یو این آئی
سرینگر//وسطی ضلع گاندر بل کے گذر بل علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک فنکار مصوری کیلئے بازاروں میں دستیاب مختلف رنگوں کے بجائے رنگ برنگی کنکریوں کا استعمال کرکے ایسی دلکش تصاویر اور حیرت انگیز مناظر منصہ شہود پر لاتا ہے کہ دیکھنے والا مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔منظور احمد بٹ نامی یہ فنکار گذشتہ دو دہائیوں سے اس فن کے ساتھ وابستہ ہے اور اب تک ان کے ہاتھوں سے رنگ برنگی کنکریوں سے بنی 40 سے زائد تصویریں اور مناظر منظر عام پر آگئے ہیں، جن میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی تصویر بھی شامل ہے۔36 سالہ منظور احمد نے کہا’’مجھے بچپن سے ہی مصوری کا بے حد شوق تھا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے نویں جماعت میں ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا کیونکہ میری ساری توجہ کینواس پر پیٹنگ کرنے کی طرف ہی مبذول رہا کرتا تھا‘‘۔ایک بڑا فنکار ہونے کے باوجود منظور روزی روٹی کے لئے ایک دکان میں سیلز مین کی حیثیت سے کام کر رہا ہے کیونکہ ان کے اس فن کو وہ پذیرائی نہیں مل رہی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔فنکار بننے کے سفر کی کہانی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’میں اکثر اپنے گھر کے نزدیک ہی واقع نالہ سندھ میں مچھلیاں پکڑنے کے لئے جایا کرتا تھا اور میں وہاں کھیلنے یا تفریح کیلئے بھی جایا کرتا تھا‘‘۔
انہوں نے مزید کہا’’وہاں پانی میں موجود رنگ برنگے پتھروں کی خوبصورتی اکثر مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی تھی اور جیسے وہ مجھے کچھ منفرد کرنے کی دعوت دیتی تھی‘‘۔موصوف کا کہنا ہے کہ’ پہلے پہل میں یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ان رنگین اورخوبصورت پتھروں کو میں کیا کروں گا لیکن بعد میں کسی غیبی طاقت نے میرے ذہن کو متحرک کر دیا جس سے میرے ذہن میں خیالات کا سیلاب امڈ آیا‘۔انہوں نے کہا’’میں نے پلائی وڈ کا ایک بورڈ لایا اور اس پر رنگ برنگی کنکریوں سے ایک جہاز بنانا شروع کیا جس کو مکمل کرنے میں مجھے پانچ مہینے لگ گئے‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’بعد ازاں میرے ذہن میں مزید چیزیں بنانے کے خیالات آتے گئے اور میں نے دوسرے قسم کا ایک اور جہاز بنا دیا لیکن اس بار اس جہاز کی بنیاد کیلئے پسی ہوئی کنکریوں کو استعمال میں لایا جس سے ایک بالکل ہی منفرد اور دلفریب فن معرض وجود میں آگیا‘‘۔منظور احمد نے کہا کہ ’یہ اللہ تعالیٰ کا ہی کرم تھا کہ جس نے اس فن کی صلاحیت سے مجھے نوازا اور میں پلائی ووڈ کے بورڈوں پر رنگ برنگی کنکریوں کا استعمال کرکے ایک منفرد فن کو سامنے لانے میں کامیاب ہوگیا‘‘۔انہوں نے کہا’’وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پتھروں کی پیٹنگ کو مزید سجانے سنوارنے کیلئے نئے نئے خیالات آتے رہے اور میں نے پلائی بورڈ پر رنگ کرنے کے لئے مختلف رنگوں کے پتھروں کو پیس کر رنگ تیار کئے‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’یہ مختلف رنگوں کے پتھر میں سونہ مرگ سے لداخ جانے کے راستے سے حاصل کرتا ہوں‘‘۔جوان سال فنکار نے کہا کہ’ پھر میں آہستہ آہستہ اپنے دماغ کو استعمال کرکے نئی نئی چیزیں بنانی شروع کیں اور ان کو تیار کرنے کیلئے نئے نئے تجربے کئے جو سب کے سب کامیاب ہوگئے اور میرے فن کو نکھارنے میں مدد گار ثابت ہوگئے‘۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا’’بد قسمتی سے میرے فن کو وہ پذیرائی نہیں مل رہی ہے جو اس کو ملنی چاہئے‘‘۔منظور نے گوا اور تاج ہوٹل ممبئی میں کئی بار اپنے فن کی نمائش کی لیکن ان نمائشوں سے اس کو کوئی خاطر خواہ مدد نہیں ملی باوجودیہ کہ آرٹ کے شوقین لوگوں نے اس کے فن کی تعریفیں کیں۔انہوں نے کہا’’کچھ نجی ایجنسیوں کی بدولت میں نے کچھ فن پاروں کو فروخت کیا لیکن میں نے اس عمل کو بند کر دیا کیونکہ اس سے میں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پا رہا تھا‘‘۔انہوںنے مزید کہا’’میں اپنے فن کی بھر پور نمائش نہیں کر سکا کیونکہ میں اس کے مارکیٹ سے نا واقف تھا یہاں تک کہ میرا آرٹ یہاں سرکاری سطح پر رجسٹر بھی نہیں ہے‘‘۔منظور نے کہا کہ جب میں اپنے اس آرٹ کو رجسٹر کرانے کے لئے متعلقہ حکام کے پاس گیا تو وہ اس قسم کے آرٹ سے بے خبر تھے کیونکہ یہ ایک نیا آرٹ تھا جو ملک میں اور کہیں موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’میں محکمہ ہینڈی کرافٹس کے ڈائریکٹر سے بھی ملا جنہوں نے متعلقہ افسروں کو میرے کار خانے کا دورہ کرکے میرے آرٹ کو رجسٹر کرنے کی ہدایت بھی دی۔ان کا کہنا تھا’’حکام نے مجھے یقین دہانی کی کہ اس منفرد آرٹ کو’انو ویٹیو آرٹ‘ کے تحت رجسٹر کیا جائے گا اور مجھے یہ بھی کہا گیا اس آرٹ کو فروغ دینے کے لئے کشمیر اور ملک کے دوسرے حصوں میں نمائشوں کا اہتمام بھی کیا جائے گا‘‘۔اس منفرد آرٹ کو رجسٹر کرنا منظور احمد کے مستقبل کے منصوبوں کی فہرست میں سر فہرست ہے۔انہوں نے کہا’’میں فی الحال اس آرٹ کو رجسٹر کرانا چاہتا ہوں اور پھر اس کو دنیا میں مشہور کرنے کے لئے نمائشوں میں حصہ لوں گا‘‘۔جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا سب سے پسند فن پارہ کون ہے تو انہوں نے کہا کہ یاچٹ قسم کا جہاز میرا پسندیدہ فن پارہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی بادشاہ کی تصویر بنانا در اصل میرے ایک دوست کا مشورہ تھا۔انہوں نے کہا کہ میں یہ تصویر سعودی بادشاہ کو پیش کرنا چاہتا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔