ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
خیال احمد اپنے دوبھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔وہ تنہائی پسند اور خاموش طبعیت کا آدمی تھا۔خوابوں اور خیالوں کی باتیں اُسے ناپسند تھیں۔اُس نے سائنس پڑھی تھی ۔مغربی فکر وفلسفے سے وہ بخوبی واقف تھا۔اس لئے وہ ہر بات اور نظریے کو ٹھوس صورت میں دیکھنے ،پر کھنے پر زور دیتا تھا۔وہ اپنے آپ کو خوش رکھنے کے لیے اچھے بُرے کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔اُس کا والد ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھا اور اُس کی ماں بھی ایک اچھی پوسٹ پہ تعینات تھی۔خوشحال احمد کے دو بڑے بھائی بھی سرکاری ملازم تھے ۔وہ خود ایک کمپنی میں منیجر تھا۔دھن دولت کی اُن کے پاس کوئی کمی نہیں تھی۔خوشحال احمد شادی شدہ تھا۔اُس کا ایک بیٹا اور بیٹی تھی ۔اُس کی بیوی نہایت حسین اور سلیقہ شعار تھی ۔وہ اپنے والدین ،بھائیوں اور بیوی ،بچّوں کے ساتھ خوشحال اور بے فکری کی زندگی جی رہا تھا کہ ایک روز اپنے آفس کی موؤنگ چیئر پر بیٹھے بیٹھے اُس کے دماغ میں حیات وکائنات سے متعلق سوچ کے دائرے پھیلنے شروع ہوئے۔وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ یہ نظام عالم کیا معنی رکھتا ہے؟ہر چیز کی پیدائش وموت کی اس قدیم اور نہ ختم ہونے والی روایت میں ہم سب کیوں اپنی اپنی ذمہّ داریوں کا بوجھ ڈھو رہے ہیں؟ ۔زر،زن اور زمین کی خاطر کیوں اس دُنیا میں قتل ہوتے ہیں ؟۔ ہم کیوںحرص وہوس،حسد،بغض وعنادکی آگ میں جلتے جلتے سکونِ قلب کھودیتے ہیں ؟۔کیا کمانا،کھانااور مرجاناہی زندگی اور مقصد زندگی ہے؟ہم نہ اپنی مرضی سے اس دُنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے مرنا چاہتے ہیں ۔ہماری مثال ایک خود رَو پھل دار پودے کی سی ہے جو پلتے بڑھتے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر لیتا ہے پھروہ سایہ بھی دیتا ہے اور پھل بھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ پھل دینا چھوڑ دیتا ہے ۔اُس کی شاخیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور آخر کار وہ ایک ٹھونٹھ کی طرح رہ جاتا ہے۔ہمارا وجود بچپن سے بڑھاپے تک مختلف رُوپ بدلتا ہے ،مگر ہائے افسوس !بالآخر بے بسی،لاچاری،مجبوری اور ذہنی وجسمانی کمزوری ہمیں کسی کا ہاتھ پکڑکر چلنے پر مجبور کرتی ہے !جوان رہنے کی چاہت میں ہم اپنے جسم کو کتنا سنوارتے نکھارتے ہیںلیکن سب بیکار۔وقت کے دریا میں بہتے بہتے ہم آخرکار ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں ۔کیا دُنیا میدان ِ عمل ہے؟ یا امتحان گاہ؟نیک،بد،اچھا بُرا،سچ،جھوٹ ،حرام ،حلال،جائز ،ناجائز، مقدّراور رُوح کیاان تمام باتوں کی کوئی حقیقت ہے؟یا یہ تمام باتیں ہماری سوشیالوجی کا حصّہ ہیں ؟
خوشحال احمد کے دماغ میں ایک کے بعد دوسرا سوال پیدا ہورہا تھا ۔سوچ کے اتھاہ سمندر میں وہ ڈوب ہی رہا تھا کہ اچانک اُس کے دماغ میں تمام سوالوں پہ بھاری ایک اور دھماکہ خیز سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ کیسے معلوم ہوسکے کہ اس دُنیا میں کون جنّتی ہے اور کون جہنّمی؟یا یہ کہ مرنے کے فوراً بعد کس کے لئے قبر میں جنت کی کھڑکی کھلی اور کس پر عذاب قبر مسلّط ہوا؟اس سوال نے اُسے کسی حد تک تشویش میں ڈال دیا۔وہ اس سوال پر غور وفکر کرہی رہا تھا کہ اسی دوران چپراسی لپٹن چائے کا کپ اور کچھ بسکٹ لے کر اُس کے کمرے میں داخل ہوا ۔اُس نے چائے اور بسکٹ کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا ۔کچھ وقت سوچتے
رہنے کے بعد جب اُس نے چائے کے کپ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی ۔اُس نے چائے کا ایک گھونٹ پیا اور فوراً بدمزگی کے احساس سے چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھ دیا۔دن کے چار بج چکے تھے ۔وہ اُٹھااور گھر چلا آیا۔گھر پہنچ کر رات کو اُسے نیند نہیں آئی ۔اس دُنیا میں کون جنتی ہے اور کون جہنمی؟اس مشکل سوال نے اُسے حیران وپریشان کر کے رکھ دیا تھا۔دوسرے دن خوشحال احمد ایک ارب پتی آدمی کے پاس چلا گیا۔وہ اُس کے شیش محل نما مکان پر پہنچاتو سیکورٹی گارڈ نے اُس کا نام وپتہ ایک رجسٹر پہ درج کیا،پھر اُس کی تلاشی لینے کے بعد ارب پتی کے پاس اندر بھیج دیا۔ارب پتی آدمی اونچی شاندار نرم کرسی پہ بیٹھا اپنی توند پہ ہاتھ پھیر رہا تھا۔خوشحال احمد نے اُسے دیکھتے ہی کہا
’’السّلام علیکم ‘‘
’’وعلیکم السّلام ،جی آپ کون ؟‘‘
’’جناب مجھے خوشحال احمد کہتے ہیں ۔میں ایک کمپنی میںمنیجر ہوں ۔آپ سے ملنے آیا ہوں‘‘
ارب پتی آدمی نے فوراً ٹیبل بیل بجائی ۔خادم اُس کے سامنے حاضر ہوا ،اُس نے اُسے چائے پانی پلانے کو کہا۔کچھ ہی وقت کے بعد خادم چائے پانی لے کر آگیا۔چائے پینے کے بعد خوشحال احمد نے ارب پتی آدمی سے کہا
’’حضور! مجھے پچھلے کل سے ایک مشکل سوال نے پریشان کررکھا ہے ۔اس سوال کا آپ سے جواب چاہتا ہوں ۔اسی لئے آپ کے پاس آنا نصیب ہوا‘‘
ارب پتی آدمی اپنی اونچی شاندار نرم کرسی پہ ذرا سنبھل کے بیٹھ گیا۔تب اُس نے خوشحال احمد سے پوچھا
’’کہیے، کیا سوال ہے؟‘‘
خوشحال احمد نے کہا
’’جناب میراسوال یہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوسکے کہ اس دُنیا میں کون جنتی ہے اور کون جہنمی؟یامرنے والے کے بارے میں یہ کیسے معلوم ہوسکے کہ وہ جنت کا مستحق قرارپایا یا جہنم کا؟‘‘
ارب پتی آدمی کے ہونٹوں پہ خوشحال احمد کا سوال سُن کر ہلکی سی مسکان پھیل گئی ،پھر اُس نے کہا
’’سُنیے یہ جنت اور جہنم کی باتیں اپنے دماغ سے نکال دیجیے ۔سب سے بڑی چیز دُنیا میں پیسہ ہے ۔آپ کے پاس پیسہ ہوگا تو دُنیا کی ہر چیز آپ اُس سے خرید سکتے ہیں بلکہ آپ اپنی زندگی کو جنت بناسکتے ہیں اور اگر پیسہ آپ کے پاس نہیں ہے تو زندگی جہنم بن جائے گی‘‘
خوشحال احمد خاموش ارب پتی آدمی کی باتیں سُنتا رہا ۔اُسے ارب پتی سے اپنے سوال کا تسلّی بخش جواب نہ ملنے کی وجہ سے ایک طرح کی گھٹن سی ہورہی تھی ۔وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور ارب پتی آدمی سے رُخصت لے کر اپنے گھر چلا آیا۔دوسرے دن وہ اپنے دفتر چلا گیا۔دفتر میں کوئی بھی کام کرنے کو اُس کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔تیسرے دن وہ ایک سیاسی رہنما کے پاس اُس کے گھر چلا گیا۔وہ سیاسی رہنما حالیہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا تھا۔خوشحال احمد جب اُس کے گھر پہنچا تو وہاں کافی لوگ اپنے اپنے مطالبات کے لئے ایک طرف کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔کچھ ہی وقت کے بعد جب وہ سیاسی رہنما کے پاس پہنچاتو اُس نے خوشحال احمد سے پوچھا
’’کہیے، کیسے آنا ہوا؟میرے لائق کیا خدمت ہے ؟‘‘
خوشحال احمد نے کہا
’’جناب میں ایک سوال لے کر آپ کے دربار میں آیا ہوں۔وہ یہ کہ یہ کیسے معلوم ہوسکے کہ اس دُنیا میں اور مرنے کے بعد کون جنتی ہے اور کون جہنمی ہے؟میں آپ سے اس سوال کاجواب چاہتا ہوں‘‘
سیاسی رہنما کی پیشانی پہ خوشحال احمد کا سوال سُن کر حیرت سے ہلکی سی شکنیں اُبھر آئیں ۔اُس نے کہا
’’دیکھئے اصل زندگی تو دُنیا کی زندگی ہے ۔مرنے کے بعد وہاں آخرت میں کون دیکھ آیا کہ وہاں کیا کچھ ہوتا ہے ۔ہم تو لوگوں کی خدمت کے لئے بیٹھے ہیں۔میراآپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ ہماری پارٹی کے ایجنٹ بن جائیں ۔کون جنتی ہے اور کون جہنمی اس چکّر میں نہ پڑیں تو بہتر ہے‘‘
خوشحال احمد کو اپنے سوال کاجواب سیاسی رہنما سے بھی نہیں مل پایا بلکہ اُس کی باتیں سُن کر مایوس ہوا۔وہ واپس اپنے گھر پر آگیا۔دودن وہ اپنے دفتری کاموں میں مصروف رہا لیکن اُس کے دماغ میں پیدا ہوا مشکل سوال اُسے بار بار اضطرابی کیفیت میں مبتلا کردیتا۔دودن کے بعد وہ ایک مولوی صاحب کے پاس چلا گیا۔مولوی صاحب کے گھر پر روحانی امراض میں مبتلا مردوعورتوں کی لائن لگی ہوئی تھی ۔وہ گنڈے ،تعوذ لکھ کے اور جھاڑ پھونک کرکے اپنا پیٹ پال لیتے تھے ۔خوشحال احمد بھی لائن میں کھڑا رہا ۔کوئی ایک گھنٹے کے بعد جب وہ مولوی صاحب کے حجرے میں پہنچا تو اُنھوں نے اُسے پوچھا
’’کہیے کیا محسوس کرتے ہیں؟‘‘
خوشحال احمد نے کہا
’’مولوی صاحب !میں روحانی وجسمانی طور پر بالکل تندرست وتوانا ہوںلیکن چند دنوں سے میرے دماغ میں ایک سوال پیدا ہوا ہے جس نے مجھے پریشان کررکھا ہے ‘‘
مولوی صاحب نے خوشحال احمد کے چہرے پر لمحہ بھر تک دیکھا پھر پوچھنے لگے
’’کس سوال نے آپ کو پریشان کررکھا ہے ؟سوال کیا ہے؟‘‘
’’مولوی صاحب! میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ اس دُنیا میں اور مرنے کے بعد یہ کیسے معلوم ہوسکے کہ کون جنتی ہے اورکون جہنمی ؟‘‘
مولوی صاحب نے اپنی سفید چھدری داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
’’بس یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی ۔کوئی بھی آدمی اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ہے ۔مجھے لگتا ہے آپ بھی سحر زدہ ہیں۔ضرور کسی نے آپ کو کچھ کردیا ہے،تبھی آپ کے دماغ میں اس طرح کاسوال پیدا ہوا ہے‘‘
خوشحال احمد کو مولوی صاحب سے پوری اُمید تھی کہ وہ اُس کے مشکل سوال کا تسلّی بخش جواب دیں گے لیکن مولوی صاحب کی باتوں نے بھی اُسے مایوس کردیا ۔وہ مولوی صاحب سے رُخصت لے کر اُن کے حجرے سے باہر آیا۔بازار میں اُس نے ایک اخبار خریدا ۔اُس کے اندرونی صفحات پر اُس کی نظر ایک اشتہارپر پڑی ،اُس میں لکھا تھا:
’’ہر خاص وعام کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ مظفر احمد کمہار کا اکلوتا بیٹاعلیم اللہ ساکنہ چھتر پور سولہ سال کی عمر میں عا لمیت وفضیلت کا کورس مکمل کرکے اپنے وطن میں واپس آگیا ہے۔قرآن پاک اُس نے پہلے ہی حفظ کر لیا تھا۔اب عا لمیت وفضیلت کا کورس بھی مکمل کرلیا۔اس سلسلے میں اوقاف اسلامیہ چھتر پور کے ممبران نے عزیزم حافظ علیم اللہ کی شان میں ایک اعزازی تقریب کا اہتمام کیا ہے ۔جو کل بروز اتوار صبح دس بجے ہریالی میدان چھتر پور میں منعقد ہونے جارہی ہے ۔لہٰذا آپ کی شرکت ہمارے لیے باعث ِ مسرت ہوگی‘‘
خوشحال احمد نے اشتہار پڑھاتو خوشی کی اک لہرسی اُس کے دل ودماغ میں رقص کرگئی ۔اُس نے حافظ علیم اللہ کی اُس اعزازی تقریب میں جانے کا پروگرام بنایا۔وہ دوسرے دن اپنی گاڑی ڈرائیو کرتا ہواتقریباً پچاس کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد پورے دس بجے چھتر پور کے ہریالی میدان میں پہنچ گیا۔سامنے اسٹیج پر چند اہم شخصیات کے وسط میں حافظ علیم اللہ بیٹھے ہوئے تھے ۔اُن کے نُورانی چہرے پر نظر نہیں ٹِک رہی تھی ۔تلاوت ِ کلام پاک سے اس تقریب کاآغاز کیا گیا۔اُس کے بعد نعت خوانی کے لئے ایک نوجوان سامنے آیا ،اُس نے بڑی سُریلی اور پُرسوز آواز میں نعت سُنائی ۔اوقاف اسلامیہ چھترپور کے ایک ممبر نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔دُور تک ہریالی میدا ن میں کرسیوں پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔پورے نظم وضبط کے ساتھ ہر چیز اپنی جگہ پہ موجود تھی۔ناظم نے سب سے پہلے آج کی تقریب کی غرض وغایت بیان کرنے کے بعد حافظ علیم اللہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا
’’معزز سامعین وناظرین ! ہم سب کے لئے یہ خوشی وفخر کی بات ہے کہ ہمارے قصبے کا ایک ہونہار اور ذہین اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا حافظ علیم اللہ نے سولہ سال کی عمر میں عا لمیت وفضیلت کا کورس مکمل کیا ہے اور آج کی یہ تقریب ہم نے حافظ علیم اللہ کی شان میں منعقد کی ہے ۔میں یہ چاہتا ہوں کہ سب سے پہلے ہمارے اوقاف اسلامیہ چھتر پور کے صدر اور اُن کے ساتھ تمام ممبران حافظ علیم اللہ کو سند توصیف،طلائی تمغہ اور ایک شال پیش کریں‘‘
دیکھتے دیکھتے حافظ علیم اللہ کو توصیفی واعزازی چیزیں پیش کی گئیں ۔ کچھ لوگوں نے اُن کے گلے میں پھولوں کے ہارڈال دیئے۔اُس کے بعد صاحب صدر نے اپنے صدارتی کلمات کہے۔اُن کے بعد حافظ علیم اللہ نے اوقاف اسلامیہ چھتر پور کے تمام ممبران کا شکریہ ادا کیا۔اُن کی آنکھوں میں یہ بات کہتے ہوئے آنسو اُمنڈ آئے کہ میں ایک غریب باپ کا بیٹاہوں ۔میری پانچ بہنیں ہیں جو مجھ سے چھوٹی ہیں ۔میرے باپ نے مٹّی کے برتن بیچ کر مجھے عالمِ دین بنایا۔علیم اللہ نے جونہی اظہار تشکّر ختم کیا تو سامنے کرسی پہ بیٹھا خوشحال احمد اُٹھ کھڑا ہوا ،اُس نے دایاں ہاتھ کھڑا کیا اور کہنے لگا
’’حافظ علیم اللہ صاحب ! میں اپنے ایک مشکل سوال کا آپ سے تسلّی بخش جواب چاہتا ہوں ۔اگر اجازت تو سوال عرض کردوں؟‘‘
تمام حاضرین ِ مجلس خوشحال احمد کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔حافظ علیم اللہ نے کہا
’’جی ،کہیے آپ کا کیا سوال ہے؟‘‘
خوشحال احمد نے کہا
’’حافظ علیم اللہ صاحب !میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوسکے کہ اس دُنیا میں اور مرنے کے بعد کون جنتی ہے اور کون جہنمی ہے؟‘‘
حافظ علیم اللہ نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
’’معزز سامعین وناظرین!جناب خوشحال احمد کا سوال بڑا معقول ہے ۔آپ سب اس سوال کا جواب سُن لیجیے۔یہ کائنات خود بخود وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ اسے وجود میں لانے والا بڑا علیم وحکیم اور کارسازِ دوجہاں ہے ۔زندگی اور موت اُسی کے ہاتھ میں ہے ۔یہ دُنیا میدان عمل ہے یا اسے امتحان گاہ کہیے ایک ہی بات ہے ۔بات کو زیادہ طُول نہ دیتے ہوئے مختصر طور پر یہ کہنا ہے کہ جو لوگ اس دُنیا میں قرآن وحدیث کے عین مطابق عمل کرتے ہیں وہی جنتی ہیں ۔اُن کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ،اُس کے ذکر وفکر اور محمدؐ کے پاکیزہ اور نُورانی طریقوں کے مطابق گزرتا ہے اور جو لوگ گمراہ ہیں یا اللہ کے باغی ہیں،اُنھیں اگر آپ پورا قرآن پاک بھی سُنائیں اُن کے کان پر جُوں تک نہیں رینگے گی ۔اُنھیں لاکھ بارنیکی کے کام سمجھائیں وہ ماننے کے بجائے آپ کی مخالفت پر اُتر آئیں گے ۔اُنھیں گناہ کے کام کرنے میں مزہ آتا ہے ۔یہی لوگ جہنمی ہیں ۔ایک آدمی اس دُنیا میں بغیر گناہ کے سانس نہ لیتا ہو،اُس کے مرجانے کے بعد یہ توقع رکھنا کہ وہ جنتی ہوگا،یہ احمقانہ خیال ہے ۔ہم سب کو باری باری اس زمین وآسمان کے صندوق سے نکال کر قبر کے صندوق میں رکھا جائے گا۔۔اس لئے یہ بات یاد رکھئے کہ ہمارا ہر لمحہ ،ہر سانس اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری اور محمدؐ کے پاکیزہ اور نُورانی طریقوں کے مطابق گزرے تاکہ ہم جنت کے مستحق قرار پائیں ۔ورنہ پھر ٹھکانہ دوسرا ہوگا۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ دُنیا میں بسنے والوں کو جنت میں جانے والے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘
خوشحال احمد کو جب حافظ علیم اللہ کی جانب سے اُس کے سوال کا تسلّی بخش جواب مل گیا تو وہ بہت خوش ہوا۔اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔وہ اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور آگے اسٹیج پہ جاکے حافظ علیم اللہ کا ماتھا چوم لیا ۔اُن کو گلے لگایا ۔پانچ ہزار روپے اُن کے ہاتھ پہ رکھے اور واپس اپنی کرسی پہ آکے بیٹھ گیا۔کچھ ہی وقت کے بعد یہ نُورانی مجلس اختتام پذیر ہوئی ۔خوشحال احمد اپنی گاڑی میں بیٹھا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا ۔راستے میں وہ اپنی گذشتہ پچاس سالہ زندگی کے بارے میں یہ سوچ رہا تھاکہ میں نے اس زندگی میں کتنے گناہ وثواب والے کام کیے ہیں۔
���
سابق صدر شعبۂ اردو باباغلام شاہ بادشایونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532