ریاض مسرور
کشمیری زبان میں اگرچہ داستان گوئی کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن نثری ادب کی روایت بیسویں صدی کے وسط سے ہی شروع ہوتی ہے۔ کشمیر میں سوم ناتھ زْتشی، دیناناتھ نادم، اختر محی الدین، ہری کرشن کول، امین کامل، ہردے کول بھارتی اور علی محمد لون جیسے افسانہ نگاروں نے اپنا ادبی سفر ترقی پسند روایت کی تقلید سے ہی شروع کیا، لیکن بہت جلد انہوں نے نئے تجربات کرکے ایک نئی روایت کو جنم دیا۔
حالانکہ ایک حساس قاری جب اختر کے ’’ژیِ چھْکھ ژِے چْھکھ‘‘، ’’ژس‘‘، علی محمد لون کے ’’شْنی‘‘،اور کول کے ’’پھَرِ‘‘ اور ’’تاپھ‘‘ افسانوں کا مطالعہ کرتا ہے تو ان میں علامتی غلبے کی وجہ سے Kafka کی اسلوبیاتی تقلید بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ گزشتہ صدی کے نصف آخر اور رواں صدی کے اوائل میں ان افسانہ نگاروں نے کشمیری افسانے کو جس نہج پر ڈالا تھا ابھی وہ وہیں پر ہے۔
فاروق مسعودی روایت سے باغی ہوکر بعض بولڈ تجربات تو کرچکے ہیں، لیکن کشمیری زبان میں لکھنے والے اکثر افسانہ نگار ابھی تک جدید دور کے قاری کو متاثر نہیں کرسکے ہیں۔ مشتاق احمد مشتاقؔ کا ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ کشمیری افسانوی مجموعہ’’آکھ‘‘رجعت پسندی کی اس روِش سے کافی حد تک پاک ہی معلوم ہوتا ہے۔
یہ کتاب سماجی وطیروں، انسانی المیوں، وجودیت کے بحران اور تیزرفتار شہرکاری سے ماحولیات پر پڑنے والے بھیانک اثرات جیسے تازہ اور حساس موضوعات کا مْرقع ہے۔ مجموعے میں شامل افسانوں کا موضوعاتی پھیلائو، سادہ اسلوب اور غیرضروری تجربات سے پرہیز مشتاق کو ایک منفرد افسانہ نگار کے طور متعارف کرتے ہیں۔
ٹائٹل سٹوری ’’آکھ‘‘ میں خود کلامیSoliloquy اورFlashback تکنیک اپناتے ہوئے گھروں کے اندر بزرگوں کی تنہائی اور جواں سال افرادخانہ کی بے چہرگی کو خوبصورت انداز میں درشایا گیا ہے۔ افسانے میں انار کے سْوکھے درخت کو علامت کے طور استعمال کرتے ہوئے لالہ صاحب کے نفسیاتی کرب اور ان کی بہو کی افادیت پسند طبعیت پورے معاشرے کے لئے آئینہ کی طرح سامنے آتے ہیں۔
’’آلی ناش‘‘، ’’بطچِ بونی‘‘ اور ’’چھوچھہِ کتری‘‘ جیسے افسانوں میں اندھی شہرکاری سے بگڑ رہے ماحولیاتی توازن اور انسان کے باطنی کرب کو فنی نذاکتوں سے مزئین کرکے سامنے لایا گیا ہے۔
’’ رحمہِ ووت آلِس نکھِ تہِ کوڈْن اتھ اکھ ٹاس۔۔۔ڈاکٹر ووتھ تھود تہِ ترآون رحمس جیپھ۔۔۔از دمیدددد نہ بہِ بییہِ اتھ آلِس ناش کرنہِ‘‘ (آلی ناش)
’’لل ونی دگ‘‘ اور ’’وہرِ وآر‘‘ افسانے معیار، اسلوب، فنی نذاکت اور ڈرامائیت کے اعتبار سے خوبصورت عصری افسانے ہیں۔ ’’لل ونی دگ‘‘ میں سلیم کسی زمانے میں اپنی اوسط درجے کی شکل و صورت والی بیوی رخسانہ کو طلاق دے کر ایک انٹیریئر ڈیزانر نفیسہ سے شادی کرتا ہے۔ رخسانہ کی معصوم بچی بالاخر ڈاکٹر بن جاتی ہے، اور ریٹائرمنٹ کے بعد تنہائی کے کرب سے جوجھتے ہوئے جب سلیم ڈاکٹر صاحبہ کے پاس پہنچتا ہے تو کمرے میں اپنی اور رخسانہ کی تصویر اور اس پر لکھے کیپشن کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔
’’یم چھِ لولِکی تہِ اعتبارِکی قاتلِ، میانی بب موج‘‘
(یہ محبت اور اعتبار کے قاتلِ ہیں، میرے ماں باپ)
’’وہروآر‘‘ افسانے میں اکیلے رہنے والے ایک ادھیڑ عمر کے تنہا شخص کے اپنی نوکرانی کی طرف جنسی میلان کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ قاری حیرت زدہ نہیں ہوتا بلکہ کردار کے تئیں ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ یہ سبھی افسانے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے گھروں، دفتروں، کارخانوں، مرغزاروں، آبشاروں اور آب گاہوں میں جھانک جھانک کر کہانیوں اور کرداروں کو تراشا ہے۔ عصری کشمیری ادب کے دو بڑے مناروں پروفیسر شفیع شوق اور رتن لال شانت نیبجا طور پر دانش مند اور ضبط کا قائل افسانہ نگار قرار دیا ہے۔
پیش لفظ میں پروفیسر شوق لکھتے ہیں: ’’مشتاق کے افسانے اْن بے شمار کشمیریوں کے پوشیدہ زخموں کو بھی منکشف کرتے ہیں جو جدید معاشرے کے بے قابو سیلاب میں بہہ گئے اور اپنے آبائی گھربار چھوڑ کر خوش حالی کے خواب لے کر دوسرے شہروں میں آباد ہوگئے‘‘۔
افسانہ نگار نے شعوری رَوstream of Consciousnessاوراور تلامذۂ خیالات Association of ideasکا استعمال ایک مْصور کی طرح کرکے باطنی کرب اور ظاہری رکھ رکھائوکے بیچ تضاد کی فنی منظرکشی کی ہے۔
’’انہِ گوٹ‘‘ افسانے کا عنوان اخترمحی الدین کے اسی عنوان کے افسانے سے مستعار لیا گیا ہے، اور پلاٹ میں بھی ہلکی سی مماثلت ہے۔ افسانے میں افسانویت کم اور آئیڈیالوجی زیادہ ہوجائے تو اسے ادبی عیب تصور کیا جاتا ہے۔ مشتاق کے بیشتر افسانے اس عیب سے پاک ہی ہیں۔
لیکن مجموعے میں بعض افسانے ایسے بھی ہیں کہ گمان ہوتا ہے شائد انہیں محض کتاب میں خانہ پْری کے لئے شامل کیا گیا ہو۔ ’’ہیرو‘‘، ’’بلڈ باتھ‘‘ اور ’’نیوز سٹوری‘‘ افسانے Narrative Flat لگتے ہیں جن میں نہ واقعات ہی پوری طرح اْبھر پائے ہیں نہ کردار۔
’’نیوز سٹوری‘‘ میں واحد متکلم راوی ایک صحافی ہے، جو احتجاجی جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے مارے گئے ایک نوجوان کے گھر واقعہ کی تحقیق کے لئے جاتا ہے۔ ایڈیٹر اسے خط کے ذریعہ اس واقعہ سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ موضوع بالکل عصری حالات میں پیوستہ ہے، لیکن مہلوک کے والد کا صرف بین کرنا کافی نہیں ہے۔ اس کہانی میں افسانویت اْبھر نہیں پائی ہے۔
اسی طرح ’’بلڈ باتھ‘‘ مادہ پرستی کی تردید میں لکھا گیا ہے اور اس میں ایک راشی افسر اور دولت کمانے کے جنون میں مبتلا اس کے بیٹے کی باطنی کیفیات کا تقابل ہے۔ لیکن موضوعاتی کینواس جتنا بڑا ہے اْتنے ہی کردار کمزور نظر آتے ہیں۔
’’ہیرو‘‘ افسانے میں جل بو دیو کے داستانی اسطور کو علامت بنایا گیا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ہر واقعہ میں ہیرو کو تلاش کرنے کا عادی ہوتا ہے، اور اختتام پر وہ نیم خوابی میں کوئی آواز سنتا ہے جس میں کشپ ریشی کا نام لئے بغیر اسے کہا جاتا ہے کہ بہت پہلے وادی پانی ہی پانی تھی اور یہاں ایک راکھشش جل بو دیو تھا جسے مار کر کشپ ریشی نے پانی نکالا تھا اور اب ایک اور جل بو دیو پیدا ہوا ہے ، اسی لئے کوئی ہیرو پیدا نہیں ہوتا۔
افسانے کے عناصر ترکیبی اور اسطور بھی بہتر طریقے سے سوچے گئے ہیں، لیکن اس میں ڈرامئیت اور افسانویت کی کمی رہی ہے۔ یہ ذکر بھی مناسب ہوگا کہ کشمیری زبان کے ہیوی ویٹ افسانہ نگاروں کے سبھی افسانے شاہکار نہیں تھے۔ پانچ دہائیوں کے دوران اخترمحی الدین نے پچاس ہی افسانے لکھے، لیکن تنقیدی اْفق پر صرف دس ہی افسانوں نے دھوم مچائی۔
مجموعی طور پر مشتاق احمد مشتاقؔ کا افسانوی سفر ایک منفرد اسلوب کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ جدید دور کی چکا چوندکو ایک ’’ویلن‘‘ اور ماضی کی سہانی دنیا کو ’’ہیرو‘‘ کے طور پروجیکٹ کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں اور اپنے محسوسات کو جس فنی درک کے ساتھ پیش کرتے ہیں وہ واقعی قابل ستائش ہے۔