سالِ رفتہ کے ابتدائی ایام تھے، جنوری کی اکیسویں صبح ۔’ چلہ کلان‘ کے با وصف آفتاب اپنے چو بن پر تھااور یخ بستہ ایام کے باوجود موسم خشک ۔ سرما نے تو وادی کے مکینوں، بستیوں ، کھیت و کھلیان،دہقان وکشت ،جُوئے ،خیابان کوپیاساہی رکھا۔بارشیںہوئیں نہ برف باری۔حالات کی ستم ظریفی کے ساتھ ساتھ انسان کا اپنے ہاتھوں کمایا ہوا اُسے واپس مل رہا ہے۔گردونواح پر جب جب انسان منفی طور طریقوں سے اثراندازہوگا ، کارخانہ ٔ فطرت ہم سے انتقام لیتا رہے گا۔ بہرحال ۲۱؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو راقم نے اپنے چچیرے بھائی کے ہمراہ اُن کے تعلیمی مقاصد کے تحت علی گڑھ یعنی چمن سرسیدؔ کی راہ لی۔ دن کے ۳ ؍بجے کی فلائٹ تھی ۔صبح ۱۱؍بجے گھر سے نکلے اور سرینگر بین الاقوامی ہوائی قبل از وقت ہی پہنچے۔ سرینگرہوائی اڈّے میںحسبِ معمول مسافروںکااژدھام تھا۔وادی سے باہر جانے والے،ہندوبیرونِ ہندسے یہاںوارد ہونے والے کالوں،گوروں کی آمدورفت جاری تھی ۔ہم طیران گاہ میںvistaraجہازکے ا نتظار میںلگ گئے۔کچھ دیربعدمذکورہ جہازاپنے مہمانوںکی میزبانی کے لئے فلک سے فرش پر اُتر ّیا۔ضروری لوازمات کی خانہ پُر ی کر کے ہم جہاز میں سوار ہوئے اور مقررہ وقت پر جہازنے پرواز بھردی اور منزل مقصود کی طرف محو پرواز ہوا۔پلک جھپکتے ہی جہاز گویا بادلوں میں تیر رہا تھا اور دیدئہ شوق قدرت کی صناعی، اس کی وسعتوں اور خوب صورتیوں پرہم عش عش کررہے تھے۔ زبان اللہ کی بے عیب تخلیق کو دیکھ کر بار بار سبحان اللہ کا وِرد کر رہی تھی۔ بادلوں کے اوپر سے فرش پر ’رینگتے‘ انسان، دیوہیکل پہاڑ، ندی نالے، بہتے دریا، منجمد جھیلیں ، سڑکوں پر بہتی گاڑیاں اولوالالباب کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ خالق کائنات نے یہ سب عبث پیدا نہیں کیا بلکہ ایک مقصد کے تحت ہی فرشِ زمیں اور فلک نا پیدا کنار کو مخلوقات سے بھر دیا گیا ہے۔ بلندی پر جا کر بادلوں کی طرف دیکھئے تو جابجا وہ پہاڑوں کی مانند ایستادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے جیسے ساکن اور منجمد پربت ہوں۔ وہ نظارہ بہت ہی دلفریب ہوتا ہے۔ آسمان کو بغیر ستون کے پیداکرنے والی ذات بادلوں کو جہاں چاہے ہانک دے اور جہاں چاہے برسنے کا حکم کرے۔ اس پردئہ سحاب کے پیچھے چاند بھی اکثر و بیشترہم اہل زمین کے ساتھ آنکھ مچولی میں مصروف رہتی ہے۔ یہ پوری کائنات صاحبِ خرد کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ موقع محل دیکھ کر راقم نے بادلوں کے قریب جا کر ان سے وطن عزیز کے سوکھے ہونٹوں اورپیاسی زمین کی شکایت پہنچائی ۔ میں نے پوچھا تو کیسا ابر ہے کہ تیرے برسنے کی اُمید لگائے آنکھیں ترستی رہتی ہیں۔ کشمیر کی مٹی میں جنموں کی پیاس ہے، ہر سُو خشک سالی ہے، ہر دل مضطر ۔۔۔ زندگی ایک ایک بوند کو ترستی ہے ، ہر لب تشنہ ہے، ہر دل سوختہ۔۔۔ !پردئہ سحاب سے میرے شکوے کا وہ جواب ِ شکوہ آیا جسے سننے کے بعد نالہ و فریاد والی میری زبان ساکت ہو گئی کہ میں نے اپنے ہو نٹ سی لئے۔۔۔!
ہوا سے باتیں کرتے ہوئے طیارہ ہندوستان کے دار السلطنت دہلی کے اندراگاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈّے کے ٹرمنل ۳؍ پر آہستہ خرامی سے اُترا۔ قریباً 4:30بجے شام ہم ہوائی اڈّے سے نکلے۔موسم خوشگوارتھا۔سرمانے وہاںکی گرمی کوبھی زیرکردیاتھا۔ لُونے بھی سپرڈال دئے تھے۔ٹیکسی میںسامان لادکرجامعہ ملیہ اسلامیہ کی راہ لی، جہاں رات محمد شاہد لون صاحب کے پاس گزار کر اگلی صبح علی گڑھ کے لئے عازم سفر ہوئے۔شاہدلون صاحب خواجہ باغ بارہمولہ کے رہنے والے قابل اورہونہاراسکالرہیں۔'political economy of islam'عنوان پر پی ۔ ایچ ۔ ڈی کا مقالہ ترتیب دے رہے ہیں۔گزشتہ سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکالرشپ پرآکسفورڑیونیورسٹی لندن میںاپناتحقیقی مقالہ پیش کیا اور وہاںکی دیگرچندجامعات میںمختلف موضوعات پرمحاضرات(lectures)بھی دئے۔ موصوف زُودنویس بھی ہیں۔قومی وبین الاقوامی انگریزی اخبارت ورسائل میںان کی نگارشات شائع ہوتی رہتی ہیں۔موصوف نے بڑے تپاک سے ہمار ا استقبال کیا۔رات بھرمیزبانی کی اورصبح ہماراسامان کندھوںپرلادے علی گڑھ جانے والی گاڑی تک پہنچایا۔
علی گڑھ کو برصغیر میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی علامت کے طور پریاد کیا جاتا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں جب مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا جنازہ نکل رہا تھا، ٹمٹماتے چراغ گوروں کی آندھی سے بجھ گئے تھے تو سرسید احمد خانؔ نے اس شہر سے اپنی بڑی توقعات وابستہ کیں ۔ انہوں نے علی گڑھ کو ہی تعلیمی ، ادبی اور سیاسی تحریک کا محور بنایا ۔ فی الوقت یہ شہر اپنے تالوں کی صنعت کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے۔ اٹھارہویں صدی سے قبل علی گڑھ کا نام ’کول‘ (kol)تھا۔ مورخین؎ کے مطابق یہ نام اس شہر کو بلراماؔ نے دیا تھا۔ ابن بطوطہ ؔنے بھی اپنے سفرنامہ میں اس شہر کو اسی نام سے یاد کیا ہے۔ با لآخر مختلف نام کرن کے بعد ستارہویں صدی میں ایک شیعہ کمانڈ ر نجف خان ؔ نے اس شہر کو فتح کر کے اس کانام علی گڑھ رکھا۔دوپہرکے قریب ہم چمنستان سرسید ؔ میں داخل ہوئے۔ رِکشا پر سوار پانچ سال قبل کا منظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا، جب راقم ریسرچ کے لئے علم کی اس وادی میں پہلی دفعہ داخل ہو اتھا ۔ اس بار کافی تبدیلی دیکھنے کو ملی ۔ علی گڑھ میں کیمپس کے احاطے میں عزیزانِ من وسیم مکائی صاحب اور عبدالحسیب میر صاحب کے پاس مسافرت کے یہ ایام گزارناطے پایا تھا۔ برادر وسیم مکائی صاحب چھٹیوں میں جب کشمیر میں تھے تو کہا کرتے تھے کہ علی گڑھ میں کیمپس کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ صفائی ستھرائی کا خیال نہیں۔ کلاسز میں موجود’ بارِ تشریف‘ کو اٹھانے والے بنچز اور کرسیوں کی حالتِ زار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے انہیںسرسید احمد خانؔ مرحوم نے اپنے زمانے میں خود اپنے ہاتھوں سے صاف کیا ہے، تب سے اب تک کسی کو توفیق نہ ملی کہ ان کوہاتھ لگائے ، لیکن راقم کا مشاہدہ اس سے اِبا کر رہا تھا۔ اب قدرے منظرنامہ تبدیل ہو چکا تھا۔ خوشگوار تبدیلی آچکی تھی۔ پانچ سال قبل کی نا پختہ سڑکیں ، پختہ ہو چکی تھیں۔ صفائی ستھرائی کا اعلیٰ انتظام تھا۔عمررسیدہ عمارتوں کو رنگ روغن سے گویاجوانی کے قالب میں ڈھالا گیا تھا ۔ کچھ نئی عمارتیں بھی منصہ شہودپرآچکی تھیں۔ غرض ان پانچ سالوں میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کافی ترقی کر لی ہے۔ رکشا محسن الملکؔ ہال کے مولانامحمدعلی جوہرؔہاسٹل کی دہلیز پر رُکا اور ہم تھکاوٹ ،بھوک ، پیاس کے مجسمہ بنے وسیم مکائی صاحب اور عبدالحسیب میر صاحب کے آشیاں میں جا گھسے۔ وسیم مکائی صاحب نے خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ نماز کے بعد تسکین شکم کاسامان ہوا،اور پھردراز ہوکرتھوڑی دیرقیلولہ کیا۔
وسیم مکائی صاحب اولڈٹائون بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے متنوع صلاحیتوںکے حامل میرے عزیزوںمیںسے ہیں۔گزشتہ سال ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انگریزی شعبہ میںپی۔ایچ۔ڈی کے لئے امتحان کوالیفائی کیا۔"World War 2,poetry"پرتحقیق کررہے ہیں۔موصوف کم عمری سے ہی بسیارنویس ہیں۔اکثروبیشتروادی کے موقرروزناموں’’کشمیرعظمٰی‘‘اور’’گریٹرکشمیر‘ ‘میںان کے مضامین باصرہ نوازہوتے رہے ہیں۔چندانگریزی کتابوںکے تراجم بھی کئے ہیںجوکہ شائع بھی ہوئے۔تحریرکے ساتھ ساتھ آپ اچھی خاصی تقریری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔عبدالحسیب میرصاحب بھی بارہمولہ خواجہ باغ علاقے سے تعلق رکھنے والے مرنجان مرنج قسم کے اسکالرہیں۔مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں"An Analysis of social and political Developments in Jammu and Kashmir from 1963 to 1975"عنوان کے تحت پی۔ایچ۔ڈی کامقالہ تیارکررہے ہیں۔موصوف کے علمی ،تحقیقی اورتنقیدی مضامین وادی کے مختلف انگریزی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔دونوں نے محبت و عقیدت سے میزبانی کاحق اداکیا ۔
علی گڑھ تحریک ہندوستان میں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کی تحریک تھی۔ سرسید مسلمانانِ ہند کے لئے ایک معالج اور مصلح تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ برعظیم کے انتہائی دقیا نوسی مسلمانوں میں جدید ترین انگریزی اور سائنسی تعلیم کے فروغ کے سلسلہ میں ہے۔ بقول مختار مسعود ؔ: ’’سرسیدؔ ددو شخصیتوں کا نام او دو مخالفتوں کا عنوان ہے۔ ایک سر سید ؔتعلیم والا ہے اور دوسرا تفسیرؔ والا ہے۔‘‘ ( حرف ِ شوق ۔ص۲۵۸)۔ تفسیر والے سرسیدؔ سے اختلاف بجا لیکن تعلیم کو فروغ دینے والے سرسیدؔ واقعتا انیسویں صدی میں مسلمانوں کے محسن تھے۔ اس صدی نے ہندوستان میں موصوف کے مثل کوئی محسن ملت نہیںجنما۔ وسیع النظر اور ہمہ صفت درد مند ، انجمنوں اور اداروں کا بانی و منتظم ، پرانی عمارتوں کا قدر شناس اور نئی عمارتوں کا معمار ۔ دن میں دردرجاکر مسلمانوں کے مستقبل کی تعمیرکے لئے جھولی پھیلانے والا اور رات کے اندھیرے میں اُٹھ کر مسلمانوں کے زوال پر آنسو بہانے والا ۔ مختارمسعودماضی کے البم سے ایک تصویرہمارے سامنے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ رات کے دو بجے محسن الملکؔ ، سرسید احمد خانؔ کے پاس گئے تو انہوں نے سرسیدؔ کو بستر پر نہ پایا ۔ تلاش میں کمرے سے نکلے دیکھا کہ سرسید ؔبرآمد ے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار رو رہے ہیں ۔ وجہ دریافت کرنے پر فرمایا اس سے زیادہ مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے ہیں اور بگڑ تے جا تے ہیں۔ کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔۔ ۔ سرسیدؔ کی بے چینی حق بجانب تھی۔ اُس زمانے میں جد ید تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں کو ڈھونڈنے کے لئے خردبین کی ضرورت پڑتی ہے۔ ۱۸۵۲ء سے ۱۸۶۸ء تک ۲۴۰ ہندوستانیوں نے بیرسٹرایٹ لا ء کا امتیاز حاصل کیا اور ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔ ۱۸۶۹ء میں۱۰۴ ؍طلبہ نے طب کے لائسنس کا امتحان پاس کیا ، اُن میں بھی صرف ایک مسلمان تھا۔ ۱۸۷۱ء میں بنگال میں کل جریدی عہدہ دار ۲۱۱۱؍ تھے، ان میں مسلمان کی تعداد صرف ۹۲ تھی ۔ لاہور ہائی کورٹ کے پہلے اکیاسی سال (۱۹۴۷ء ۔ ۱۸۶۶ء) میں صرف ۷ مسلمان جج کے عہدہ پر فائز تھے۔ انیسویں صدی کے اواخر تک سند یافتہ مسلمان انجینئر صرف ۳؍عدد تھے۔‘‘ یہ اعداد و شمار دیکھ کر تمام ذی حس و ذی شعور افراد کے دلوں میں گھبراہٹ طاری ہوتی ہے اور سرسید اس ملت کے محسن تھے، جنہوں نے اپنی زندگی اس ملت کی بہتری کے لئے صدقے میں دے دی۔ وہ از خود فقیروں کی طرح گھر گھر ، در در پھرے ، ہر دروازے پر دستک دی اور کالج کی تعمیر کے لئے جو کچھ ملا اُسے اپنے کشکول میں ڈالے رکھا۔ ان دنوں مردتو مرد عورتیں بھی انفاق کے جذبے سے لبریز تھیں۔ انہوں نے ہاتھوں کی چوڑیاں اور کانوں کی بالیاںتک اُتار کر چندے میں دے دیں۔ ایک شخص نے ایک عمر صرف کر کے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے جو رقم جمع کی تھی وہ ساری کی ساری اسی قومی کام کے لئے دے دی ۔ سرسیدؔ کی ۱۸۸۵ء کی اپیل پر لبیک کہنے والوں میں پنجاب کا ایک اسکول ماسٹر اُٹھا ، جس نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے پانچ سو روپے جمع کئے تھے ۔وہ اپنی جمع پونجی اسٹریچی ہال کی تعمیر کے لئے چندے میں بخوشی دے گیا۔’’ اسٹریچی ہال‘‘ کے متعلق مختار مسعود رقمطراز ہیں کہ : ’’ اسٹریچی ہال عقلیت اور جدیدیت کی ادب گاہ ہے۔ تحریک علی گڑھ کا گہوارہ ہے۔ تحریک پاکستان کی رزم گاہ ہے۔ برطانوی ہند کے مسلمانوں کے مسائل کے تجزئے ، حل کی تلاش اور دوررس نتائج کی حامل قراردادوں اور تجاویز کی تصدیق اور تصویب کا مقام ہے۔ یہ براعظم کے مسلمانوں کے زوال سے عروج کی جانبِ سفر کی داستان ہے، جو سنگ و خشت میں رقم کی گئی ہے۔ ‘‘(حرف شوق ص ۲۱)
علی گڑھ کی تعمیر میں بیش بہا قربانیاں دی گئی ہیں۔ اس کو تعمیر کرنے والے محسن تو مر کر مٹی میں پنہاں ہوئے لیکن اُن محسنوں کا لگایا ہوا یہ پودا آج تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے،جس کے سائے میں رنگ و نسل ، ذات پات، مذہب و مسلک کی تفریق کے بنا ہندوستان کا ہر طالب علم اپنی پیاس بجھانے کے لئے اس چمنستان کا رُخ کرتا ہے۔ یہ تنا ور درخت ، فی الوقت ۴۶۷۰۶ ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے،جس کے سائے تلے ۳۰۰۰۰؍تشنگانِ علم اپنی علم کی پیاس بجھا نے میںمصروف ہیں۔ کیمپس احاطے میںلاتعدادوسیع ہاسٹلزموجودہیںاورجگہ جگہ خوبصورت ودلکش مساجدتعمیرکی گئی ہیں۔صبح وشام کیمپس کی معطر فضا ئیںاللہ اکبرـکی اذان جانفراسے گونجتی ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ نہیںبلکہ ناقابل تردید حق ہے کہ اتنی مساجدہندوستان کے کسی دارالعلوم میںبھی موجود نہیں،جتنی چمنستان سرسیدؔکے احاطے میں موجودہیں۔ یہاں کیدیدہ زیب اور شاندارجامع مسجدکے صحن میںہی ہندوستانی مسلمانوںکے محسن سرسیداحمدخان ؔاپنے بچوںسمیت آسودئہ خاک ہیں ؎
مقدورہوتوخاک سے پوچھوںکہ اے لئیم
تونے وہ گنج ہائے گراںمایہ کیاکئے
غالبؔ
ایک دن عصرکے وقت عبدالحسیب صاحب،وسیم مکائی صاحب اورمحمدسمیع صاحب کی معیت میںاس محسن کے مقبرے پرگئے جس نے برصغیر کو بیدارکیااور خودتاحکمِ ثانی وہاںآرام فرماہیں۔دعائے مغفرت کے بعد،وہیںقریب کی جامع مسجدمیںنمازِعصراداکی۔مسجدکی چھت دلکش نقش ونگارسے مزّین ہے۔مسجدکافی وسیع اورخوبصورت ہے، یہاںقرآن کریم کے ایک نایاب ونادرلمبے چوڑے نسخے کا دیدار بھی نصیب ہوا۔اس سے قبل ایسامصحف راقم کی نظروںسے کہیں بھی نہیںگزراہے۔
خیر کچھ دن کیمپس کے طول و عرض کی گرد چھانٹی ۔کیمپس کے باہرکبھی شمشادمارکیٹ کی سیر تو کبھی زکریا کی دھول کو مَس کیا،کبھی میڈیکل روڑکو چھان مارا۔ جمال پورمیںجماعت اسلامی ہندکاایک تحقیقی سینٹر ’’ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی ‘‘کاچکر بھی لگایا۔وہاں کشمیرسے تعلق رکھنے والے اسکالرمحترم مجتبٰی فاروق صاحب سے ملاقات کرنامطلوب تھا۔موصوف کئی برسوںسے مذکورہ ادارہ میںبطورسینئرریسرچ اسکالرکے پرورشِ لوح وقلم میںمشغول ہیں۔قومی وبین الاقوامی رسائل و جرائدمیںموصوف کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔روزنامہ’’ کشمیرعظمٰی‘ ‘میںبھی اکثروبیشتران کے بصیرت افروز اور فکر انگیز مضامین چھپتے رہتے ہیں ۔ انہوںنے ہمیں یہاںاپنے کام سے متعارف کرایااورچائے سے ہماری خاطرتواضع کی۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے اندراورباہرصبح و شام لڑکوں کا جمِ غفیر عارضی ڈھابوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں، جہاں چائے کی چسکیاں لیتے آپ طلباء و اسکالرز کو ہر لمحہ دیکھیں گے۔علمی، قومی و بین الاقوامی مسائل زیر بحث ہوتے ہیں۔ مکھیاں بھی اپنا حصہ چوسنے سے اعراض نہیں برتتیں ۔ہم کیمپس کے باہرناشتے کے لئے پرانی چنگی پرواقع صدیق بھائی کی بنی ذائقے دارچائے نوش کرتے رہے اورساتھ میںعابد بھائی کے مشہورپراٹھوں کالطف بھی اُٹھایا ۔ بھارت کی کثیر آبادی اتر پردیش میں ملتی ہے ، اس لیے گاڑی والے، رکشا والے ، ’بیٹری‘ چلانے والے، آئو دیکھتے ہیں نہ تائو ،دیکھی اَن دیکھی کر کے سڑک اور گلیوں میں تیز رفتاری سے اپنی سواری کو چلاتے ہیں، جس کی زد میں کبھی کبھار اُتر پردیش کی کثیرآبادی بھی آجاتی ہے۔ کون جی رہاہے،کون مررہاہے،اس تیز رفتار زندگی میں کسی کوفرصت نہیںکہ وہ دوسروںکے بارے میں سوچے۔ہرشخص دوڑمیںلگاہواہے،ایک ایسی شاہراہ پرجس کی منزل دُھندلی ہے ۔
ہمارے دلعزیزو مو ثر خطیب ڈاکٹر عبد الروف میر صاحب (بارہمولہ) بھی اس سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بحیثیت استاد( شعبہ بیو کمیسٹری فیکلٹی آ ف میڈیکل سائنس) منتخب ہو گئے۔ موصوف اپنی اہلیہ کے ساتھ آج کل وہیںسکونت پذیرہیں۔ایک دن انہوں نے عشایہ پر مدعو کرکے ہماری خوب خاطرداری کی ۔وسیم مکائی صاحب اورچچیرے بھائی کے ہمراہ ان کے عارضی دولت کدے پرلذتِ کام ودہن سے محظوظ ہوئے۔۲۵؍ جنوری کو شہرہ ٔ آفاق تاج محل دیکھنے کا پروگرام بنا ، ہم علی الصبح محبت کی اس علامت کو دیکھنے بس میں نکل پڑے ۔ علی گڑھ سے آگرہ ۹۰؍ کلو میڑ کی دور ی پر واقع ہے۔ آگرہ اتر پردیش کا اہم شہر ہے۔ اس کا پرانا نام اکبر آبا‘ تھا۔ اکبرؔ کے زمانے میں یہ دار السلطنت رہا ہے۔ کچھ گھنٹوں کی مسافت کاٹنے کے دروان ہند کی اس کثیر آبادی والی ریاست کی مزعومہ ترقی کا بھی مشاہدہ ہوا۔ جگہ جگہ سڑکیں خستہ اور نا پختہ ہیں۔ غربت و افلاس اس ریاست کے اکثر کنبوں کی داستان ہے۔ جرائم ، بُھک مری، بچہ مزدوری اور خودکشی کے واقعات میں بھی یہ ریاست ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں سرفہرست ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جہاں حقوق انسانی کا درس دیا جاتا ہے، رنگ و نسل ، ذات پات کے بھید بھائو کے خلاف سیکھ دی جا تی ہے، انسانیت کو ہر آن مقدم رکھنے کی ترغیب دلائی جا تی ہے، وہیں کیمپس کے باہر ڈھابوں میں بچہ مزدوری کی عیاں وبیاں بڑھتی وبا ان سبھی اسباق کی ہنسی اُڑا دیتی ہے ۔ ستم ظریفی یہ کہ یہاںجانوروں کی ’’حرمت وتقدس‘‘ مقدم ہے مگر انسان کا خون بہانا حلال ہے۔ معصوم بچیاں ہوں یا پختہ عمر کی خواتین، اُن کی عصمتیں نیلام کرنا ’’ناری ادھیکار ‘‘ کے نعرے بلند کت نے والوں کے لئے کسی کھیل تماشے سے کم نہیں۔ افسوس کہ انسانیت کے فقدان کے حوالے سے ہندوستان آہستہ آہستہ اخلاقی پستی کی اُس حد کو چھورہا ہے جہاں سے کسی بھی قوم کا عروج پا نا بعید از امکان ہوتا ہے اور زوال وپستی ایسی اقوام کا مقدر بن جاتی ہے۔
گاڑی سڑک پر رواں دواں تھی اور راقم چاروں طرف اس’’ ترقی‘‘ کا مشاہدہ کرتاجا رہا تھا۔ جابجا خستہ مکانات اور گندی جھونپڑیوں پر مشتمل ویران بستیاں ،’سُوچھ بھارت ابھیان‘ ‘ کے نعرے کو ٹی وی اسکرین تک محدودجتلا رہی تھیں جس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا ہے۔ہندوستان کی اکثرریاستوںکی طرح اترپردیش میںبھی جگہ جگہ گندے نالوں اور تالاب کے ارد گرد بستیاں ’’آباد‘‘ ہیں۔ اُن میں مویشی بھی نہاتے ہیں اور بچے بھی اُسی میں گرمی سے بچنے کا سامان پاتے ہیں۔ عورتیں کپڑے اور کچن کے برتن بھی اسی ناقابل استعمال پانی سے ’’پاک وصاف‘‘کرلیتی ہیں۔ آپ کو یمین ویسارمیں عفونت آمیزگندگی کے ڈھیر ہی ڈھیر نظر آئیں تو کیا کہئے ؟ اور تو اور دوارن ِ سفر بعض مقامات پرمندروںکی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ نظر آئی۔ آپ جب بھگوان کے گھر کے پاس بھی اڈوس پڑوس کے کوڑے کرکٹ کواپنے روایتی’’ آن ،بان اور شان‘‘ سے بکھرا دیکھیں گے تو کیا یہ کر یہہ الصورت مناظر آپ کے قلب ونگاہ میں’’پوترتا‘‘ کے مفہوم کوبھرشٹ کرکے نہ چھوڑے گا؟ اس سوال پر کہ کیا کسی ایک بھی شردھالوکا دھیان ان مندروں کی صفائی ستھرائی کی طرف نہیں جاتا ، میں نے من کی دنیا میں جواب ٹٹولا تو یہی ندا آئی کہ جب وہ بچارے خود بھوکے مر رہے ہوں، پیاسے جی رہے ہوں، سیاسی جبر اور معاشی تنگ دستی کے شکار ہوں، اپنے اور بچوں کی شکم سیری سے عاجز ہوں، تو بھلا ان مندروں پر کیسے اپنی توجہ مرکوز کریں؟ کتنی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ورش میں ایک جانب ایک مخصوص طبقے کی استحصالی سیاست کے فلک بوس تاج محل استادہ ہیں جہاں انسانی اقدار پل پل زندہ دفنا ئے جار ہے ہیں اور دوسری طرف غربت وناداری کی محرومیاں اور گرم بازاریاں ہیں، ایسے میں ’’سوچھ بھارت ا بھیان‘‘ اندرا گاندھی کے نعرے ’’غریبی ہٹاؤ ‘‘ جیسا ڈھکوسلہ محسوس ہوتا ہے ۔ ریاست اترپردیش میں بھی کسی بھی شہری کا اہدافی قتل ہونا، ناک سے مکھی ہٹانے کے مترادف ہے۔ آنکھ اس’’ ترقی یا پری ورتن‘‘ کودیکھ دیکھ کر اُکتا گئی تو میں بڑی جلدی سے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے بنائے ہوئے مقبرے تاج محل دیکھنے کا آرزو مند ہو اتاکہ م،نہ کا ذائقہ بدل جائے ۔ ظہر کے وقت ہم آگرہ پہنچے ۔بس سے اُترنے ہی والے تھے کہ رکشاوالوںکی بڑی تعدادنے ہمیںچاروںسمت گھیرکر’’اغواء‘‘کرناچاہا۔ہرایک بضدتھاکہ ان کی رکشاکوہی’’شرف‘‘بخشاجائے ۔یہ توخیرہوآگرہ پولیس کاکہ بروقت مداخلت کرکے ہمیںاس غول بیابانی سے بچالیا۔آگے جاکرہم رکشامیں چڑھ کر کوئی آدھ گھنٹہ بعدہم اس پُر شکوہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے،جس نے غریبوںکی محبت کا’مذاق‘ اڑایاہے ؎
اک شہنشاہ نے دولت کاسہارالے کر
ہم غریبوںکی محبت کااڑایاہے مذاق
ساحرؔلدھیانوی
آگرے کی شان ’’تاج محل‘‘ وقت کے گال پر لڑھکتا ہوا آنسو ہے۔شوقِ دید نے اس طرف دشت نو ر دی پر مجبور کر دیا تھا۔ نگاہیں ایامِ رفتہ کے تعاقب میں تھیں ۔ تاج محل کی تعمیر میں احمد لاہوری ؔاور اس کے کاریگروں نے سر زمینِ ہند کو ایک قابل قدر پہچان دے دی۔ تین صدیاں بیت گئیں پھر بھی یہ مخروطی گنبد ، دیکھنے والے کی نگاہ کو سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ جمنا میںتیرتاہو ا ایک پُر اسرار شاہکار ، آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے۔ ’تاج محل‘ کے پُر شکوہ مینار شاہ جہاںؔ اور ممتازؔ کی محبت کے گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ابتذال کے بھی شاہد ہیں۔ کہاں وہ دور کہ جب ہم نے بھارت کو ایک تہذیبی ، مملکتی ، معاشی، اقتصادی ومذہبی پہچان عطاکر دی ،بھوک ، پیاس، افلاس اور اضمحلال وبدنظمی میں مبتلا اس ملک کو جینے کا سلیقہ سکھا یا،تہذیب و تمدن کی آرائش سے آشنا کیا، انسانیت کے اسباق از بر کرائے اور کہاں عصر رواں کہ ہم اپنے اس کنٹری بیوشن کا برا خمیازہ اٹھا رہے ہیں اور اپنی پہچان کا جنازہ اٹھتے دیکھ رہے ہیں۔ پستی وادابار کی حد یہ کہ آج قدیم و جدید ہندوستان کے معمار مسلمانوں سے ہی ان کا تعارف پوچھا جا رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں تاج محل سیاحت کا مرکز ہونے کی نسبت سے ملک ہند کے لئے ذریعہ ٔآمدن بھی ہے، شہرت کا سامان بھی ہے ، جب کہ ترنگا مغل دور کی شاہکار فصیل لال قلعے کا مرہونِ منت ہے مگر فسطائیت پسند ہماری شناخت پر سوال اُٹھانے کے بہانے ہم سے ناکردہ گناہوںکا بدلہ لینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ا ور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی جیسے چراغوں سے ملک کا گوشہ گوشہ روشن ہورہاہے، لیکن ہم سے اپنی وفاؤں کا ثبوت مانگنے کے لئے استحصالی سیاست کے اندھیاروں کو بروئے کار لایا جارہاہے ۔ میں پوچھتاہوں کہ خواجہ معین الدین چشتی ؒ ، خواجہ نظام الدین چشتی: ، امیر خسرو ؒؔ ، البیرونیؔ ، مغلیہ سلطنت کے انمول خزانوں ۔۔۔ کن کن احسانات ونوازاشات کی یہ لوگ نفی کریں گے؟ مسلمان تو سرزمین ہند میں روشنی کے مشعل بردار بن کر آئے، معمار قوم وملک کی صورت میں جئے ، جب کہ انگر یزقزاق اور ڈاکو بن کر اس گنگا جمنی ہند کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑمیں لوٹتے رہے جسے مسلمانوں نے سجایا اور آباد کیا تھا۔ حق تو یہ ہے کہ اگر مسلمان ہندوستان آ باد نہ ہوتے تو یہاں تہذیب کی روشنی ہوتی نہ تمدن کی گہماگہمی۔ مسلم قوم کی خدمات کا شکر کرنا اور ان کو وطن کا اٹوٹ انگ ماننا انسانی اخلاق کا پہلا سبق ہے ۔افسوس کہ یہ چیز اب ورز بروز ووٹ بنک سیاست کے سبب ناپید ہورہی ہے۔ خیر یہ تو’’ گردش ایام‘‘ ہیں جن کو اقوام وملل کے درمیان قانون قدرت کے مطابق وقفے وقفے سے پھیر دیا جا تا ہے۔۔۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو نے تاج محل کو قیمتی ورثہ قرار دیا ہے، جہاں روز دنیاکے اطراف واکناف سے سیاحوں کا جمِ غفیر درشن کو آتا ہے۔ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل‘ ۱۶۳۲ء تا ۱۶۵۳ء تعمیر ہوا۔ یہ مقبرہ 155.500ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ مقبرہ ایک مربع شکل کا حامل ہے جو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسٰی شیرازی ؔنامی ایک ایرانی انجینیر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی ۱۲۰ فٹ اور بلندی ۲۰۰ فٹ ہے۔ جب تاج محل کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچی تو شاہجہاں کا یہ ارادہ تھا کہ دریا کے مخالف کنارے پر اپنے لیے بھی سنگ مرمر کا ایک مقبرہ تعمیر کروائے لیکن اُس کی یہ امید بر نہ آئی ۔ اس کے بیٹے اورنگ زیبؔ عالمگیر نے شاہجہاںؔ کو آگرہ میں قید کرایا۔ ۱۶۶۶ء میں شاہجہاں بحالت قید وفات پا گیا اور اپنی بیوی کے نزدیک تاج محل میں دفن کیا گیا۔ تاج محل شب و روز مختلف رنگ بدلتا ہے،سحر کے وقت اس کا رنگ گلابی اور شام کے وقت دودھیا سفید ہوجا تاہے۔ ان بدلتے رنگوں کو عورت کو مزاج سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ حُسن کا یہ دل فریب منظر آگرہ میں جمنا کے کنارے ، سنگ مرمر کی سلوں میں مقید ہے۔ ممتاز محل ؔ کا یہ مقبرہ مسلمانوں کی فن تعمیر کی معراج ماناجاتا ہے۔ باوجود یکہ تاج محل ایک مقبرہ ہے، مگر اسے دیکھ کر کبھی موت کا خیال نہیں آتا بلکہ یہی لگتا ہے کہ اس کی شکل میں محبت زندہ وپائند ہ ہے۔ تاج محل کی مرمری عمارت کی دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینا ر ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے سات میٹر اونچا ہے، سنگ ِسُرخ کا ہے۔ اوسطاً چالیس لاکھ سیاح دنیا بھر سے ہر سال اس عمارت کو دیکھنے آتے ہیں۔ تاج محل کو ہندوستان کے شدت پسند عناصر نے بار ہا متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کیں ۔ گزشتہ کئی سال سے بابری مسجد کی طرح اس عمارت کو بھی مندر جتلایا جا رہا ہے۔ شدت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ تاج محل دراصل ’’ شوا ‘‘ مندر ہے جسے راجپوتوں نے شاہجہاں کو ’’تحفے ‘‘میں دیا تھا۔ اسی ’’مندر‘‘ کے اوپر تاج محل کی تعمیر کی گئی، حالانکہ آگرہ کی عدالت نے اس مقدمہ کو خارج کر دیا ہے۔ تاج محل کو’’ مندر‘‘ میں تبدیل کرنے کی یہ ہنگم کوششیں ابھی سرد نہیں پڑی ہیں۔ دوسری جانب آثار قدیمہ سے متعلق مر کزی محکمہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا بار ہا یہ دستاویزی اور مشاہداتی ثبوت پیش کر چکی ہے کہ تاج محل کا’’ مندر‘‘ ہونے کا دعویٰ بے بنیا د اور محض فسانہ طرازی ہے۔ بہرحال آفتاب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا تھا اور الوداعی کرنیں تاج محل کے شاندار گنبد کو اُفق سے کوئی پیغام پہنچا رہے تھے اور ہم مغلیہ سلطنت کی اس مثالی عمارت پر بالآخر فاتحہ پڑھ کر چمنستان سرسیدؔ کی طرف واپس مڑگئے ۔۔۔۔!
رابطہ :ریسرچ اسکالرکشمیریونیورسٹی،سرینگر