی وجہ سے ہی ہماری نوجوان نسل Processed and Packagedخوراک کھانے کے عادی ہورہی ہے۔ مصنوعی رنگوں اور کیمیائی لذت مصالحوں کااستعمال سےنہ صرف Processed اور ڈبہ بند خوراکوں میں ہوتا ہے بلکہ بیکری تیار کرنے والی فیکٹریوں اور ریستوران میں بھی ہورہا ہے۔الغرض کشمیر میں فوڈ کنٹرول آرگنائزیشن لوگوں کو معیاری خوراک فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں غیر معیاری غذا اور کھانا فروخت کرنے والے سزائوں سے بچ جاتے ہیں اور فوڈ سیفٹی کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے ریستوران، بیکری اورسویٹ شاپ مالکان اور چھاپڑی فروش جرمانہ کی ادائیگی کے بعد سزا سے بچ کرنکل جاتے ہیں اور یوں غذائی ملاوٹ بے قابو ہورہی ہے، جو عوام الناس کی صحت کیلئے بھی زبردست خطرہ بن چکی ہے لازماًاس ضمن میں کل بھی راست اقدامات کرنے کی ضرورت تھی اور آج بھی ہے تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اہم ترین شعبہ سرکارکی ترجیحات میں نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسانی صحت کو پہلی ترجیح دی جاتی اور غذائی اجناس کا معیار یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کب کےکئے جاچکے ہوتے۔