یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ایک طویل عرصے سے نقلی ادویات اورناقص و مضر صحت غذائی اجناس کا کاروبارجس بڑے پیمانے پرچلا آرہا ہے۔اُسی پیمانے پر یہاںنہ صرف نت نئی مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ مریضوں کے لئےعلاج و معالجہ اور صحت یابی کا سلسلہ بھی ناکارہ اورناکام ثابت ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ معصوم بچوںو نو نہالوں کو نقلی ادویات کے ساتھ ساتھ ،دودھ اوربسکٹس نام پر زہر کھلاکر اُن کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑہورہا ہے۔اگرچہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران کشمیر عظمیٰ اپنی خبروں ،رپورٹوںاورادارتی کالموں میں بار بار اس انسان دشمن کاروبارکے خوفناک نتائج کی نشاندہی اور محکمہ ڈرگ کنٹرول اور محکمہ فوڈ سیفٹی کی ناقص کارکردگی کا تذکرہ کرتا چلا آرہا ہے، لیکن تا حال جہاںیہ دونوں محکمے اپنی اپنی مصلحتوں یا مفادات کے تحت غیر ذمہ دارانہ پالیسی کے تحت کام چلاتے رہے، وہیںیہاں کی سرکاریں بھی خاموش تماشائی بن کر کوئی مناسب اور ٹھوس اقدام اُٹھانے سے قاصر رہیں۔اگرچہ بعض اوقات کوئی کاروائی کی بھی گئی، وہ محض دکھاوے کے طورپرہی ثابت ہوئی۔نتیجتاً یہ ناجائز کاروبار اتنا فروغ پاگیا کہ اب شہر سرینگر اور دیگر اضلاع میں محلہ محلہ اور گلی گلی ادویات اورفاسٹ فوڈز (غذائی اجناس) کی دکانوں کی اتنی بڑی تعدا د پائی جاتی ہے ،جس کاشمار کرنا مشکل ہے۔حالانکہ آج سے قریباً 25سال قبل سرینگر میں ایک تقریب میں کشمیر کے ایک شہرت یافتہ معالج ڈاکٹر جی آر کھورو نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ وادی ٔ کشمیرمیں ساٹھ فیصد نقلی ادویات فروخت ہورہی ہے۔جس کے نتیجے میں بیماریاں قابو میں نہیں آتی ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نقلی و ناقص ادویات اور کیمیائی رنگوں ،جعلی مصالحہ جات اور بوسیدہ غذائی اجناس سے تیار کردہ خوشنما و لذید کھانوں کے استعمال سے بھی لوگوں کی صحت بُری طرح متاثر ہورہی ہے اور اسی وجہ سے وادیٔ کشمیر کے ہسپتالوں ،طبی اداروں اور پرائیویٹ کلنکوں اور نرسنگ ہوموں میں روزانہ صبح سے شام تک لوگوں کا اژدھام لگا رہتا ہے۔جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وادی کی پوری آبادی کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوچکی ہے۔تعجب ہے کہ ایک طرف جہاں وادی میں ایسے لوگوں نے بھی ادویات فروخت کرنے کی دکانیں اور اسٹورکھول رکھے ہیں، جن کے پاس کوئی میڈیکل تجربہ ہے نہ ادویات فروخت کرنے کا اجازت نامہ۔پھر بھی وہ کھلے عام بغیر لائسنس یا جعلی لائسنس کے تحت ادویات کی دکانیں چلا رہےہیں۔وہیںدوسری طرف ناقص،بوسیدہ اور سڑے ہوئےگوشت سے تیار کردہ مصنوعی ذائقہ سے لبریز خوشنما و لذیذ ضیافتیں فروخت کرنے والوں نے بھی وادی بھر میں اپنا جال بچھا دیا ہے۔گویا مادیت پرستی کی آڑ میں یہاں کے ہر کسی ایرے غیرے نتھو خیرے نے یہ دونوں انسان دشمن کاروبار سنبھالے ہیں۔با خبر حلقوں کے مطابق یہ دونوں کاروبار سب سے زیادہ منافع بخش ہیں، ایک روپیہ میں اَسی پیسے کا منافع ملتا ہے،جس کے باعث اس خودٖرضانہ اور انسانیت دشمنانہ کاروبار میں ملوث لوگوں کو راتوں رات امیر بننے کے خواب پورے ہورہے ہیں۔نقلی ادویات کے کاروبار کے متعلق یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ وادی ٔ کشمیر کے ڈاکٹروں کی ایک خاصی تعداد اور محکمہ صحت کے بعض اہلکار بھی اس کاروبار میں ملوث ہیں۔جس کے نتیجے میں سرکاری ہسپتالوں اور طبی اداروں کو بھی نقلی ادویات سپلائی ہورہی ہیں،جو مریضوں میں تقسیم کی جارہی ہیں۔ایسی ہی باتیں اُن تاجروں اورکاروباری حلقوں کے بارے میں بھی بتائی جاتی ہیں جو بیرون ِ ریاستوں سے بڑے پیمانے پر ناقص اور گلے سڑے مختلف قسم کے غذائی اجناس سستے داموںمیں درآمد کرکے یہاں کے ہوٹلوں،ریسٹورنٹوں ،دکانداروں اور چھاپڑی فروشوں کو سپلائی کررہے ہیںاور زیادہ سے زیادہ منفعت پرستی کے تحت وادی ٔکشمیر کے لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ہیں۔افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ اپنی اس وادی عام لوگوں کے لئے علاج و معالجہ کی سہولت اور اصلی دوا کا حصول کوئی آسان کام نہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں اور طبی مراکزمیں ڈاکٹروں اور عملے کی ہمہ وقت موجودگی ، ادویہ کی فراہمی اورعام طبی ٹسٹ کی سہولیات ،غریب و مفلس مریضوں کے لئے دن بہ دن مشکل بنتا جارہا ہے۔ایسے حالات میں ناقص و نقلی ادویات سمیت مضر صحت و ملاوٹی غذائی اجناس کی درآمدگی اورخرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف حکومت کو روایتی پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ریاستی انتظامیہ اور متعلقہ محکمے پر لازم ہے کہ وہ ایسے مناسب اور ٹھوس اقدامات اٹھائیں،جن سے ایسے مجرمانہ اور انسان دشمنانہ کاروبار کا قلع قمع ہوسکے۔ورنہ یہاں کے سادہ لوح عوام تواتر کے ساتھ ان جعلسازوں کے ہاتھوں لُٹتے اور مٹتے رہیں گے۔