شیخ عابد حسین
شروعات میں علامہ اقبال کے دو اشعار سے کرنا چاہوں گا، اگر چہ ان دونوں اشعار پر اختلاف ہیں کہ یہ علامہ اقبال کے کہے گئے اشعار نہیں ہیں ،البتہ یہ اشعار میرے موضوع کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور دونوں اشعار میں جو کچھ شاعر نے بیان کیا ہے، وہ سو فیصد صحیح ہے۔علامہ اقبال کے ساتھ ان اشعار کو اس لئے جوڑا گیا ہے، کیوں کہ اِن اشعار میں علامتوں اور موضوعات کے علاوہ کچھ اور چیزیں ضرور ہیں، جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ علامہ اقبال کے ہی اشعارہیں۔ اب ان دونوں کو میں ایک ایک کر کے واضح کرنا چاہوں گا ،پہلا شعر جو ہے وہ اس طرح ہے :
تیرے سجدے تجھے کافر نہ کردے اے اقبال
تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور
سبھی جانتے ہیں کہ جو کوئی بھی انسان ، اگر وہ سچا مسلمان بننا چاہتا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے معبود ہونے کا اقرار زبان سے کرے اور قلب سے اس بات کی تصدیق کرے۔اس انکشاف سے وہ ایک مسلمان تسلیم کیا جائے گا، اس کے بعد اِس انسان کو اسلام کے دوسرے طریقے اپنانے پڑتے ہیں۔ لیکن سب سے ضروری یہ ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت پر سو فیصد ایمان رکھے۔ مسلمان بنتے وقت ایک انسان کو جو کلمہ طیبہ پڑھایا جاتا ہے، اُس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ انسان پہلے اپنے خالق (بنانے والے)کو تسلیم کرے اور اس کے بعد یہ یقین رکھے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کےہی منشا سے ہوتا ہے اور جو کچھ ہوگا، اللہ کےہی ارادے سے ہوگا۔ یہاں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کو سب سے پہلے اپنا قبلہ دُرست کرنا ہوتا ہے اور یہ قبلہ ایک ہی ہوتا ہے تاکہ انسان محض ایک ہی خدا کے سامنے سر جھُکائے، اپنے مشکلات کے ازالے کی خاطر صرف ایک خدا کے سامنے پُکارے۔ اب ذرا سنئے کہ علامہ اقبال اس شعر میں کیا کہتا ہے ؎
تیرے سجدے تجھے کافر نہ کر دے اے اقبال
تو جُھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور
دیکھئے اس شعر کے کئی معنیٰ ہوسکتے ہیں اور کئی محققین حضرات نے اپنی اپنی تفاسیر پیش کئے ہوں گئے، لیکن میں یہاں اپنے طور پر وضاحت کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس شعر میں علامہ نے نماز کا ذکر کیا ہے جو کہ میرے نزدیک مثال کے طور پر استعمال میں لایا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز کے دوران جتنا ہم دُنیاوی چیزوں کا حساب لگاتے ہیں،اُتنا ہم دوسرے اوقات میں نہیں لگاتے، جو کہ ہمارے اندر ایمان کی کمی کی واضح مثال ہے۔ یہاں شاعر نے نماز کا ذکر کیا ہے، اس کا مطلب قطعی طور یہ نہیں کہ شاعر محض نماز کے بارے میں ہی کہہ رہا ہے بلکہ شاعر نے ان تمام چیزوں کی طرف دھیان دینے کی کوشش کی ہے جو چیزیں ہم اللہ کی رضا کے خاطر کرتے ہیں لیکن دل میں صحیح نیت نہ ہونے کی وجہ سے ہم ثواب حاصل کرنے کے بجائے گناہ گار بن جاتے ہیں کیوں کی رضائے اللہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلمان کی نیت صحیح ہو ۔شاعر نے نماز کا ذکر اس لیے کیا ،کیوں کہ ہماری نمازیں محض دکھاوا ہوتی ہیں۔ ہمارے دلوں میں اور ہمارے ذہنوں میں اللہ ہی اللہ ہونا چاہئے لیکن اس کے برعکس ہم یا تو کسی منسٹر کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں یا پھر دفتری یا دیگر کاروباری مراکز کے بارے سوچتے ہیں۔ اس طرح ہماری نماز کہاں قبول ہوگی اور کون قبول رکھے گا؟ یہی حال ہمارے دوسرے اعمال کا بھی ہے، جنہیں انجام دیتے وقت ہماری نیت کبھی درست نہیں ہوتی اور ہم ثواب کے بجائے گناہ کماتے رہتے ہیں اور اللہ کو ماننے کے بجائے شرک کرتے رہتے ہیں، جس شرک کی اللہ کے حضور میں کوئی بخشش نہیں۔ ہم صدقہ دیتے ہیں،زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ لوگ مجھے مال دار سمجھیں تو کہاں اللہ کے حضور میں یہ صدقات و زکوٰۃقبول ہونگے؟ لوگ لاکھوں کروڑوں کما رہے ہیں لیکن جب زکواۃ کا وقت آتا ہے تو دینے سے انکار کرتے ہیں پھر اگر دیتے بھی ہیں تو نیت ٹھیک نہیں ہوتی،بس دکھاوے کا عمل ہوتا ہے ،ایسی حالت میں اللہ کے حضور میں کہاں قبولیت ہوگی؟ یہاں ایک اور شعر اِسی نوعیت کا ہے ،جس کو علامہ اقبال سے منسوب کیا گیا ہے۔
دل پاک نہیں ہے تو پاک ہو نہیں سکتا انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
دیکھئے پہلے شعر میں جو انداز بیان ہے، وہی اس شعر میں بھی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے بھی یہ دونوں اشعار کسی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ اس شعر میں بھی شاعر نے دل کی پاکی کو پہلادرجہ دیا۔ یہاں دل کی پاکی سے مراد وہی صحیح نیت اور صحیح قبلہ ہے جو ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اب دل کی پاکی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان محض اللہ ہی کو اپنے دل میں بسائے، اس کے دل میں محض اللہ ہی کا قبضہ ہونا چاہیے، تب جاکے ممکن ہے کہ انسان اصل مقصد تک پہنچ جائے۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان کے دل میں اللہ کا خوف ہو۔ ہر وہ عمل ،جو وہ کرے، اس میں صرف اور صرف اللہ کی ہی رضا شامل حال ہو۔ شاعر نے کافی حد تک بجا کہا ہےکہ ایک انسان تب تک پاک ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کا دل حسد،بغُض ،کینہ ،تعصب وغیرہ سے پاک نہ ہو۔ یہاں شاعر نے ابلیس کا ذکر خوبصورت طریقے سے کیا ہے ۔ ابلیس کے بارے میں آیا ہے کہ اس کے پاس کافی علم تھا لیکں نیت میں فتور آیا تو اللہ نے ذلیل کردیا، اللہ کے حکم کی تعمیل میں انکار کیا تو اللہ کی لعنت کا شکار ہوگیا۔ یہاں ہم یہ بھی مراد لے سکتے ہیں کہ اسلام کا علم کسی غیر مسلم کو بھی ہوسکتا ہے لیکن وہ ہر گز مسلمان نہیں ہوسکتا ،جب تک کہ وہ اللہ کو اپنا خدا نہ مانے، اللہ کے سامنے اپنا سر نہ جھُکائے اور سب سے بڑھ کر اپنے دِل سے اللہ کو معبود ہونے کی تصدیق نہ کریں ،جو کہ فرض عین ہے۔
الغرض ہر مسلمان کو چائیے کہ وہ سو فیصد ایمان اللہ پر ہی رکھیں۔ فلاح و بھَلاکے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنی نیت دُرست کریں اور اللہ کے سوا کسی دوسرے پر اپنا ایمان نہ رکھے۔ عصر حاضر میں لوگوں کا جس طرح سے اللہ پر بھروسہ ختم ہوگیا ہے لوگ اثاثوں کو بھی اپنا محافظ سمجھنے لگے ہیں یا یوں کہیں کہ مسلمان مغربی تہذیب میں اتنا مگن ہوگیا کہ وہ اب مذہبی لحاظ سے بھی اللہ کے بجائے مادیت کی طرف مائل ہوگیا ہے جو کہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے۔شائد یہی نتیجہ ہے کہ قدرتی ذخائر اب مسلمانوں کے ہاتھوںسے نکل رہے ہیں یا مسلمانوں سےچھینے جارہے ہیں۔ہر طرف مسلمان ذلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ جرائم کا سلسلہ تواتر کے ساتھ دراز ہورہا ہے۔ مشہور ہندوستانی بالی وُڈ مزاحیہ اداکار جیونی لیور کا انٹرویو دیکھ کر میں حیران ہوا، جس میں اس نے اپنے بیٹے کا کینسر میں مبتلا ہونے اور اپنی زندگی گناہوں میں گزارنے کا ذکر کیا تھا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میرے اندر یقین ختم ہوگیا تھا کہ ایشور میری دعا قبول کریگا یا نہیں ،کیوں کہ اُسے خود کے گناہ یاد آتے تھے لیکن کہیں سے ایشور کا دامن نہیں چھوڑا۔ لگاتار دعا کرتا رہا، ڈاکٹروں کے بجائے ایشور کو ہی اپنا مشکل کُشا مان کر اُسے مانگتا رہا، یہاں تک کہ ایشور نے اُس کے بیٹے کو صحت یاب کیا۔وہ انٹرویو ہمارے لئے سبق آموز ہے کہ کس طرح ایک غیر مسلم نے اسباب کو چھوڑ کر خدا کےراستہ پرمضبوطی کے ساتھ چلتا رہا ،اُسی کا دامن پکڑے رکھا۔ ہمارے یہاں کشمیر میں بھی بہت سے لوگ لاعلاج مرض خاص کر کینسر میں مبتلا ہیں، لوگ ان کے علاج کے خاطر لاکھوں روپے جمع کرتے ہیں تاکہ ان کا علاج ہوجائے، پھر بھی اکثر مریض مرجاتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان اللہ سے بڑھ کر ڈاکٹروں پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں ،دوسرا ،یہ لوگ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں، نیت میں خرابی کے کارن اُن کا دیا ہوا مال اللہ کی راہ میں قابل قبول نہیں ہوجاتا ۔ لہٰذامسلمان کو چائیے کہ وہ اپنا یقین ہمیشہ اللہ پر برقرار رکھے،اُسی سے ہر جائزضرورت کی چیز کے لئے دُعا مانگے اور اُسی کا دامن تھام رکھے،تبھی مشکلات سے نجات ملے گی۔
[email protected]>