قرآن مجید کا جو پہلا حکم نازل ہوا وہ پڑھنے لکھنے سے متعلق ہے۔ قرآن مجید کے اس اولین پیغامِ اقراء سے پتہ چلتا ہے کہ خالق کائنات تعلیم و تعلم کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ چونکہ ہر انقلاب یا اصلاح کا پہلا پیغام کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ا س لئے یہ پیغام تہذیب وسیاست کے متعلق بھی ہوسکتا تھا اور اقتصادی ومعاشرتی زندگی کے بارے میں بھی لیکن ان سب کو ایک جانب رکھ کر اللہ نے تعلیم وتعلم اور کتاب و قرأت کو فوقیت اور اولیت دی ۔ علم وحکمت کو یہ پہلی ترجیح اس لیے دی گئی کیونکہ یہ نہ صرف ہر چیز کی بنیاد بلکہ جزء لاینفک بھی ہے ۔اس کی مذید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن مجید کے ابتدائی دور میں وہ آیت بھی نازل ہوئی جس میں قلم کا تزکرہ ہے اور جس سورۃ میں یہ آیت مبارکہ ہے اس کا نام سورۃ القلم رکھا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قلم کی قسم ہے اور اس کی جو ا س سے لکھتے ہیں ۔ (سورۃ القلم ،آیت نمبر 1) ۔قلم کے بارے میں میں امام طَبریؒ کہتے ہیں کہ ’’یہ سب سے پہلی چیز ہے جو اللہ نے پیدا کی ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان آئندہ ظہور میں آنے والے واقعات قلم بند کردے‘‘۔ قلم وتحریر ہی وہ ذریعہ ہے جس نے ہر دور میں اور ہر طبقہ میں نمایاں اثرات مرتب کئے ہیں۔ انسانی ذہنوں کو سنوارنے اور بگاڑنے میں اس کا کوئی ثا نی نہیں ہے۔ قلم وتحریر ہی عوام کو کوئی رائے قائم کرنے میں اور اس کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جن لوگوں نے اظہار خیال اور اپنی فکر کو دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے قلم وتحریر کو ذریعہ بنایا ان کو تاریخ نے ہمیشہ زندہ وجاید رکھا ہے۔ بیسویں صدی میں جن اصحاب علم وفکر نے قلم وتحریر کے ذریعہ لوگوں کی ذہن سازی کی ہے اور ان کے فکر وخیال بدلنے میں اہم رول ادا کیا ہے ان میں سے چند ایک تذکرہ زیر نظر مضمون میں کیا جارہا ہے۔
جمال الدین افغانیؒ: (۱۸۹۷ء۔۱۸۳۹ء)
جمال الدین افغانی کی شخصیت عالمگیر نوعیت کی تھی۔ وہ نومبر ۱۸۳۹ء کو افغانستان کے ایک گائوں میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں فلسفہ ، ریاضی، نجوم، تاریخ، منطق اور ادب میں دست رس حاصل کی۔ انہوں نے اتحاد الاسلامیہ(Pan islamism)کا تصور پیش کر کے امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ انھوں نے اس عالمی اتحادی تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہندوستان، روس، یورپ، برطانیہ، اور عرب دنیا کئی ممالک کا سفر کیا۔ اس تعلق سے انھوں نے ’’الجمیعہ العروۃ الوثقی‘‘ کی بنیاد ڈالی۔اس دینی جماعت کے ترجمان کی حیثیت سے پیرس سے ایک اخبار ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کے نام سے جاری کیا تھا۔ اس ہفتہ وار اخبار نے مشرق ومغرب میں دھوم مچادی اور لندن سے ایک اور اخبار ’’ضیاء الخافقین‘کے نام جاری کیا تھا۔ ان دونوں اخباروں کے ذریعہ سے جمال الدین افغانی نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے اور اپنی تحریروں سے مغرب کی عیارانہ چالوں اور سازشوں کا سخت لہجہ میں تنقید کرتے تھے اس کے علاوہ انھوں نے عربی، فارسی، انگیریز اور فرانسیسی زبانوں میں سینکڑوں مضامین اور نظریہ لکھے۔ اس دوران انھوں نے تصنیفی وتحقیقی کام بھی جاری رکھے اور اپنی ایک کتاب ’’الرد علی الدھیریین‘‘ میں باطل عقائد کی سخت لہجہ میں تردید کی تھی۔ نیز انھوں نے دوسرے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کا قلم شہسوار کی تلوار سے بھی زیادہ تیز رو تھا جس کا انھوں نے اسلام کی دفاع میں استعمال کیا۔
سرسید احمد خانؒ: (۱۸۹۸ء ۔ ۱۸۱۷)
سرسید احمد خان نے ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی کے ایک متوسطہ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انہوں نے عربی کے علاوہ فارسی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سرسید احمد خان اس دور میں نمودار ہوئے جب مسلمانوں کو ۱۸۸۷؍ء کی جنگ آزادی نے بے انتہا مایوس کیا تھا۔ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو اسی مایوسی کی دلدل سے نکلنے کے لیے ایک تعلیمی تحریک کا آغاز کیا جن کے ذریعہ سے انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے۔ سرسید احمد خان مفسر قرآن، حدیث کے ماہر اور جدید علم کلام کے روح رواح تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی اصل حیثیت ایک مصلح کی تھی۔ سرسید احمد خان نے ملت اسلامیہ کو مایوسی اور ذلت سے نجات دلانے کے لئے جدید تعلیم کو نسخہ شفا قرار دیا۔ سرسید احمد خان جامع شخصیت کے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دور اندیش قائد اور مفکر بھی تھے۔ انہوں نے تصنیف وتالیف کی طرف خاص توجہ دی تھی اور آغاز میں چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے۔ انھوں نے ایک رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے جاری کیا جس میں وہ ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لیے زندہ تحریریں لکھتے تھے ۔انھوں نے تفسیر ، سیرت علم کلام اور ادب پر بہت کچھ لکھا ہے ۔انھوں نے مدلل انداز سے ولیم میور کے الزامات اور اعتراضات کا جواب دیا۔ یہ جواب ’خطابات احمدی‘ کی صورت میں ہے۔
شیخ محمد عبدہؒ: (۱۹۰۵ء۔۱۸۴۹ء )
شیخ محمد عبدہ جمال الدین افغانی کے شاگردِرشید تھے۔ آپ ۱۸۴۹؍ء کو مصر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ ازہر سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جمال الدین افغانی کے ساتھ کچھ عرصہ پیرس میں گزارا اس کے بعد مصر واپس آکر جامعہ ازہر میں استاد مقرر ہوئے۔ شیخ موصوف مصر کے مفتی اعظم کے عہدے پر بھی تعینات رہے۔ شیخ محمد عبدہ فکر اسلامی کو از سر نو تشکیل دینا چاہتے تھے اس سلسلے میں انہوں نے ۵؍اقدامات بھی اٹھائیں۔ آپ جامعہ ازہر کے نصاب تعلیم کو نہ صرف اصلاح کرنا چاہتے بلکہ اس کو بدل کر عصری تقاضوں کے عین مطابق بنانا چاہتے تھے وہ جمود وتعطل اور تقلید کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے تحریروں سے اس جمود گی اور تقلیدی ذہنیت کے خلاف محاذ سنبھالا۔ وہ اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلے ذہن کو تقلیدی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے بھیڑا اُٹھایا اورزیعہ قلم تھا۔
علامہ شبلی نعمانیؒ: (۱۹۱۴ء ۔۱۸۵۷ء)
علم وتحقیق کا بے مثال محقق علامہ شبلی نعمانی ۱۸۵۸؍ء میں پیدا ہوئی۔ آپ بیک وقت جید عالم دین، وسع النظر مورخ، بے مثال ادیب، سیرت نگار اور سب سے بڑھ کر ماہر تعلیم تھے۔ علامہ موصوف نے برصغیر میں اصلاحی ارتقاء میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ آپ تصنیف و تالیف کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ اور اس میدان میں متنوع خدمات انجام دیے۔ علاوہ شبلی نعمانیؒ نے اپنی تحریروں اور تصنیفات سے روایتی سوچ، فکری جمودگی کو توڑنے کی زبردست کوشش کیں۔ وہ بنیادی طور سے رویاتی فکرو سوچ اور نظام میں اصلاح کرنے کے داعی تھے۔ انہوں نے سیرۃ النبیﷺ، المامون، سیر ۃ نعمان، الفاروق، علم الاکلام اور شعر العجم جیسی نادر علمی، فکری کتابیں لکھ کر فکر اسلامی، فلسفہ اور کلام کا احیاء کیا ان کے علاہ انھوں نے سینکڑوں مضامین اور مقامات لکھے۔ جن سے لوگوں نے استفادہ کر کے علم وفکر میں بے حد اضافہ کیا۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ: (۱۹۴۳ء ۔ ۱۸۶۳ء )
مولانا اشرف علی تھانوی کی ولادت ۱۸۶۳؍ء کو تھانہ بھون مظفر آباد یوپی میں ہوئی۔ آپ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دعوت دین کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ مولانا تھانوی نے لوگوں کو غلط عقائد اور شوکیہ اعمال سے نجات دلانے کے لیے زبردست کوششیں کی۔ آپ نے بھی دوسرے اہل علم کی طرح تقریر وتحریر کو ذریعہ مبلغ بنایا۔ آپ کی تحریروں سے لوگوں نے زبردست فیض حاصل کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے آپ کی ایک تصنیف بہشتی زیور آج بھی اکثر گھروں میں پابندی کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ مولانا تھانوی نے تصنیف وتالیف کی طرف خصوصی توجہ دی تھی اور اپنی زندگی اس کے لیے وقف کررکھا تھا جس کی وجہ سے آپ کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد ۸۰۰؍ تک پہنچتی جس میں ۱۲؍کتابیں عربی زبان میں بھی ہیں۔ آپ کی تحریروں اور مجالس وعظ سے ہزاروں لوگوں کی اصلاح ہوئی ۔ تصنیف و تالیف میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا ۔ آج بھی لوگ ان کی تحریری سرمایہ سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ مولانا کی مقبولیت ہر مکتبہ فکر میں مسلم ہے۔
مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ:(۱۹۴۸ء ۔۱۸۶۸)
مولانا ثناء اللہ امرتسری برصغیر کی ایک عظیم علمی شخصیت اور مجاہد تھے ۔وہ جون ۱۹۶۸؍ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے یہ بات واضح رہے کہ آپ کے آباء واجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ مولانا امرتسری نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ اور اس کے بعد متعدد اساتذہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے جس زمانہ میں دعوتی کام کرنا شروع کیا۔ وہ دور مناظروں اور مباحثوں کا دور تھا۔ ہر مذہب کا علمبردار اپنے مذہب کو سچ اور دوسروں کے مذہب اور عقیدے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے مناظروں کا سہارا لیتا تھا۔ مولانا امرتسری نے اس میدان کو اس لیے چن لیا تھا کیونکہ برصغیر میں ہر طرف اہل باطل کی طرف سے اسلام پر شدید حملے ہور ہے تھے اور اس کی جڑوں کوہلایا جاتا تھا ایک طرف عیسائی پادریوں او آریہ سماج کے ٹھیکہ داروں نے اسلام کو زخ پہنچانے اور اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھے دوسری طرف انگریزوں کا غلام مرزا غلام احمد قادیانی کی مرزائیت بھی زوروں پہ تھی ان حالات میں یہ مولانا امرتسری ہی تھے جو خاموش بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھے آپ نے ان کے رد میں تقریر وتحریر دونوں سے کام لیا۔ مناظروں کے وہ مرد قلندر تھے، انہوں نے مناظروں اور مباحثوں کے علاوہ تصنیف وتالیف کی طرف بھی توجہ مرکوز کی تھی اور بہت سی اہم کتابیں لکھیں۔ ان کے قلم سے سینکڑوں مضامین نے بھی جنم لیا۔ جن سے لوگوں نے بھر پور استفادہ کیا۔ آپ نے ایک کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ جو آریہ سماج والوں نے لکھی تھی کے جواب میں ’’مقدس رسول‘‘ لکھی جس میں انہوں نے ان کے اعتراضات او اللہ کے رسول پر لگائے الزامات کا منہ توڑ جواب دیا۔ اس طرح سے آپ نے سوامی دیانند سرسوتی کی کتاب ’’سُتھیارتھ پر کاش‘‘ کے جواب میں ’’حق پرکاش‘‘ لکھی ۔یہ دونوں کتابیں کافی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کی افادیت آج بھی برقرار ہے۔ مولانا امرتسری نے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا جو ۴۴؍سال تک شائع ہوتا رہا،جس میں آپ عقیدہ توحید کی دفاع میں مسلسل اپنے قلم کو ذنبش دیتے رہے۔ آپ کی تصنیفات میں ’’تفسیر ثنائی‘‘ کافی مقبول ہوئی ہے ۔
سید بدیع الزماں نورسیؒ:( ۱۹۶۰ء۔۱۸۷۳)
درویش صفت انسان اور مرد قلندر بدیع الزماں نورسی ترکی کے ایک مشرقی علاقہ میں ۱۸۷۶ء کو پیدا ہوئے۔ وہ کردی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسوں میں حاصل کی۔ صرف ۱۸؍سال کی عمر میں ان کا شمار بڑے علماء میں ہوا۔ وہ سیاسی معاملات میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر دلچسپی لیتے تھے بلکہ عملی طور سے بھی وابستہ تھے۔ لیکن ایک طویل تجربے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ عملی طور سے سیاست میں حصہ لینے سے ایک صحت مند سماج کی تعمیر وتطہیر نہیں کی جاسکتی ہے تو انھوں نے سیاست سے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلی کہ ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن والسیاسۃ‘‘ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد ایک مصلح کے طور ر تبلیغی کام کرنا شروع کیا۔ اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی فکر سے متاثر کیا۔ انہوں نے مغربی فکر، سیکولرازم، جدیدیت کا بھرپور رد کیا اور روایاتی سوچ وفکر کی تائید کی۔ وہ سماج میں نچلی سطح پر کام کرنے کے عادی تھے۔ اور ذہنی طور سے لوگوں میں انقلاب لانا چاہتے تھے۔ وہ خود ایک متقی، درویش صفت مسلمان تھے اور ان ہی صفات کو لوگوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
مولانا محمد علی جوہرؒ: (۱۹۱۳۔۱۸۷۸ء)
خلافت تحریک کے بانی، شعلہ بیان مقرر اور صاحب طرز ادیب مولانا محمد علی جوہر ۱۰؍دسمبر ۱۸۷۸؍ کو رام پور اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند، علی گڑھ یونیورسٹی اور آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ اردو اور انگریزی کا بہت بڑے ادیب، زبردست انشا پرداز اور اعلی درجے کا قلم کار تھے۔ جب بولنے پر آجاتے تھے تو شعلہ بیانی سے کام لیتے تھے اور جب لکھنے کی باری آتی تو انمول جواہر پاروں کو منصہ شہود پر لاتے تھے۔ صحافتی میدان میں انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ اور اپنی تحریروں سے لوگوں کی ذہنیت کو ہموار کرتے تھے۔ انہوں نے مایہ ناز اخبارات بھی جاری کیے۔ انہوں نے ۱۹۱۱ء میں کلکتہ سے ہفتہ وار انگریزی پرچہ The Comrade کے نام سے جاری کیا اور ۱۹۱۲ء میں ایک اخبار ’’ہمدرد‘‘کے نام سے نکالا۔ انھوں نے ملت اسلامیہ میں خود اعتمادی اور خود داری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیاہے۔
مولانا مودودیؒ:( ۱۹۷۹ء۔ ۱۹۰۳ء)
مولانامودودی بیسوی صدی کے ایک عظیم مفسر، مفکر، مصنف، مورخ اور قائد تھے۔ آپ ۳۵؍ستمبر ۱۹۰۳ء میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی اس کے بعد انہوں نے صرف ۱۳؍سال کی عمر میں مدرسہ فرقانیہ اورنگ سے مولوی کا امتحان پاس کیا۔ اور ۱۹۱۶ء میں مدرسۃ العلوم فتح پوری دہلی میں سند حاصل کی۔ جس کے بعد انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے عربی فارسی اور انگیزی میں اتنا درک حاصل کیا کہ وہ اپنی پسند کے مضامین خود مطالعہ کرتے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے تحریروں اور قلمی طاقت سے پوری دنیا میں ہلچل پیدا کردی۔ ان کی پہلی تحریر ۱۳؍سال کی عمر میں شائع ہوئی اس کے بعد انہوں نے باضابطہ مضمون نگاری کا آغاز کیا تاج ، جبل پور، الجمیعہ دہلی، معارف اعظم گڑھ، مسلم اور مخزن کے علاوہ دوسری علمی، فکری اور تحقیقی رسالوں میں ان کی تحریر یں شائع ہوتی تھیں ۔ ۱۹۲۶ میں محض ۲۳سال کی عمر میں الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آراء کتاب لکھ ڈالا۔ انہوں نے ایک تحقیق کے مطابق ۱۵۰؍سے زائد کتابیں لکھیں ۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریروں سے احیائے نو کے لیے امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک کر فکر اسلامی کو بڑے پُر اعتماد، عمدہ اور مدلل اسلوب میں اجاگر کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ پیرسؒ: (۲۰۰۲ء ۱۹۰۸ء )
علم وتحقیق کا بے مثال محقق ڈاکٹر حمید اللہ حیدر آباد دکن میں ۱۹؍فروری ۱۹۰۸ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے مدرسہ رحمانیہ اور عثمانی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر نے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے ایم فل کیا اس کے بعد سربورن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مکمل تعلیم کے بعد ہمہ تن لکھنے پڑھنے اور تحقیق وتصنیف کے کاموں میں مشغول رہتے تھے اور یہ سلسلہ زندگی کے آخری دم تک رہا۔ آپ صحیح معنوں میں ایک حمید تھے۔ انھوں نے مشرق ومغرب میں اپنی تحریروں اور تصنیفات کے ذریعہ سے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ انہوں نے ،قرآن ، حدیث،فقہ ، تاریخ، سیرت غرض کہ اسلامی علوم کے ہر میدان میں قابل ذکر تحقیق و تصنیف کا کام کیا ہے۔ انہوں نے مستشرکین کی ہرزہ سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ علوم اسلامیہ کے قدیم نسخوں کو باریک بینی سے اڈیٹ بھی کیا ہے جن میں صحیفہ ہمام بن منبہ، سیرت ابن اسحاق، اور کتاب الانساب قابل ذکر ہیں۔ جن سے علمی دنیا برابر مستفید ہورہے ہیں ۔ وہ بیس سے زیادہ زبانوں کو جانتے تھے، انہوں نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیاجسے پڑھ کر ہزاروں لوگ اسلام سے قریب آگئے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف عالم اسلام کے ایک نایاب ہیرا تھے جنہوں نے علمی وتحقیقی کام کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا تھا۔
مولانا منظور نعمانیؒ:(۱۹۹۷ء ۔۱۹۰۵ء)
مولانا منظورنعمانی ۱۹۰۵ء میں مراد آباد میں پیدا ہوئے ۔آپ نے متعدد استاتذہ سے تعلیم حاصل کر نے کے بعد دارالعلوم دیوبندسے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ایک عرصے تک درس وتدریس کا مشغلہ اختیار کیا لیکن دعوت وتبلیغ اور تصنیف وتالیف کی طرف آپ کا میلان زیادہ تھا۔ اس لیے درس وتدریس سے الگ ہوئے۔ ان کی قلمی صلاحیت میں چاشنی اور بڑا زور ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے جب الفرقان کو جاری کیا تو اس نے ہر جگہ قارئین کو متاثر کرلیا یہ منفرد رسالہ آج بھی منفرد اسلوب کے ساتھ پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ اس میں مولانا نعمانی تحقیقی اور علمی مقالات کے ساتھ ساتھ اصلاحی نوعیت کے مضامین بھی تحریر کرتے تھے۔ انہوں نے ابتداء میں متعدد خصوصی شمارے شائع کئے جنہیں اہل قلم نے زبردست سراہا۔ آپ ایک زیرک عالم دین اور مصنف تھے اور آپ کا علمی ذوق کا فی بلند تھا۔ احادیث بھی تشریح وتوضیح آپ کا پسندیدہ موضوع رہا ہے آپ کی سات جلدوں پر مشتمل معارف الحدیث سے ہر مکتبہ فکر نے استفادہ کیا ہے اور اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے متعدد موضوعات پر تقریباً ۳۶؍کتابیں لکھیں۔
مولانا سید ابو الحسن ندویؒ:(۱۹۹۹ء۔۱۹۱۴ء )
مولانا ابوالحسن ندوی عالم اسلام کے ایک جید عالم دین اور مصنف تھے۔ آپ ۱۹۱۴ء کو تکیہ کلا رائے میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مولانا کو لکھنے پڑھنے اور تصنیف و تالیف کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، اور لکھنو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ تکمیل تعلیم کے بعد صرف ۲۰؍ سال کی عمر میں ندوۃ العماء لکھنو میں عربی ادب اور تفسیر و حدیث کے استاد ہوگئے۔ چونکہ تحریر ی صلاحیت بچپن ہی سے تھی اس لئے ۱۶؍سال کی عمر میں ان کا پہلا مضمون رشید رضا مصری کے معروف مجلہ ’’المنار‘‘ میں سید احمد شہید ؒکے متعلق شائع ہوا تھا۔ مولانا علی میاں ندوی نے اکثر کتابیں عربی زبان میں لکھی کیونکہ عربی زبان پر انہیں زبردست درک حاصل تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض کتابیں اردوں میں بھی لکھے۔ ان کے مضامین عالم عرب کے جید مجلات اور رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ مولانا کی تحقیقات اور مطبوعہ رسائل کی تعداد ۲۹۰؍ اور عربی کی تعداد ۱۸۸ ہے۔ انہوں نے عالم عرب میں ملت اسلامیہ ہند کو متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر مصطفی السباعیؒ:(۱۹۶۴ء۔۱۹۱۵ء )
ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی تحریک اسلامی کے ایک دیدہ ور مفکر اور مصنف گزر ے ہیں۔ ۱۹۱۵ء میں حمص میں پیدا ہوئے اور جامعۃ الازہر سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد حسن البناء شہیدؒ سے متعارف ہوکر بیعت کی اور اخوان المسلمون میں شمولیت اختیارکر لی۔ آپ نے عہد شباب ہی سے استعماری قوتوں کے خلاف محاذ سنبھالا اور ان کے خلاف تحریر وتصنیف سے فکری جہاد کیا۔ آپ عالم اسلام کے معروف مجلات کے مدیر رہے جن میں المنار، المسلمون اور حضارۃ الاسلام قابل ذکر ہیں۔ وہ ان مجلات کو اپنی تحریروں اور ادارتی مضامین کے ذریعہ سے نہ صرف استعماری قوتوں اور مغربی طاقتوں کو لتاڑتے تھے بلکہ عالم عرب کو بھی جگانے کی بھر پور کوشش کرتے تھے۔ ان کی ایک تصنیف’ اشتراکیہ والاسلام‘ کافی مقبول تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مدلل اندازسے اشتراکیت اور الحادی نظریات کا رد کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی چند دیگر تصانیف یہ ہیں: سیرۃ النبیﷺ دروس و عبر، من روائع حضا رتنا، المرأۃ بین الفقہ القانون۔
مجاہد الاسلام قاسمیؒ:(۲۰۰۲ء ۔ ۱۹۳۶ء)
مجاہد الاسلام قاسمی ایک جید فقہ، مجتہد، اور عالمی دین تھے۔ آپ بہار کے ضلع در بھنگہ میں اکتوبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے۔ تعلیم دارالعلوم سے مکمل کرنے کے بعد خانقاہ رحمانی مونیگر میں بحیثیت مدرس منتخب ہوئے اور یہاں انہیں مولانا منت اللہ رحمانی امیر شریعت بہار واڈیسہ کی علمی فکر صحبت میسر ہوئی جس کی کہ وجہ سے وہ ایک جید عالم دین اور فقہی بن کر ابھرے۔ مولانا مجاہد الاسلام فوراً امارت شریعت بہار جھارکنڈ اور اڈیشہ کے قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہوئے۔ انہوں نے ۱۹۷۰ء میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل میں نمایاں رول ادا کیا۔ان کے کارناموں میں سے ایک بڑا کارمانہ اسلامی فقہ اکیڈمی کا قیام بھی ہے۔ مولانا موصوف بنیادی طور پر اسلام کے دستور اور اس کے فقہی قوانین کے ماہر تھے اور اس میدان میں انہوں نے اعلیٰ درجہ کا تحقیقی سرمایہ چھوڑا ۔ آپ علمی اور تصنیفی میدان کے بھی شہسوار تھے اور قریباً ۳۵؍ اعلیٰ پایہ کی کتابیں آپ کی فقہی یاد گار ہیں۔ مولانا قاسمی عربی اور اردو دونوں زبانوں میں اظہار خیال کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ ان کی علمی اور تصنیفی کاموں سے آج بھی فقہی دنیا استفادہ کر رہی ہے۔
فون نمبر 7906931017