فکرو فہم
سید سہیل گیلانی
زندگی میں انسان کو جو مشکلات اور چیلنجز درپیش آتے ہیں، وہ اُس کی زندگی کی کتاب کے اوراق کا حصہ ہوتے ہیں،کیونکہ زندگی کسی کو بھی دائمی جائیداد کی حیثیت سے نہیں ملی ہے بلکہ زندگی تو صرف تجربات کے لئے ہے۔اس لئے معلومات اور تجربات حاصل کرنے کے لئےہر دم کوشاں رہو کہ اس کے بغیر انسانی زندگی کا جہاز ساحلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ۔کیونکہ ہماری’ چند روزہ ‘زندگی کا وہ حصہ جو دنیا کی چہل پہل سے علیحدہ صرَف ہوتا ہے بصیرت کے نئے نئے باب ہماری چشمِ بینا کے سامنے کھول دیتا ہے۔گویاانسان کے لئے مصائب و مسائل بالکل عارضی نہیںہوتے ہیں بلکہ یہ اکثرانسان کے مقدر کا حصہ بن کر اس کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی موقع پر مشکلات کا سامنا کرتا رہتا ہے، چاہے وہ ذاتی سطح پر ہوں یا پیشہ ورانہ میدان میں۔ یہ مشکلات ایک طرف جہاں انسان کو مایوسی اور بے بسی کا احساس دلاتی ہیں، وہیں دوسری طرف یہ اُس کی صبر، حوصلہ اور قوت ِارادی کو آزمانے کا وقت بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجودیہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ مشکلات کا سامنا صرف ایک غیر متوقع واقعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن کر اُسے اندرونی طور پر مضبوط اور متوازن بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
جب ہم زندگی کی پیچیدہ اور دشوار راہوں کا ذکر کرتے ہیں تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ مشکلات ہمیشہ ایک ہی نوعیت کی نہیں ہوتے بلکہ مختلف وجوہات اور حالات کی بنا پر بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ مالی مشکلات کی صورت میں سامنے آتی ہیں، کبھی صحت کے مسائل انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کر دیتے ہیں اور کبھی ہم کسی عزیز یا رشتہ دار کی موت کا سامنا کرتے ہیں جو ہمیں گہرے غم اور اضطراب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ان کے علاوہ پیشہ ورانہ زندگی میں ناکامی، ذاتی تعلقات میں مسائل اور نفسیاتی دباؤ بھی ایسی مشکلات کی اقسام ہیں جن کا سامنا اکثر لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت، جب انسان ان چیلنجز کا سامنا کرتا ہے، وہ خود کو بہت زیادہ دباؤ میں محسوس کرتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ زندگی کے خوشگوار پہلو اب دور جا چکے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے دوران وہ بہت سے نئے اسباق سیکھتا ہے اور ان تجربات سے اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کی حقیقتیں اس وقت تک پیچیدہ اور تیز رفتار رہتی ہیں جب تک کہ انسان ان کا مقابلہ نہیں کرتا اور یہ مقابلہ ہی اس کی شخصیت کی تکمیل اور ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
ایک اہم پہلو جو انسان کو ان مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے، وہ ہے ’’لچک‘‘۔ لچک کا مطلب صرف مشکلات کے مقابلے میں بقا ءکا نام نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی اپنی داخلی طاقت کو سمجھنے اور اسے بہتر کرنے کا عمل ہے۔ جب انسان مشکل حالات کا سامنا کرتا ہے اور ان میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ کر دوبارہ کھڑا ہوتا ہے، تو وہ خود کو ایک نئی توانائی اور امید سے پُر پاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے بھی وہ لوگ جو دنیا میں عظیم کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، ان کا سفر اکثر مشکلات و مسائل سے بھرا ہوتا ہے۔ ان افراد کی کہانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہر مشکل کا حل نہ صرف محنت اور عزم میں ہے بلکہ ان کے لیے لچک اور تسلسل بھی اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ اعتماد ہی زندگی کی متحرک قوت ہےجو انسان کو کسی خاص مقصد کے حصول تک پہنچاتی ہےاور ہاں! نشاط و انبساط اور اندوہ کلفت زندگی کی اصلی غرض و عافیت نہیں،اس کا منتہائے مقصود تو یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سرگرم عمل رہیں تاکہ مستقبل روز بروز بہتر ہی ہوتا جائے۔اس کے ساتھ ہی زندگی کےمشکلات کو مؤثر انداز میں حل کرنے کے لیے ایک اور ضروری عنصر ’’مثبت ذہنیت‘‘ ہے۔ انسان کا ذہنی رویہ اور اس کا تصور مشکلات کو حل کرنے کی سمت میں ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ جب انسان مثبت سوچ رکھتا ہے تو وہ ان مشکلات کو صرف رکاوٹیں نہیں سمجھتا بلکہ وہ انہیں سیکھنے اور ترقی کے مواقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص ناکامی کا سامنا کرتا ہے، تو وہ اسے ایک سبق کے طور پر دیکھتا ہے جو آگے چل کر اسے کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس مثبت سوچ کے ذریعے انسان خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے اور اپنی تقدیر کو خود بدلنے کی طاقت محسوس کرتا ہے۔
مزید ، انسان کا استقامت اختیار کرنا اس کی کامیابی کے سفر کا ایک اہم جزو ہے ۔ استقامت کا مطلب ہے کہ انسان حالات چاہے جیسے بھی ہوں، اپنے مقصد کے حصول کی کوشش جاری رکھے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں کئی مشہور شخصیات کی مثالیں ملتی ہیں، جنہوں نے زندگی کی سب سے بڑی مشکلات کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کئے۔ اس استقامت کے عمل میں انسان اپنی طاقت کو پہچانتا ہے اور اس کی عزم کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کامیابی صرف ان لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارتے اور اپنے مقصد کو پانے کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔اب ذرا زندگی میں درپیش مشکلات اور ان کا سامنا کرنے کے متعلق قرآن کی روشنی میں آتے ہیں:
زندگی میں مشکلات کا آنا ایک فطری امر ہے اور یہ ہر انسان کے راستے میں آتی ہیں۔ قرآن کی روشنی میں بھی ان مشکلات کا سامنا کرنے کی اہمیت اور ان کے اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ مشکلات اور آزمائشیں انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ہم تمہیں خوف، بھوک، مال و جان کی کمی، پھلوں کی کمی سے آزمانا چاہتے ہیںاور تمہیں بشارت دے دو صبر کرنے والوں کو۔‘‘ (سورہ البقرہ 2:155)۔ یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں بتا رہے ہیں کہ انسان پر جو بھی آزمائش آتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ یہ آزمائشیں انسان کی ایمانداری اور صبر کو پرکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ’’اور جب تم پر کوئی تکلیف پہنچے، تو اللہ کی مدد سے ہی تمہیں نجات ملے گی۔‘‘ (سورہ آل عمران 3:173)۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب انسان مشکلات کا سامنا کرتا ہے تو اُسے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ کی مدد کے بغیر، انسان کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ انسان کو مشکلات کا سامنا تب ہی ہوتا ہے جب اللہ کی مشیت میں ہو، اور اللہ کی مشیت میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔پھر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں دیتا۔‘‘ (سورہ البقرہ 2:286)۔ اس آیت میں ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جو مشکلات ہمیں درپیش آتی ہیں، وہ ہماری طاقت سے بڑھ کر نہیں ہوتیں۔ اللہ ہمیں وہی آزمائشیں دیتا ہے جو ہم برداشت کر سکتے ہیںاور ہر آزمائش کے ساتھ اللہ ہماری مدد بھی فراہم کرتا ہے۔
اگر ہم تاریخ میں نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے نیک بندے ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرتے رہے ہیں، مگر ان کی ثابت قدمی اور صبر نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ایک بہترین مثال ہے۔ حضرت یوسف ؑکو بھائیوں نے گڑھے میں پھینک دیا، پھر قید خانہ میں بھیجا گیا، مگر اللہ کی مدد اور صبر کی بدولت وہ مصر کے خزانے کے وزیر بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پھر ہم نے یوسف کو زمین میں اقتدار دیا۔‘‘ (سورہ یوسف 12:56)۔ حضرت یوسفؑ کی زندگی کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر انسان مشکلات کے باوجود صبر و استقامت سے کام لے تو اللہ کی مدد سے اس کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
اسی طرح حضرت ایوبؑ کی زندگی بھی ہمارے لیے ایک عظیم سبق ہے۔ حضرت ایوبؑ کو اللہ نے بے شمار بیماریوں اور مشکلات میں مبتلا کیا، مگر ان کا صبر اور اللہ پر ایمان کبھی متزلزل نہ ہوا۔ نتیجتاً اللہ نے ان کی دعاؤں کو قبول کیا اور انہیں صحت اور خوشحال زندگی عطا کی۔ اللہ کا فرمان ہے: ’’ہم نے ایوب کی دُعا سنی اور ان کی تکلیف دور کی۔‘‘ (سورہ ص 38:43)۔اس کے علاوہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مشکلات کے وقت حوصلہ دینے کے لیے فرمایا: ’’تم ہی غالب آؤ گے، اگر تم سچے مومن ہو۔‘‘(سورہ محمد 47:7)۔ اس آیت میں مومنوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب وہ اللہ کے راستے پر چلتے ہیں اور اپنی مشکلات کا سامنا اللہ کے حکم کے مطابق کرتے ہیں، تو انہیں کامیابی اور فتح ملے گی۔
قرآن کی یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ مشکلات اور آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں اور انہیں صبر، استقامت اور اللہ کی مدد سے عبور کیا جا سکتا ہے۔ ان مشکلات کا سامنا کرنا انسان کی روحانی اور اخلاقی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے، بشرطیکہ وہ ان آزمائشوں کو اللہ کی رضا کی خاطر سچے دل سے برداشت کرے اور اللہ پر مکمل بھروسہ رکھے۔
زندگی کی مشکلات کو بہادری کے ساتھ جھیلنا انسان کی ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ان مشکلات کا سامنا صرف انسانی قوت کا امتحان نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی طاقت کو بھی نکھارتا ہے۔ اگر انسان ان مشکلات کا سامنا اپنے اندر موجود لچک، مثبت سوچ، استقامت اور مدد کے نظام کے ساتھ کرے تو وہ نہ صرف ان پر قابو پا لیتا ہے بلکہ ان سے سیکھ کر اپنی زندگی میں ایک نیا نقطہ نظر اختیار کرتا ہے جو اسے کامیابی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔بالآخر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ مشکلات کا سامنا صرف ایک عارضی حالت نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کو اللہ کی رضا کے لیے اپنے آپ کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ قرآن میں اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے راستے پر چلنے والوں کی مدد کرتا ہے اور ان کی مشکلات کو آسان بنا دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر مشکل کے وقت اللہ کی ہدایت اور مدد کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ان چیلنجز کو اپنی ترقی اور کامیابی کے مواقع کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
(مضمون نگار ایم ایس سی طالب علم ہیں)
[email protected]