یو این آئی
سرینگر//وادی کشمیر کی پیپر ماشی صنعت شدید چیلنجوں سے دوچار ہونے کے باوجودنہ صرف اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ سینکڑوں لوگوں کی روزی روٹی کا ایک وسیلہ بھی ہے۔حالیہ برسوں میں اس قدیم فن کو ایک نئی زندگی اس وقت ملی جب شادی بیاہ کی تقریبات میں پیپر ماشی سے بنے خوبصورت ڈبوں، مومنٹو اور تزئینی اشیا کا استعمال رواج پا گیا ۔ شہر خاص کے جڈی بل علاقے سے تعلق رکھنے والے ماہر کاریگر محمد اختر میر نے بتایا کہ اب کشمیر میں شادیوں کا موسم جوبن پر ہے اور لوگ دولہے اور باراتیوں کو تحفے کے طور پر پیپر ماشی کے خصوصی ڈبے دینے لگے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس فن کو نئی جہت مل رہی ہے مگر موجودہ حالات کاریگروں کیلئے بے حد مشکل بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پہلگام حملے کے بعد وادی کے ہینڈی کرافٹ سیکٹر سے جڑے ہزاروں لوگوں کی روزی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاح ہی پیپر ماشی کی اشیا کے اصل خریدار ہیں۔ جب سیاح آنا بند ہو گئے تو ہمارا کام بھی ٹھپ پڑ گیا۔ان کا کہنا ہے’’سرینگر شہر میں تقریباً دس ہزار افراد براہ راست پیپر ماشی کے پیشے سے وابستہ ہیں، مگر بدقسمتی سے آج ان میں سے بیشتر گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں‘‘۔سرکاری تعاون کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پرمیر نے مایوس لہجے میں کہا’’ حکومت صرف نمائشوں اور میلوں میں انہی کو بلاتی ہے جن کا سیاسی یا مالی اثر و رسوخ ہو۔ ہم جیسے غریب کاریگر جنہوں نے عمر بھر یہ فن سیکھا اور سنوارا، انہیں کبھی کوئی نہیں پوچھتا‘‘۔اس پیشے میں نئی روح اس وقت پیدا ہوئی جب محکمہ ہینڈی کرافٹس میں تعینات کچھ نوجوان افسروں نے اپنے ماتحت عملے کو تلقین کی کہ وہ سرکاری تقریبات میں پیپر ماشی سے بنی اشیا کو ترجیح دیں۔انہوں نے کہا’’ اس طرز عمل سے سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے اور روزگار کا بھی کچھ ذریعہ بنتا ہے‘‘۔ ماہرین کے مطابق، پیپر ماشی صرف ایک دستکاری نہیں بلکہ کشمیر ی تہذیب کا جزوِ لازم ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو چاہیے کہ اسکول اور کالج سطح پر پیپر ماشی کی تربیت دی جائے تاکہ نئی نسل اس فن کو سیکھ کر جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال سکے۔