سید عاصم محمود
امریکا و یورپ کے سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے ایک اور بڑا خطرہ نمودار ہو چکا یعنی سوچنے سمجھنے والے کمپیوٹر سسٹم کا ارتقا! ان کے نزدیک یہ خطرہ انسانیت کو مٹا دینے کے دیگر خطرات مثلاً عالمی گرماؤ (گلوبل وارمنگ)اور ایٹمی اسلحے سے بھی بڑا ہے کیونکہ اس خطرے نے عملی جامہ پہن لیا تو انسان مشینوں کا غلام وماتحت بن جائے گا۔تب وہ کرہ ارض کی حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔کمپیوٹر سسٹم سے مراد سافٹ وئیر اور سپر کمپیوٹر پہ مشتمل نظام ہے جس کی ایک حالیہ اور تہلکہ خیز مثال جی پی ٹی۔4 چیٹ بوٹ کی صورت ہمارے سامنے آ چکی۔
مشین کا ارتقا:۔اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سوچنے سمجھنے کی قدرت رکھنے والے کمپیوٹر سسٹم خود انسان کی ایجاد ہیں۔تاہم سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ مستقبل میں یہ مشینیں عقلی و جسمانی طور پہ انسانوں سے زیاد طاقتور ہو کر انھیں غلام بنا سکتی ہیں۔یوں خالق ہی اپنی تخلیق کا ماتحت بن جائے گا۔امر واقعہ یہ ہے کہ صورت حال دیکھی جائے تو سائنس دانوں کے خدشات بجا نظر آتے ہیں۔ہزاروں سال پہلے قصّے کہانیوں میں انسان نے مشینوں کا تذکرہ کیا جو مختلف کام انجام دے سکتی تھیں۔انھیں اس لئے تخلیق کیا گیا کہ وہ روزمرہ کاموں میں انسان کا ہاتھ بٹائیں اور یوں اس کی زندگی آسان بنا دیں۔رفتہ رفتہ ریاضی اور میکانیات کے علوم معرض وجود میں آئے تو مشینیں دیومالا سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار گئیں۔پہلے پہل چین ، بھارت اور یونان کے موجدوں نے مختلف مشینیں بنائیں۔عرب مسلم موجدوں نے اس فن کو مذید ترقی دی۔اس ضمن میںاسماعیل الجزری (متوفی 1206 ء )کا نام قابل ذکر ہے جو ہمہ قسام کی مشینیں اور روبوٹ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
الخوارزمی کا بنایا ریاضیاتی عمل:۔مسلم سائنس دانوں کے علم کو یورپی ماہرین نے ترقی دی۔کم لوگ جانتے ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت والے کمپیوٹر سسٹم جن علوم سے وجود میں آئے ہیں یعنی کمپیوٹر سائنس ، مصنوعی ذہانت ( Intelligence Artificial)اور مشین لرننگ ( learning Machine)،انھیں ترقی دینے میں ایک مسلمان ریاضی داں، محمد بن موسی الخوارزمی (متوفی 850 ء) کے تخلیق کردہ سائنسی عمل نے بنیادی کردار ادا کیا۔انھوں نے اپنی کتب میں تحریر کیا کہ ریاضی کی ترتیب وار اور منظم ہدایات و احکامات کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔یہ عمل آج ’’الگورتھم ‘‘(Algorithm) کہلاتا ہے اور جسے عربی، فارسی و اردو میں ’’خوارزمیہ ‘‘کہا جاتا ہے۔انگریزی کی اصطلاح الخوارزمی کے نام سے نکلی ہے۔آج الگورتھم کا مطالعہ کمپیوٹر سائنس میں ایک باقاعدہ شاخ کی حیثیت رکھتا ہے۔
قدرت الٰہی میں الگورتھم کی بہترین مثال جاندار کا دماغ ہے۔اس دماغ میں ہمہ اقسام کے اربوں خلیے آپس میں تال میل کر کے، نہایت ترتیب وار، قدم بہ قدم طریقے سے ایسے عمل انجام دیتے ہیں جن کے ذریعے انسان سمیت تمام جاندار سوچتے، سمجھتے اور سبھی افعال اپناتے ہیں۔سوچ یا خیال جنم لینے ہی سے جاندار میں تمام افعال انجام پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے اگر انسان یا حیوان میں سوچ کا یہ منظم الگورتھم نظام کسی وجہ سے خراب ہو جائے تو وہ پاگل ہو جاتا ہے۔وہ پھر کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتا۔
خیال حقیقت بننے لگا:۔بیسویں صدی میں سائنس دانوں کو خیال آیا کہ اگر انسانی دماغ سے ملتا جلتا مصنوعی یا مشینی دماغ بنا لیا جائے تو انسان کے ہاتھ ایک مفید شے لگ جائے گی۔وہ پھر اپنے کاموں میں اس مصنوعی دماغ سے مدد لے سکے گا۔اس سوچ نے پہلے ریاضیاتی نظریات کا روپ اختیار کیا۔پھر ننھے منے ٹرانسسٹروں، ننھی منی چپوں (Chip) اورچھوٹے سرکٹ بورڈوں پہ مشتمل کمپیوٹر اور نت نئے سافٹ وئیر بننے لگے تو یہ خیال حقیقت کا روپ دھارنے لگا۔شروع میں ایسے مصنوعی دماغ یا کمپیوٹر سسٹم وجود میں آئے جو کوئی معین کام کر سکتے تھے۔سافٹ وئیر جو کام کمپیوٹری مشین کرنے کو کہتا، وہ اسے انجام دے ڈالتی۔فیکٹریوں میں کام کرتے روبوٹ اسی قسم کا مصنوعی دماغ رکھتے ہیں۔یہ ازخود کوئی کام نہیں کر سکتے۔انسان ساختہ سافٹ وئیر میں جو ہدایات لکھی ہوتی ہیں،روبوٹ یا مشین صرف انہی کے مطابق کام کرتی ہے۔
مشین لرننگ :۔کمپیوٹر سائنس، ریاضی، عضویات، میکانیات، حیاتیات اور طبعیات کے علوم میں مسلسل ترقی نے مصنوعی ذہانت کے بطن سے ایک نئی شاخ ’’مشین لرننگ ‘‘ کو جنم دیا۔آج مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر سے وابستہ کمپیوٹر سسٹم میں بالعموم سافٹ وئیر ان سے کام کراتے ہیں۔یہ سسٹم اپنے اپنے سافٹ وئیر کے مطابق مخصوص کام ہی کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پہ ایک روبوٹ کو یہ سکھایا گیا کہ وہ ہوٹل میں گاہک کو کھانا پیش کرے گا۔مصنوعی ذہانت پہ مبنی یہ مشین صرف یہی کام کرے گی۔وہ برتن نہیں دھو سکتی یا فرش صاف نہیں کر سکتی۔یہ کام کرنے کے لئے الگ روبوٹ درکار ہوں گے جن کے اپنے مخصوص سافٹ وئیر ہوں گے۔گویا مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سافٹ وئیر اہمیت رکھتے ہیں۔
مصنوعی نیورل نیٹ ورک:۔مشین لرننگ پہ مبنی کمپیوٹر سسٹم ڈٰیٹا یا معلومات کی مدد سے نئے کام کرنا بھی سیکھ سکتے ہیں۔یہ عمل الگورتھم نظام کے ذریعے انجام پاتا ہے۔گویا مشین لرننگ کی شاخ میں الگورتھم زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔اس شاخ میں بنے سارے کمپیوٹر سسٹم یا مشینیں انسانی دماغ سے ملتا جلتا مشینی دماغ رکھتی ہیں جسے اصطلاح میں ’’مصنوعی نیورل نیٹ ورک‘‘ ( network neural Artificial) کہا جاتا ہے۔یہ دماغ کئی ٹرانسسٹروں، چپوں اور سرکٹ بورڈوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔
اس مشینی دماغ میں مصنوعی خلیے( neuron Artificial) ایک دوسرے سے تال میل کر کے اور حاصل شدہ نئے ڈیٹا کی مدد سے نئی باتیں اور افعال سیکھنے کی قدرت رکھتے ہیں۔کمپیوٹر سسٹم کے الگورتھموں کو جتنا زیادہ ڈیٹا ملے، وہ خودبخود، خودکار طریقے سے اپنے آپ کو زیادہ ترقی یافتہ، جدید اور باخبر بنا لیتے ہیں۔مثال کے طور پر گوگل کا ٹرانسلیٹ پروگرام مشین لرننگ پہ مبنی ہے۔اس کے الگورتھم لوگوں کے استعمال کرنے سے جتنا زیادہ ڈیٹا پاتے ہیں، وہ اتنے ہی زیادہ درست، عمدہ اور بہتر ہو رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ، دونوں کی منزل یہ ہے کہ ایسے کمپیوٹر سسٹم تخلیق ہو جائیں جو انسان کی طرح سوچ سکیں اور اسی کی طرح عمل کریں۔اس منزل کی طرف بڑھتے ہوئے آغاز میں مصنوعی ذہانت کا پلّہ بھاری تھا، اب پچھلے کچھ عرصے سے مشین لرننگ کو سبقت حاصل ہو چکی۔مشین لرننگ زیادہ کامیاب اس لئے ہوئی کہ ایک تو سپر کمپوٹر ایجاد ہو گئے جو فی سیکنڈ اربوں پیمائشیں کرنے پہ قادر ہیں۔دوسرے بے حساب ڈیٹا وجود میں آ چکا۔چناں چہ سپر کمپیوٹر اور بے اندازہ ڈیٹا کے ملاپ نے مشین لرننگ پہ مبنی ایسے کمپیوٹر سسٹم تخلیق کر دئیے جن کے مشینی دماغ کارکردگی میں تقریباً انسانی دماغ کے برابر پہنچ چکے۔
ڈیپ بلو:۔مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پہ مبنی پہلی قابل ذکر تخلیق ’’ڈیپ بلو ‘‘(Blue Deep )خصوصی کمپیوٹر سسٹم ہے جو امریکی کمپنی، آئی بی ایم سے وابستہ ماہرین نے 1997ء میں تیار کیا۔اس سسٹم کا سافٹ وئیر ایک سپر کمپیوٹر چلاتا تھا۔سافٹ وئیر کو شطرنج کھیلنے کیلئے تیار کیا گیا۔یہ شطرنج کھیلتے ہوئے سیکھنے اور یوں اپنا کھیل بہتر بنانے پہ قادر تھا۔گویا یہ کمپیوٹر سسٹم مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ، دونوں کا اولیّں امتزاج تھا۔اسے شہرت تب ملی جب اس نے شطرنج کے ممتاز کھلاڑی اور عالمی چمپئن، گیری کاسپروف کو ہرا دیا۔سسٹم کا سافٹ وئیر سپرکمپیوٹرکی مدد سے فی سیکنڈ 20 کروڑ چالیں سوچ سکتا تھا۔
(مضمون جاری ہے ۔اگلی قسط انشاء اللہ اگلی سوموار کو شائع کی جائے گی۔)
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)