وادیکشمیر اپنے دلفریب اور دلکش مناظر ، آبشاروں ، سرسبز وادیوں، میدانوں، چھوٹے بڑے پہاڑوں اور دلفریب جھرنوں کی وجہ سے زمین پر قدرت کے ایک حسین شاہکار کی حیثیت سے ساری دنیا میں مشہور ہے وہیں یہ وادی رشیوں، ولیوں اور بزرگان دین کی سرزمین ہونے کے ساتھ ساتھ صدیوں پرانے اپنے روایتی بھائی چارے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اپنی مثال آپ رہی ہے لیکن کچھ عرصہ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور چند خود غرض اور نیم ملائوں کی طرف سے یہاں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مسلکی منافرت کی آگ سے جھلسانے کی کوششوں نے ہر فرد کو چونکا دیا ہے اور لگ رہا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں کے خرمن امن کو آگ لگانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود یہ قوم پہلے ہی سے نا مساعد حالات اور اپنے سیاسی مستقبل کے تعین کی جدوجہد میں بے پناہ مصائب اور آلام کا سامنا کررہی ہے ۔ ان غلط کار عناصر کی کوششوںکو یہیں پر روک دینے کیلئے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔
گزشتہ دنوں شہر خاص میں واقع قدیم تعلیمی ادارے انجمن نصرۃ الاسلام کے زیر اہتمام ایک سیرتی تقریب کے دوران میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے اس سلگتے ہوئے مسئلے پر لب کشائی کرکے مسلمانانِ کشمیر کے اذہان کو ایک حساس اور نازک صورت حال پر غور و فکر کی دعوت دی۔ اس مسئلے کے تدارک کیلئے اگر اقدامات نہ کئے گئے تو اس کے نتائج کسی بھی صورت میں پوری قوم کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتے۔کشمیر کی دینی انجمنوں ، اداروں، اور جماعتوں کے باشعور اور ذمہ افراد اگرچہ وقتاً فوقتاً اس ضمن میں اپنے فرائض ادا کرتے رہے ہیں مگر صورت حال جو نازک رُخ اختیار کررہی ہے اس ضمن میں زمینی سطح پر ٹھوس اور بامعنی اقدامات وقت اور حالات کا ناگزیر تقاضا ہیں ۔جناب میرواعظ عمر صاحب کشمیری مسلمانوں کے سب سے اہم مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ متحدہ مجلس علماء کے امیر اور ایک ذمہ دار سیاسی رہنما بھی ہیں، لہٰذا انہیں اپنی نازک ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہے ۔ میرواعظ کشمیر کی حیثیت سے ان کی یہ منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر میں روزانہ وقوع پذیر ہو رہی تبدیلیوں کے تناظر میں ذمہ دار علمائے کرام، ائمہ مساجد اور دینی و سماجی انجمنوں کے ذمہ داروں کو اعتماد میںلے کرحالات کو ایک صحیح نہج اور سمت دینے کی کوشش کریں۔ ایک اہم مزاحمتی رہنما ہونے کی حیثیت سے جناب میرواعظ کو بخوبی اس بات کا ادراک ہے کہ مبنی برحق جدوجہد میں مصروف کوئی بھی قوم مسلکی منافرت کے تباہ کن نتائج کی متحمل نہیں ہو سکتی بلکہ ا سے اتحاد و اتفاق کی مشعل کو فروزاں رکھتے ہوئے اپنی جائز جدوجہد کے حوالے سے آگے بڑھنا ہوتا ہے ۔
کشمیراس وقت ایسے دور سے گزررہاہے جب پوری قوم شدید اضطراب اور سیاسی غیر یقینیت سے دوچار ہے، ہر روز یہاں نوجوان کٹ مررہے ہیں ، بشری حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور یہ قوم قربانیوں کی ایک لمبی تاریخ روز رقم کررہی ہے ،ایسے میں وہ لوگ کسی بھی طرح قوم وملت کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے جو اپنے حقیر مفادات کی خاطر یہاں عوامی ہم آہنگی کے ماحول کو درہم برہم کرنے پر تلے نظر آرہے ہیں ۔لہٰذا واعظین قوم، خطیب حضرات اورعلمائے ربانین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے آفاقی نظام حیات اور پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت طیبہ کو اس کے صحیح تناظر میں پیش کرکے عوام الناس کی وحدت پرورانہ رہنمائی کریں۔ اسلام ، اتحاد و اتفا ق کا داعی دین ہے ، نفاق اور سرکشی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور باہم دگر منتشر نہ ہونے کا درس دے کر قرآن کریم دو ٹوک انداز میں مسلمانوں کو متنبہ کر تا ہے کہ وہ اسلامی اخوت کا دامن پکڑیں اور آپس میں تفرقہ اندوزی سے گریز کریں۔ بلاشبہ تفرقہ پیدا کرنے والے نہ تو اسلام کے خیر خواہ ہوسکتے ہیں اور نہ مسلمانوں کے ۔ کشمیر رشیوں ، ولیوں اور بزرگان دین کی سرزمین رہی ہے اور یہاں آباد مختلف مسالک کے رہنے والے لوگ صدیوں سے آپسی بھائی چارے کے ماحول میں زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں ۔افسوس اب کے یہ قوم ہر روز خون آشامیوں سے گزر رہی ہے ، ہر روز جوانوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں، سرکاری داروگیر اور ظلم و تشدد معمول بنا ہوا ہے ۔ اسی فضا میںیہاں فرقہ بندی کے بیج بو نے والاہر مُقرر اور خطیب صرف ان قوتوںکا آلۂ کار ہوسکتا ہے جو اس مقہور قوم پر مظالم ڈھانے میں پیش پیش ہیں۔
مقام شکر ہے کہ یہاں ایسے خطیبوں، واعظوں اور علمائے کرام کی کوئی کمی نہیں جو ہمیشہ اپنے خطابات میں اتحاد بین المسلمین کے پیغام کو عام کررہے ہیں اور اتحاد و اتفاق کے دور رس فوائد سے لوگوں کو آگاہ کررہے ہیں مگر چند خود غرض لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھے فروعی مسائل اچھال کر یہاں فتنہ بازی میں لگے ہیں اور تکفیر وتسفیق کے فتوے صادر کر تے جارہے ہیں۔ ان گھر کے بھیدیوں کو یا تو اسلام کے آفاقی اصولوں کی صحیح جانکاری نہیں یا وہ بزعم خویش کسی کشمیر دشمن ایجنسی کے آلہ کار بنے یہاں صدیوں سے روشن اتحاد ویگانگت کی فروزاں مشعل کو مسلکی منافرت کی آندھی سے بجھانا چاہتے ہیں ۔ یہ دوہرے کرداروالے چہرے منبر و محراب سے اس طرح کی زہر افشانی کرکے اسلام کی کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں ؟کاش یہ لوگ قرآن کریم اور سیرت نبوی کا صحیح مطالعہ کرتے، اسلام کے مزاج کو سمجھتے اور قوم کی زبوں ھالی پر رحم کھاتے تو یہ امت کلمہ واحدہ کی بنیاد پر متحد ہوکر ہی اپنی منزل کو پا سکتی ۔
آج دنیا میں متعدد مسلمان ممالک میں خونریزی کا عمل جاری ہے ، قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے ، کئی مسلمان ممالک میں سیاسی غیر یقینیت کا ماحول پایا جاتا ہے ، غیروں کی ایماء پر بعض کلمہ گو ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ امت اپنے مرکز ایمان سے ہٹ گئی ہے ۔ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے انسان ساز پیغام کو فراموش کرچکی ہے۔یہ قوم ایک اللہ کی عبادت، ایک رسولؐ کی اطاعت اور قرآن کریم کو پس پشت ڈال چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس قوم کا کبھی شرق و غرب میں ڈنکابجتا تھا آج غیروں کے در پر جبہ سائی کے جرم کا خمیازہ انتشار اور افتراق کی صورت میں بھگت رہی ہے ۔ کشمیر ی قوم جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک جائز جدوجہد میں قربانیاں پیش کرتی آرہی ہے اس جدوجہد اور قربانیوں کا تقاضا ہے کہ قوم کے ذمہ دار خطیب حضرات، واعظین، مبلیغین اور علمائے کرام اسلام کے آفاقی نظام حیات کو قوم کے سامنے پیش کریں اور ایک بڑے مشترکہ مقصد کے حصول میں سرگرم قوم میں نظم و ضبط، اتحاد و اتفاق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مزاج کو تقویت دیں۔ یہ دین اسلام کا تقاضا اور اسلام کا مزاج ہے کہ مسلمان کے سبھی فرقے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا خود میں حوصلہ پیدا کریں اور سبھی لوگ ایک دوسرے کے مسلک ومشرب کااحترام کریں ۔ نفاق اور فرقہ بندی پوری امت کیلئے سم قاتل ہے۔ لہٰذا اس سے قبل وقت کی عدالت ہمارے خلاف کوئی نا مشکورفیصلہ صادر کرے ہم سب کے لئے سنبھلنے اور متحد ہونے میں ہی عافیت ہے اور اسی میں ہماری اجتماعی بھلائی کا راز مضمر ہے ۔