اد ب سماج کی عکاسی کرتا ہے، ادب گزشتہ تہذیبوں پر پڑے پردوں کوواکرکے اُن کے اندر موجود سماجی تانے بانے کوہمارے سامنے عریاں کرتا ہے، ادب زمانے کے رنگ ڈھنگ اور لوگوں کی سوچ سمجھ کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی لیے سماج میں ادبی دنیا کو ہر دور میں نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ انسانی سماج کے ماضی ، حال اور مستقبل کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں ادیبوں کے قلم نے سوئی اور ادب کی ڈور نے دھاگے کا کام کیا ہے۔تاریخ انسانیت شاہد ہے کہ جس کسی بھی سماج نے ادبی ذوق و شوق کو کھو دیا تھا اُن کی تہذیب اور تاریخ پھر آنے والے زمانے میں قصۂ پارینہ بن گئی۔ہر زمانے میں ادبی دنیا کے ذریعے سے مختلف الخیال لوگوں نے اپنی سوچ اور فکر کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ماضی میں بھی اور آج کے دور میں بھی تاریخ سازی، افسانہ نگاری، اسفار نگاری،سیرت، سماجیات وغیرہ موضوعات پر علماء، دانشوروں ، ادیبوں اور شاعروںنے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے سے علم و ادب کی آبیاری کی ہے اور کررہے ہیں۔برصغیر ہند پاک میں مسلمانوں نے ادب کے مختلف گوشوں میں رنگ بھرکر عظیم خدمات انجام دی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ برصغیر میں یہ مسلمان علماء ، دانشور اور ادیب ہی تھے جنہوں نے علمی و ادبی ذوق و شوق کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ ادب کے معاملے میں یورپ اور عرب دنیا کو برابر کی ٹکر دی ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ناول نگاری کو بھی برصغیر میں ایک زمانے میں عروج حاصل رہا ہے ۔ جہاں منشی پریم چند جیسے افسانہ نگاروں نے اردو ادب کی خدمات میں نمایاں رول ادا کیا ہے وہی ادبی دنیا میں سعادت حسن منٹوجیسے لوگوں نے بھی برصغیر کے باحیا ماحول کو اپنے بے حیا خیالات کے ذریعے سے پراگندہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔مسلمانوں کی عظیم تاریخ اور مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان کو جس انداز سے مشور زمانہ ناول نگار نسیم حجازی نے ادبی رنگ میں پرویا تھا اور آج بھی نوجوان نسل میں ایمانی غیرت و حمیت پیدا کررہا ہے اُس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں یا کسی اور قوم کی ادبی کاوشوں میں مل پائے گی۔موجودہ دور میں اردو ادب کے تئیں اگر چہ بھارت میں کافی سرد مہری کا مظاہرہ ہورہا ہے اور اردو جیسی میٹھی زبان کا وجود خطرے میں دکھائی دے رہا ہے وہیں پڑوسی ملک پاکستان میں اردو کو زندہ رکھنے کے لیے کئی نامور قلمکار ابھر رہے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے ادبی دنیا میں نمرہ احمد اورعمیرہ احمد نے تہلکہ برپا کیا۔ اُن کے ادبی کارناموں کی وجہ سے جہاں اُس ملک کی نوجوان نسل ٹیکنالوجی اور مصروفیت کے باوجود کتابوں کی جانب واپس متوجہ ہورہی ہے وہیں اِن دونوں خواتین نے ادب کا تعمیری اسلوب اپناتے ہوئے نوجوان نسل کی ذہن سازی اور فکری ارتقاء میں نمایاں کردار بھی ادا کیا ہے۔
نمرہ احمد عصر حاضر کی اُبھرتی ہوئی مصنفہ ہیں ۔ پاکستان کی اس مقبول اور جواں سالہ ناول نگار نے اپنے تحریری سفر کا آغاز جولائی۲۰۰۷ء سے کیا، انہوں نے اس قلیل عرصے میں اپنے علم و فہم کو منفرد انداز میں پیش کرکے بالخصوص نوجوان نسل میںکافی شہرت حاصل کی۔ اب تک کے اس ادبی سفر میں اُن کی تقریباًگیارہ کتابیں تصنیف ہوکر منظر عام پر آئی ہیں، جن میں سب سے زیادہ مقبولیت مصحف، جنت کے پتے، حالم،نمل وغیرہ جیسی معروف ناولوں کے حصے میں آئی ہے۔میرے زیرمطالعہ ناول’’مصحف‘‘ میں ان کا نرالہ اور دل کو چھو لینے والا انداز حقیقی معنوں میں اُنہیں دوسرے مصنفین اور ناول نگاروں سے ممتاز کردیتا ہے۔’’ مصحف‘‘ اردو ادب بلکہ ادبی دنیا کی ایک شاہکار تصنیف ہے۔ یہ ناول پڑھ کے نمرہ احمدکی غیر معمولی دانست ، فہم و فراست اور تخلیقی صلاحیتوں کی داد دئے بغیر انسان نہیں رہ پاتا۔اس ناول کا مرکزی کردار ایک یتیم لڑکی محمل ہیں جو اپنے ہی مفاد پرست قرابت داروں کے ظلم و جبر اور ناانصافیوں کے بھینٹ چڑھ چکی تھیں ، اور پھر کہیں نہ کہیں وہ مایوسیوں اور ناامیدیوں کا شکار ہوکر دنیا کو اپنے لیے عذاب سمجھنے لگ جاتی ہیں۔مصنفہ نے پھر خوبصورت انداز میں اپنے اس مایوس کردار کے لیے قرآن مقدس کی صورت میں اُمید کی ایک کرن پیدا کی اور پھر اُمید کی یہ کرن اس لڑکی کو اللہ تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ کہانی دراصل ہر اُس شخص کی کہانی ہے جو کلام پاک کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جن لوگوں نے کلام الٰہی کو سب سے اونچے طاقوں میں بڑے ہی سلیقے اور ادب سے رکھنے کو ہی اللہ کے کلام کی حق ادائی سمجھ رکھا ہے،جو قرآن کو گھر میں غلافوں میں صرف برکت کے لیے رکھتے ہیں یا پھرانہیں قسمیں کھانے اور قسمیں کھلانے کے لیے، جو کبھی کبھی بھی اس کتاب اللہ کی عملی زندگی میں یہ ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ قرآن پاک کو کیسے زندگی کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے؟ یہ کتابِ مقدس کیسے ہمارے حال اورمستقبل میں رہنمائی کرتی ہے؟ مصحف میں مصنفہ نے اس بات کو منفرد و دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔اس ناول میں مصنفہ نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ یہ بات سمجھائی ہے کہ قرآن مجیدمحض ایک کتاب اور دین اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کی ایک ایک آیت روز مرہ کی زندگی میں انسان کی رہبری و رہنمائی کرتی ہیں۔انسان کے روحانی و سماجی مسائل کا حل بتا دیتی ہے۔ انسان کو دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ اُسے اخروی کامیابی سے بھی ہمکنار کرنے والی ان آیات کو پڑھنے، سمجھنے اور پھر اِن پر غور کرنے کی ضرورت کو واضح طور پر نمرہ احمد نے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔قرآنی تعلیم اور قرآنی زبان کو سمجھنے اور پڑھنے کی اہمیت واضح کرنے کے لیے ناول کے دو کرداروں کے مکالمہ کی صورت میں رقمطراز ہیں ::
’’جب ہم ’’زبر زیر‘‘ کو بہت لمبا کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتاکہ ہم قرآن میں ایک حرف کا اضافہ کرتے ہیں ، ’’زبر‘‘ کو کھینچ کر’’ الف ‘‘کا اضافہ کررہے ہیں ، قرآن میں تحریف کررہے ہیں، معنی بدل رہے ہیں، انگریزی کو تو خوب برٹش اور امریکن لہجے میں بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن جس کو عربی لب و لہجے میں پڑھنے کا حکم ہے اور جس میں زیر ، زبر کو اصل سے زائد کھینچنا بھی حرام درجے کی غلطی شمار ہوتا ہے اُس کے سیکھنے کو ہم اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں۔‘‘
نمرہ احمد نے قرآن سے جڑ جانے اور قرآنی آیات کو اپنی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے علاوہ نماز کی اہمیت و افادیت کو بھی بڑے ہی سلیقے سے اجاگرکیا ہے۔ ناول کے مرکزی کردار کا اپنی ٹیچرکو کیے گئے اس سوال کہ کیا نماز ضروری ہے؟ اگر انسان نیک کام کرے ، لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، پھر نماز کی کیا ضرورت ہے؟ کے جواب میں نماز کی اہمیت نرالے انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’آپ بے شک نماز نہ پڑھیں، بے شک سجدہ نہ کریں، جو ہستیاں اُس کے پاس ہیں وہ اُس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتیں، اگر آپ کرلیں اُس سے کیا فرق پڑے گا، اس آسمان کا بالشت بھرحصہ بھی خالی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدہ نہ کررہا ہو اور فرشتہ جانتی ہے کتنا بڑا ہوسکتاہے؟جب اُس پہاڑی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کے پکارنے پہ پلٹ کر دیکھا تھا تو جبرائیل علیہ السلام کا قد زمین سے آسمان تک تھا اور اُن کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان نظر نہیں آرہا تھا ایسے ہوتے ہیں فرشتے… ۷۰؍ ہزار فرشتے کعبہ کا روز طواف کرتے ہیں ، یہ تعداد عام سی لگتی ہے مگر جانتی ہو جو ستر ہزار فرشتے روز طواف کرتے ہیں اُن کی باری پھر دوبارہ قیامت تک نہیں آئے گی۔اُس رب کے پاس اتنی لاتعداد ہستیاں ہیں عبادت کرنے کے لیے… آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو اُسے کیا فرق پڑے گا؟‘‘
’’مصحف ‘‘کی یہ کہانی ہر اُس نوجوان لڑکی کی داستان ہے جو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر کسی ہوس پرست کے دل فریب جال میں پھنس جاتی ہیں، جو کسی گہرے دلدل میں پھنستے پھنستے گہری کھائی میں گرنے سے بچ جاتی ہیں۔یہ اُن سب لوگوں کی کہانی ہے جو زندگی میں کافی دشوارگزار مراحل سے گزرتے ہیں، جس کا سامنا اذیتوں اور تکالیف سے ہوا ہو اور جنہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اُن کا دلاسا دینے والا کوئی نہیں ہے اور جہاں انسان کو یہ لگے کہ کوئی نہیں ہے جو اُس کے آنسو پونچھے ،اُس کے لیے آنسوبہائے، اُسے دلاسہ دے ، جس کے کندھے پر سر رکھ کو وہ روئے۔ جب انسان انسانوں سے مایوس ہوجاتا ہے، انسانوں سے اُس کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں ، انسانوں سے اُس کا بھروسہ ختم ہوجاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی ذات اُس کا سہارا بن جاتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کا دین اُس کا جائے پناہ بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی کتاب اُس کو دلاسہ دیتی ہے، اُس کی ہمت باندھتی ہے، اُس کے مشکلوں کا حل بتا دیتی ہے، اُس کے اندر امیدوں کی جوت جگاتی ہے۔
اللہ کی جانب پلٹ آنے اور اُن کے ساتھ جڑجانے کو ایک جگہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ اپنے کردار محمل سے مخاطب ہوکر ایک دوسرے کردار فرشتے کی زبان سے کہتی ہیں:’’جب روز قیامت اللہ زمین ، آسمان کو بلائے گا تو ہر چیز کھینچی چلی آئی گی طوعاً یا کرہاً، خوشی سے یا ناخوشی سے، جب ہم اللہ کے بلانے پر نماز اور قرآن کی طرف نہیں آتے ہیں تو اللہ ہمارے لیے ایسے حالات بنا دیتا ہے ، یہ دنیا اتنی تنگ کردیتا ہے کہ ہمیں زبردستی سخت ناخوشی کے عالم میں آنا پڑتا ہے اور ہم بھی کرہاً بھاگ کرآتے ہیں اور اُس کے علاوہ ہمیں کہیں پناہ نہیں ملتی ہے۔ اُس لیے طوعاً آجاؤ مہمل ورنہ تمہیں کرہاً آنا پڑے گا۔‘‘
بہت سارے نقاد نمرہ احمد کے طرز بیان اور اُن کے تخلیقی طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بناکریہ کہتے ہیں کہ یہ مصنفہ پیار محبت اوراسلامی تعلیمات کو خلط ملط کررہی ہیں۔ تنقید سے کوئی مبرانہیں ہے، ہر ادبی شخصیت اور اُن کی تخلیق کو تنقیدی نشتر سے گزرنا پڑتا ہے۔ ناقدین سے کسی حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن ہمیں موجودہ دور کے حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعدہی کسی بھی ادیب یا ادیبہ کے طرز بیان اور تخلیقی صلاحیتوں پر انگلی اٹھانی چاہیے۔آج کے دور میں سوشل میڈیا ہماری بالخصوص نوجوان نسل کی زندگیوں کا جزولاینفک بن چکا ہے۔انٹرنٹ، سمارٹ فون اور پھر سوشل میڈیا نے ہماری نوجوان نسل کو کتابی دنیا سے بالکل ہی لاتعلق کرکے رکھ دیا ہے۔ جہاں سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں اس کے بہت برے اور منفی اثرات بھی ہماری زندگیوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ہماری نوجوان نسل کی اخلاقی گرواٹ میں سوشل میڈیا کا رول نمایاں ہے۔فیس بک، ٹوٹیٹر، وٹسپ، انسٹاگرام اور نہ جانے کیا کیا بلائیںہماری نسلوں کو اپنے سحر میں لے چکی ہیں،اُن کے وقت کابیشتر حصہ موبائل فون کی اسی دنیا میں ضائع ہورہا ہے اور کہیں نہ کہیں سوشل میڈیاکے بے ڈھنگ اور بغیر سنسر کی انفامیشن سے ہماری نوجوان نسل ذہنی تناؤ کا شکار ہورہی ہے۔موجودہ زمانے میںسوشل میڈیا پروپیگنڈا کا بہت اہم ذرئع بن گیا ہے اور پروپیگنڈا بھی بڑھا چڑھا کر کیا جاتا ہے جس کا لازمی اثر نوجوان نسل کے ذہنوں پر پڑ جاتا ہے۔ یہ اسلام دشمن طاقتوں کا بھی بہت بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے وہ دین کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو فحاشیت ، عریانیت اور بے راہ روی میں مبتلا کررہے ہیں۔سوشل میڈیا کے زیر اثر رہ کرہماری نوجوان نسل میں چڑچڑھا پن آجاتا ہے، اُن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بری طرح سے متاثر ہوتی ہے، وہ معاملات کی تہہ میں جانے کے بجائے سطحی سوچتے ہیں،اور اس طرح سے ملت کی نئی نسلوں میں بیمار ذہنیت پروان چڑ جاتی ہے جس کا لازمی طور پر اُمت اور انسانیت کے مستقبل پربرا اثر پڑ سکتا ہے۔سوشل میڈیا کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ نئی نسلیں کتاب کی اہمیت اور افادیت کھو چکے ہیں۔ وہ مطالعے سے دور ہوتے جارہے ہیں، کتابوں کا کلچر ختم ہوتا جارہا ہے حالانکہ جس طرح غذا جسم کی نشو دنما کے لیے ضروری ہے اسی طرح روحانی و فکری ارتقاء کے لیے کتب بینی ضروری ہے۔جس طرح غذائی کمی کی وجہ سے جسم لاغر اور نحیف ہوجاتا ہے اُسی طرح مطالعے کے بغیر عقل اور شعور میں زوال آجاتا ہے۔ایک انتہا یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کتابوں سے بالکل ہی لاتعلق ہوچکی ہے اور اپنی تہذیب و تمدن کو بھی بھول چکی ہے۔ قرانیات اور اسلامیات کی کتابوں میں اُن کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے، دوسری انتہا یہ بھی ہے کہ وہ انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کے سحر میں گرفتار ہیں۔ اُنہیں اس سحر سے نکالنا بھی ہے اور اُن کو اپنی تہذیب قرآن اور اسلام کے ساتھ ساتھ کتابوں سے جوڑنا بھی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اُن کی دلچسپی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے ، اُنہیں اُن کی زبان میں بات سمجھائی جائے اور نمرہ احمد اپنے ناول میں بالکل یہی انداز اپنائے ہوئی ہیں اور وہ نوجوان نسل کو اُن کے مزاج اور ذائقہ کے مطابق غذا فراہم کررہی ہیں۔دو انتہاؤں کے بیچ کے فاصلوں کو نظر اندازکرکے اُن کوملانا ممکن نہیں ہے بلکہ ایک انتہا سے دوسری انتہا تک پہنچ جانے والے فاصلوں کو آہستہ آہستہ کم کرکے نسلوں کو اپنے اصل سے جوڑنا ہی حکمت و دانائی کا تقاضا ہے اور ’’مصحف‘‘ کے ذریعے سے نمرہ احمد اس کی کامیاب کوشش کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی ناولز کو عام کیا جائے۔ ہمارے یہاں کبھی کشمیر یونیورسٹی کے نصاب میں اردو ادب کے فروغ کے نام پر’’امراؤ جان ادا‘‘نام کے فحش ناول نصاب میں شامل ہوا کرتی تھی اور نوجواں نسل کے ذہنوں کوبیمار ادب کے ذریعے سے مفلوج بنایا جارہاہے۔ اب اگر ادبی دنیا کی کوئی ناول نگار ادبی ضرورت بھی پورا کرتی ہو، آپ کی ذہنی و فکری تربیت بھی کررہی ہیں اور آپ کی دلچسپی میں اضافہ بھی کررہی ہیں تو لازمی طور پر ایسے ناول نگار کی نہ صرف پذیرائی ہونی چاہیے بلکہ اُن کے ناولز کو کتابوں سے دور نوجوان نسل میں عام کرنے کے لیے تگ دو کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔