مصر میں جنرل سیسی کی تانا شاہی سے حالات وواقعات کی جو گردش حالیہ برسوں میں عیاںرہی ،اُس سے یہ آشکار ہوا کہ فرعون گر چہ آج سے ہزاروں سال پہلے فنا ہوگئے لیکن فرعونیت ابھی زندہ ہے اور دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں کسی نہ کسی شکل میں عیاں ہوتی رہتی ہے ۔ فرعونیت کی سیاہی جو مصر میں دیکھنے کو مل رہی ہے شاید ہی اتنے تاریک نشانات تاریخ کے اوراق میں یا دور جدید میں دنیا کے کسی بھی حصے میں دیکھنے کو ملیں۔یہ سچ ہے چنگیز کی بر بریت اور ہلاکو کی منجملہ ہلاکت کی داستانیں بھی تاریخ کے کئی بابوں میں پڑھنے کو ملتی ہیں اور یہ بھی کہ قرعون وسطی میں منگولوں نے انسانی کھوپڑیوں کے میناروں کی نمائش سے ضلم و وحشت کی وہ داستانیں رقم کی کہ انسانیت شرمندہ ہو گئی لیکن کہا جا سکتا ہے وہ سلوک اُنہوں نے حقیقی یا فرضی دشمنوں کے ساتھ کیا لیکن مصر ی حکام کی بر بریت کے نرغے میں اُن کے اپنے ہی لوگ ہیں جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ فرعونیت کی روح مصر کے کسی نہ کسی ریشے میں آج بھی موجو د ہے حالا نکہ عالم اسلام میں سب سے بڑی جمعیت والے ملک میں اسلام کی پُر نور تعلیمات سے فرعونیت صرف تاریخ کے سیاہ ترین اوراق میں شامل ہونے چاہیے تھی البتہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات سے پنپنے والی سماجی و سیاسی تحریکیں مصر میں کچلی جا رہی ہیں۔
مقدس مذہبی کتابوں میں ازمنہ قدیم کے فرعونوں کی بر بریت کی جو داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر اُس سلوک کی گواہ ہیں جو کہ فرعونوں نے عبرانیوں کے ساتھ روا رکھا تھا اور وہ عبرانی حضرت یوسف ؑ کے دور حکومت میں جب وہ عزیز مصر تھے کنعاں سے نقل وطن کر کے مصر میں آباد ہو گئے تھے تب سے حضرت موسی ؑ کے دور حیات تک جو بیچ کا زمانہ رہا عبرانیوں کوغیر ملکی سمجھتے ہوئے ازمنہ قدیم کے فرعون اُن پہ ظلم ڈھاتے رہے اور اِس ضلم و ستم کی داستاں میں اہرام مصر کی تعمیر میں اُن سے دن و رات بدون اجرت کام لینا بھی شامل تھا۔ظلم جب حد سے بڑھا تو تولد حضرت موسی ؑ سے وہ داستاں رقم ہوئی جہاں عبرانیوں کو نجات کی راہ میسر ہوئی اور وہ مصر سے نکل کے صحرائے سینا کو عبور کرتے ہوئے فلسطین کی جانب نکل پڑے جہاں اُن کو ایک نیا وطن نصیب ہوا جسے اسرائیل کا نام دیا گیا جو کہ حضرت یعقوب ؑ کے ناموں میں ایک نام ہے۔ہزاروں سال گذرنے کے بعد عبرانیوں کو اپنے یہودی خد و خال میں پھر اسرائیل کی یاد آئی اور اُنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ وہی ظلم وستم روا رکھا جس کا شکار وہ خود ہو چکے تھے۔تاریخ کو اپنے اوراق دہرانے کا سودا سوار ہو چکا ہے اور یہ آج ہی کی بات نہیں تاریخ کے ہر باب میں یہی سبق پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہودیوں کی اسرئیل میں واپسی اور وہاں سے فلسطینیوں کے جبری اخراج کی کہانی بھی مصر کی داستان کا ایک رخ ہے اور مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس میں یہودیوں کی سازشوں و چیرہ دستیوں کا بھی عمل دخل ہے جس کا ثبوت منظر عام پہ آ رہا ہے اور ہماری آج کی بحث میں بھی یہ شامل رہے گا۔
ازمنہ قدیم سے مصر میں جو سماجی، سیاسی و دینی تحریکیںدر پیش رہیں وہ اتنی طویل ،وسیع و دلچسپ ہیں کہ مجموعاََ علوم مصری (Egyptology) کو علوم رائج میں ایک الگ علم کی حیثیت حاصل رہی،ایک منفرد مضمون جس پہ کافی تحقیق ہو بھی چکی ہے اور ہو بھی رہی ہے۔مصر کی سوق الجیشی (سیاسی و فوجی) حیثیت اُس کے محل وقوع سے جڑی ہوئی ہے ۔نیل کے کنارے اس زرخیز ملک کو کبھی اعراب کے غذائی ذخائر کا مرکز مانا جاتاہے اور یہی وجہ رہی کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے بحر احمر کی آبی راہروں سے مصر و حجاز کے بیچ کی دوری کو کم سے کم کرنے کی راہ پیدا کرلی۔عالمی آبی رہروں سے مصر کی رسائی وسیع ہے جس میں دور جدید میں نہر سوئز کی تعمیر سے ایشیا اور افریقہ کے ساحلوں تک بر اعظم یورپ کی رسائی کو کم سے کم کرنے کے امکانات کو عملی صورت دی گئی۔ مصر ایک افرو ایشائی ملک ہے جس کی سر زمین دونوں بر اعظموں پہ محیط ہے۔ آبادی کے لحاظ سے مصر عربی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ ہر لحاظ سے دیکھا جائے تو مصر کو اعراب کا مضبوط ترین قلعہ مانا جانا چاہیے تھا اور یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے از ساحل نیل تا بخاک کاشغر کی بات فلک شگاف انداز میں کہی۔ افسوس کی بات ہے اور دلشکنی کا مقام بھی کہ اِس قلعے میں بار بار نقب زنی سے اُس کی دیواروں میں شگاف پڑتے جا رہے ہیں جس سے اتحاد العراب و وسیع تر دائرے میں اتحاد المسلین کی راہیں مسدود ہوتی جا رہی ہیں اور ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جہاں اللہ ہی حامی و ناصر ہو سکتا ہے۔تازہ ترین شگاف جو حالیہ برسوں میں پیش آیا اخوان المسلمین کی اُس حکومت کا خاتمہ تھا جو آئینی طور و طریقے سے ایک انتخابی عمل سے وجود میں آئی تھی۔
مصر تاریخ عالم میں ایک درخشاں نام ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے سیاہ ترین ادوار کا گواہ بھی ہے۔ تاریخ کا کوئی بھی دور مصر کے تذکرات سے خالی نہیں ۔مصر میں دریائے نیل سے جڑی ہوئی داستانوں سے تاریخی رنگینیاں رنگین تر ہو گئیں ہیں لیکن نیریگیوں کے ساتھ تاریکیاں بھی تاریخ مصر میں اپنی پرچھائیاں چھوڑ گئی ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ آج کا مصر ایک تاریک دور سے گذر رہا ہے جہاں مصریوں کے ہاتھ سے ہی اپنے ہمو طنوں کے قتل و غارت کا سیاہ باب رقم ہو رہا ہے اور یہ صرف و صرف اِس وجہ سے ہو رہا ہے کہ مصری حکام کی لگام کسی اور کے ہاتھوں میں ہے اور وہ جو کوئی بھی ہے اُسے مصر کی خوش بختی دیکھی نہیں جا تی ۔مصری اپنے ہاتھوں سے اپنے مستقبل کو سنواریں یہ تسلط کے نا خداؤں کو گوارا نہیںکیونکہ وہ اپنی بالا دستی اقوام عالم پہ عموماََ اور مصر جیسے ملکوں پہ خصوصاََ قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔
اسلامی تحریکوں میں اخوان المسلمین کا نام روشن ترین الفاظ سے رقم ہونا چاہیے چونکہ یہ ایک پُر امن اصلاحی تحریک رہی ہے لیکن اُس کو وقت کے فرعونوں نے تشدد سے کچلنے کی کوششیں روا رکھی ہیں۔مصر میں جمہوریت و تانا شاہی میں ایک جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور اِس جنگ کے انجام کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا گر چہ ایک کوتاہ مدت تجزیے میں کہا جا سکتا ہے کہ تانا شاہی نے جس کی پشت پہ مصری فوج کے جنرل ہیں قتل و غارت سے جمہوریت قوتوں کو نرغے میں لیا ہوا ہے ۔اِس قتل و غارت میں ابھی تک سینکڑوں جانیں تلف ہو چکی ہیں اور ہزار وں مجروحین بھی فوجی بر بریت کا شکار ہو چکے ہیں ۔اخوان المسلمین کی صف اول کے رہبراں پابند سلال ہو چکے ہیں پھر بھی اِس جماعت کو مصرکے سیاسی میدان سے خارج کرنے کا خواب جو کچھ خارجی طاقتیں صیہونی زعما اور اُن کے مصری و عربی گماشتے دیکھ رہے ہیں وہ پورا ہو تا ہوا نظر نہیں آتا گر چہ یہ سچ ہے کہ اخوان المسلمین نے پچھلے کئی سالوں سے سنگین ضربیں سہی ہیں البتہ ایسی صورت حال اِس تنظیم کیلئے نئی نہیں۔ سعید قطب کے نظریاتی اصولوں پہ ترتیب شدہ تنظیم جس کی آبیاری حسن البنا جیسے جیالے رہنماؤں نے اپنا خون نچھاور کرتے ہوئے کی ہے کچھ وقت کیلئے دب تو سکتی ہے لیکن جس تنظیم کے پایے اکثر و بیشتر مصریوں کے دلوں میں محفوظ ہیں اُسے ہمیشہ کے لئے دبانے کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا البتہ محلی گماشتو ںو اعراب پہ مسلط سلاطین کے سیاہ کردار کی جانچ سے کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔
ایک کھلے انتخاب میں محمد مرسی مصر کے صدر چن لئے گئے تھے حالانکہ اتحاد مسلمین کی جانب اُن کی نامزدگی دوسرے نمبر پہ تھی تاکہ اگر نامزد اول خیرۃ الشتر کے کاغذات نامزدگی رد ہو جائیں تواُنہیں سامنے لایا جائے اور ایسا ہی ہوا۔ خیر ۃالشتر کو ایک مضبوط امیدوار مانتے ہوئے اُن کے کاغذات رد کر لئے گئے جب کہ فوج کی نظروں میں محمد مرسی ایک ضعیف نامزد مانے گئے اور اُنہیں انتخابی میدان میں رہنے دیا گیا لیکن فوج کے اوسان خطا ہوئے جب کہ دوسرے درجے کے امیدوار نے میدان مار لیا جو تنظیم کی محبوبیت کی ایک واضح دلیل ہے۔ مصر میں اسلامی اصلاحات نافذکرنے میں اخوان المسلمین نے تشدد کو صحنۂ سیاست سے خارج قرار دیا لیکن یہ امنیت کی روش بھی سازشی عناصر کو مطمین کرنے میں نا کام رہی ۔ اخوان المسلمین کے خلاف خارجی قوتوں نے اپنے عربی گماشتوں کے ساتھ مل کے سازشی چالوں کو جاری رکھا۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سعودی شہزادے بندر بن سلطان محمد مرسی کے بر سر اقتدار آتے ہی سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف ہوئے ۔بندر بن سلطان سعودی سفارت کاروں میں مغرب خاص کر امریکہ کے منظور نظر رہے ہیں۔ترکی کے وزیر اعظم ثبوتوں کی بنا پہ یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ یہودی دانشوربرنارڑ ہنری لیوی بھی سازشوں میں شامل رہے۔ اب یہ کہ سازشی ایک ہی دائرے میں کام کر رہے تھے یا کئی سازشی دائرے مصروف عمل تھے صاف ظاہر نہیں ہے البتہ یہ عیاں ہے کہ سازشی دائرہ ایک ہی تھا یا کئی سب ہی کی کوشش اِسی پہ متمرکز تھی کہ جمہوری عمل کو مصر میں روکا جائے۔
امریکہ کی ریاست اٹلانٹا کی یونیورسٹی کے استاد راجرس کا ماننا ہے کہ سعودی حکام ایک ایسی جمہوریت سے خائف ہیں جس کی اساس اسلامی ہو ۔اِس محترم استاد نے جو بات کہی ہے اُس کے تجزیے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی حکام نہیں چاہتے کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ اسلام کی روح جمہوری ہے نہ کہ وہ موروثی بادشاہت جس کی بنیاد پہ نہ صرف سعودی عربیہ بلکہ خلیجی ممالک اور ا ردن و مراکش تکیہ کئے ہوئے ہیں ۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اِن ممالک کو امریکہ کی سر پرستی حاصل ہے۔ بظاہر مغربی مطبوعات اور نام نہاد لبرل حلقے آج کل جو کچھ مصر میں ہو رہا ہے اُس پہ مگرمچھ کے آنسو بھی بہا رہے ہیں صرف یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ اُنہیں جمہوریت کی بقا عزیز ہے چناچہ امریکہ نے سالانہ1.5 بلین ڈالر کی امداد اور یورپ نے 1.3 بلین ڈالر کی امداد روک لی ہے جبکہ سعودی عربیہ نے شاہی خزانے کا منہ کھولتے ہوئے مجموعی طور پہ 12 بلین ڈالر کی اعانت کا فیصلہ کر لیا اور یہ رقم ا خوان المسلمین پہ صبر آزما مظالم ڈھانے کے صلے میں مصری فوجوں جنرلوں کو دی گئی۔ عالمی سیاسی روشوں میں خلیجی ممالک کے سلاطین ایک طرف ہوں اور اُنکی پشت پناہی کرنے والے مغربی ممالک دوسری طرف بعید ہے لیکن اِسے علامہ اقبالؒ کے جنگ زرگری کے بارے میں پیش کردہ نظریات کے زمرے میں جانچا جائے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے ۔جنگ زرگری میں سونے کی ایک نرخ صرافوں کے مابین مقرر کی جاتی ہے تاکہ سونے کا بھاؤ بڑھتا رہے البتہ صارفین یعنی جو سونا خریدتے ہیں اُن کو چرخانے کیلئے کئی بھاؤ بازار میں بتائے جاتے ہیں گر چہ سونا بکتا اُسی نرخ پہ ہے جو مقرر کی گئی ہو۔
جمہوریت کی خاطر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے امریکائی اور یورپی سیاستدانوں نے بتدریج مصری جنرلوں کیلئے اپنی نوازشوں و کرم فرمائیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور جو مالی اعانت بند کر لی گئی تھی وہ مغربی جمہوریت کی بندر بانٹ کا ایک نمونہ تھا۔مغربی ایشیا کے استحکام کا رونا روتے ہوئے مصری جنرلوں کی پشت پناہی بھی کی جا رہی ہے تاکہ مصری حکام کے پاس اپنے لوگوں کو دبائے رکھنے کیلئے امکان وسیع تر رہیں البتہ بیچ بیچ میں اپنی جمہوری ساکھ بنائے رکھنے کیلئے مصری حکام کو مشوروں سے بھی نوازا جارہا ہے کہ بحالی جمہوریت کی کوششوں کو فروغ دیا جائے گر چہ پس پردہ ایسی جمہوریت بحال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں جس میں اسلام نواز عناصر کو حتّی المکان اقتدار سے دور رکھا جائے۔ جنگ زرگری کے اقدامات ہر گذرتے دن کے ساتھ واضح تر ہوتے جا رہے ہیںچناچہ حالیہ برسوں میں جہاں سعودی سفارت کار مغربی طاقتوں کو مصری جنرلوں کیلئے حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے وہی روسیوں کو رام کرنے میں لگے رہے باوجود یہ کہ روسی جہاں شام میں بشر الاسد کی حمایت کر رہے ہیں وہیں سعودی حکمران بشا رالاسد کے حریفوں کی مدد کر رہے ہیں، البتہ مصر ی تجزیے میں دونوں ایک ہی صفحے پہ نظر آئے۔ چناںچہ کہا جاتا ہے کہ روس کے ایک سفارت کار جنگ زرگری میں بظاہر اپنے حریف ا مریکی سفارت کار کو یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ وہ ٹائی لگانے والوں کے بجائے داڑھی والوں کے ساتھ کیوں کے ساتھ کیونکر نظر آ رہے ہیں؟ یہ سیاسی فقرہ غالباََ اس لئے کسا گیاکہ امریکہ نے مالی امداد بند کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ داڑھی سے عناد میں امریکہ اور روس ایک ہی صفحے پر ہیں، بھلے ہی وہ دوسرے عالمی معاملات میں ایک دوسرے کے حریف بھی ہوں۔
Feedback on: [email protected]