تھوڑی دیر کے لیے عالمی حالات سے صرف نظر کربھی لیجیے تو یہ سچ ہے کہ ملکی پیمانے پر ہم مسلمانوں کے لیے ماحول بظاہر بہت سازگار نہیں لگتا۔ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے نعرے کے تحت بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے اور بر سراقتدار آنے کے بعد آرایس ایس کے زیر رہنمائی چلنے والی بی جے پی کا رویہ مسلمانوں کے تئیں بہت جانبدارانہ اور جارحانہ چلا آرہا ہے۔ اس بیچ ملکی سطح پر عجیب وغریب تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے ، قانون کی بالادستی کمزور پڑ رہی ہے ، غنڈہ گردی کا دور دورہ ہورہاہے، مسلم اقلیت کے تئیں بدگمانیاں بڑھ رہی ہیں ۔ دیگر بدنام زماں واقعات کو چھوڑ کر اس کی ایک تازہ مثال جموں کے گول گجرال میں دیکھئے جہاں گزشتہ روز جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے تجاوزات مخالف مہم کے دوران ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک مدرسہ کو مسمار کر دیا جس وجہ سے وہاں اسلامی کتابوں کی بے حرمتی ہوگئی ۔گو کہ مسلم دشمنی کا یہ ناپاک کھیل کوئی نیا نہیں بلکہ اس طرح کے ناپاک کھیل ماضی میں بھی کھیلے جا چکے ہیںاور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے،لیکن یہ نیا واقعہ اُن مسلم قائدین کیلئے لمحہ ٔ فکریہ بھی ہے اور ان کے ضمیر کو جھنجوڑنے کیلئے ایک تلخ اشارہ ہے جو اقتدار اور کرسی کی خاطر اپنا دین و ایمان فروخت کر چکے ہیں اور جنہیں عام مسلمانوں کی تکالیف اور مصائب و شدائد سے کوئی لینا دینا نہیں رہاہے۔
صاف طور سے ظاہر ہے کہ مسلم دشمنی کا یہ ننگا ناچ بند ہونے والا نہیں ،ماضی کے اوراق اُلٹ کر دیکھئے۔22فروری 2016میں بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس طرح کی ایک انہدامی کاروائی انجام دی گئی ۔سانبہ کے قریب سرور گرجر بستی کے مکین جب رات کو اپنے آشیانوں میں سوئے تھے تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ اس بار ہم اپنے آشیانوں میں آخری بار آرام فرما رہے ہیں ، انہیں کیا معلوم کہ اُن کی بستی پر صبح طوفان آنے والا ہے۔صبح ہوئی اور سورج کی کرنیں پھوٹنے لگیںتو چند ہی لمحوں کے بعدجموں پولیس کی بربریت اورزعفرانی عفریت کی چنگاڑ نے تباہی کی ایک ایسی داستان ر قم کی جس سے ایک معصوم بچے سے لے کر 80؍سالہ بزرگ تک متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔آن کی آن میںاس بستی کے 60کے قریب کنبے نہ صرف اپنے آشیانے کھو چکے تھے بلکہ گولیاں لگنے سے کئی ایک خون میں لت پت بھی ہوئے ۔
کہاں تک داستان ِ الم سنائی جائیں،موجودہ دور میں بر سر اقتدار مرکزی و ریاستی حکومت میں مسلم دشمنی کا ایک ایسا مائنڈ سیٹ بنا ہوا ہے کہ یکے بعد دیگرے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو زیر کیا جا رہا ہے ۔مسلمانوں کے تئیں کھلی دشمنی کے اظہار کا یہ سلسلہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی ایک خوفناک مثال جو مسلمانان ِ جموں کے لئے آنے والے خطرے سے خالی نہیں ہے، پیش کی جا رہی ہے ۔ گزشتہ ماہ شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے حاجن میں جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین ہونے والے ایک مسلح تصادم میں فورسز نے اس طرح سے اپنی کامیابی کا بانڈا پھوڑاکر یہ دعویٰ کیا کہ فورسز نے ایک بڑی کامیابی کے طور ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی رحمان لکھوی کے بھتیجے سمیت لشکر طیبہ سے وابستہ 6 ؍پاکستانی جنگجوؤں کو مار گرایا ہے ۔ پولیس سربراہ کے مطابق مارے گئے جنگجوؤں میں ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی رحمان لکھوی کا بھتیجا بھی شامل تھا۔ انہوں نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر مسلح تصادم کے ختم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ’مسلح تصادم ختم ہوگیا ہے اوریہ ایک کامیاب آوپریشن رہا۔ تصادم میں 6؍ جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا جن کے قبضے سے ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کئے گئے‘۔ انہوں نے کہا ’مارے گئے جنگجوؤں میں ذاکرالرحمن مکی کابیٹا اور ذکی الرحمن لکھوی (ممبئی دہشت گردانہ حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ) کا بھتیجا اُوید بھی شامل ہے‘۔ ڈاکٹر شیش پال وید نے ایک اور ٹویٹ میں کہا ’لشکر طیبہ کمانڈروں ذرگام اور محمود کو بھی تصادم میں ہلاک کیا گیا۔ مارے گئے سبھی جنگجوؤں کا تعلق پاکستان سے ہے‘۔ انہوں نے مزید لکھا ’ یہ سیکورٹی فورسز کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے‘۔پولیس سربراہ کے اس بیان کوجموی مسلمانوں کی بد قسمتی سمجھا جا ئے یا پولیس سربراہ کاجوش خطابت کہ پولیس سربراہ نے جہاں اس آوپریشن کو جنگجوئوں کیخلاف پولیس و فورسز کی ایک بہت بڑی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس تصادم میں دہشت گردانہ حملوں کے ماسٹر مائنڈ ذکی رحمان لکھوی کے بھتیجے کو مار گرایا ہے، وہ سر اسر خلاف حقیقت اور مبنی بر من گھڑت کہانی اُس وقت ثابت ہوئی جب اس آوپریشن کے دوران ذکی الرحمن لکھوی کے بھتیجے کی دکھائی جانے والی تصویر جموں ایک عام شہری و مزدور پیشہ شخص کی ہے ۔ فوج کی اس بڑی کامیابی کو فیس بک او ر واٹس ایپ کے بل بوتے پر چلنے والے کئی نام نہاد نیشنل چینلوںاور اخبارات نے بغیر تحقیق کے بڑھ چڑھ کر شائع کیا۔جموں سے شائع ہونے والے دو ہندی اخبارات ’’ دینک جاگرن ‘‘ اور ’’ ’’ امر اجالا ‘‘ نے کھٹیکاں تالاب علاقہ میں کام کرنے والے ایک نوجوان مجید کھٹانہ کی تصویر تصادم میں مارے گئے جنگجو اوسامہ جھنگوی کے طور پر شائع کی جو لشکر کمانڈر ذکی الرحمن لکھوی کا بھتیجا بتایا گیا تھا ۔ واضح رہے پولیس سربراہ نے جس آوپریشن کو پولیس و فورسز کی ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے حقیقی معنوں میں وہ کچھ اور ہی کہانی ہے ۔
موجودہ دور میں جموی مسلمان جس طرح سے زعفرانی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں وہ مسلم قائدین کیلئے لمحہ ٔ فکریہ ہیں۔ایک منظم پلان کے تحت یہاں کے مسلم سماج کو عتاب کا شکار بنایا جا رہا ہے۔بے رحمی سے جہاں تہاں غلط سلط الزامات میں مسلمانوں کو پھنسایا جا رہا ہے ،فضا میں ایک عجیب نفرت گھول دی گئی ہے۔ مسلم دشمنی کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب ، تہذیب ، زبان اور رنگ کے لوگ جیتے بستے ہیں ، کثرت میں وحدت اس کی خوبی مانی جاتی ہے ، یہی اس کا حسن بھی ہے اور ترقی کا راز بھی لیکن منظم کوشش کے تحت اس کثرت کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ملک کے بقیہ طبقات کے لیے بھی حالات ناخوشگوار ہیں لیکن بطور خاص مسلمانوں کے لیے صورت حال زیادہ ابتر کرنے کی کوسازش جاری ہے۔ ایسے میں بعض بہی خواہوں کی طرف سے جس طرح مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش ہورہی ہے اور بعض خود ڈرے ہوئے لوگ قوم کو جس طرح ڈرا رہے ہیں وہ حد درجہ افسوس ناک ہے۔اس لئے مسلم قائدین سے یہ گزارش ہے کہ وہ سیاست دانوں کی جی حضوری میں اپنی عافیت خراب نہ کریں اور وقتی طور کی ان گھنگور گھٹائوں سے ڈرنا چھوڑ دیں،یہ وقت ڈرنے کا نہیں کچھ مثبت وٹھوس انداز میںکرگزرنے کا ہے۔ خوف موت ہے لیکن خوف کے مہیب سایوں کو امید کی نئی جوت بنالینا زندہ قوموں کا شعار ہوتا ہے۔ ہم اس خوف کو دھتکاریں گے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے خوف کی کوئی جگہ نہیں۔ اور ویسے بھی بہت کوشش کرنے کے باوجود زہریلی قوتوں کو ہمیشہ ناکامیوں کا سامنا رہا ہے ۔حق و باطل کی اس جنگ میں جیت ضرور حق کی ہوگی ۔یہ لوگ اپنے ناپاک مشن میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے اور ان شاء اللہ وہ کبھی کامیاب ہوں گے بھی نہیں۔رات کے بعد صبح ضرور آتی ہے اور تاریکی کو چھٹنا ہی پڑتا ہے۔ مجھے شہریار کا ایک شعر یاد آرہا ہے ؎
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج تیرے نکلنے کا
ایم شفیع میر گول
9797110175