سرینگر//پائین شہر کے مشالی محلہ حول میں27برس قبل9شہری ہلاکتوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چلانے کیلئے مرکزی حکومت کی طرف سے منظوری دینے یا نہ دینے کی جانچ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے ریاستی سرکار کو آگاہ کیا۔شہر خاص میں6اگست 1990کو شہری ہلاکتوں کا ایک واقعہ پیش آیا،جس کے دوران سرحدی حفاظتی فورس نے بندوق کے دہانے کھولتے ہوئے9شہریوں کو گولیوں سے بھونا تھا۔بدھ کو بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں اس کیس کی شنوائی ہوئی جس کے دوران کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے ریاستی سرکار کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کی جانچ کریں کہ مرکزی وزارت داخلہ نے آیا ان اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دی ہے کہ نہیں۔ انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے واقعے سے متعلق بشری حقوق کے مقامی کمیشن کے دروازے پر دستک دی،اور درخواست میں مطالبہ کیا کہ ملوث اہلکاروں کو سزا دی جائے۔ اس سے قبل پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے کمیشن کے پاس ایک رپورٹ پیش کی تھی،جس میں کہا تھا’’آئی جی پی کشمیر کی طرف سے موصولہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر زیر نمبر57/1990پولیس تھانہ نوہٹہ سے متعلق کیس ڈائری کو پولیس ہیڈ کواٹر کی طرف سے ریاستی وزارت داخلہ کے کمشنر سیکریٹری کو منظوری کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی وزارت داخلہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ کیس ڈائری فائل مرکزی وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری کو پیش کی گئی۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہے،اور سرحدی حفاظتی فورس کے75بٹالین کے4اہلکاروں کے خلاف چالان تیار کیا گیا۔اس سے قبل پولیس نے واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ6اگست 1990کو پولیس تھانہ نوہٹہ کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مشعلی محلہ حول میں سرحدی حفاظتی فورس کے کچھا ہلکار ہتھیاروں سمیت مکانوں میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرینگ کی،جس کے نتیجے میں9اہلکار موقعہ پر ہی ہلاک ہوئے۔ پولیس کی طرف سے ایس ایچ آر سی میں پیش کی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا’’اس واقعے کے فوری بعد سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکاروں نے آگ لگا دی،جس کے نتیجے میں شوکت احمد بابا کا مکان نذر آتش ہوا،اور بعد میں وہ جائے وقع سے چلے گئے‘‘۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعد میں اس سلسلے میں کیس درج کر کرے تحقیقات کی گئی،اور چالان کے علاوہ کیس دائری سرکار کو مقدمہ چلانے کیلئے منظوری دینے کیلئے سونپی گئی۔