گورنرراج نافذ ہونے کے بعد شاہراہوں ، دکانوں ، چائے خانوں ، شادی بیاہ کی تقاریب اور نجی مجلسوں میں مزاحمتی تحریک کے اُتار چڑھاو ، فورسز کی زیادتیوں ، قتل و غارت گری ، عسکری معرکوں اور برصغیر کے سیاسی اُلٹ پھیر پر کم اور اس بات پر زیادہ گفتگو اور بحث ہوتی رہی کہ گورنر راج کب تک قائم رہ سکتا ہے ،نئی حکومت کے قیام کے کتنے امکانات ہیں ،کن سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوسکتا ہے اور وزیر اعلیٰ کا عہدہ کس کے مقدر میں ہے ۔ہر روز کوئی نہ کوئی نیا خیال سامنے آتا تھا یانئی پیشن گوئی گشت کرنے لگتی اور لوگ ایک دوسرے سے اس کی صداقت دریافت کرنے میں مصروف رہتے ۔پہلے اس خیال کی ہوا اُڑی کہ پی ڈی پی دو پھاڑ ہورہی ہے اور ایک حصہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ حکومت بنائے گا لیکن جب ایسا نہ ہوا تو ایک روز اچانک یہ پیشن گوئی عام ہوئی کہ کانگریس پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بنانے جارہی ہے ۔کچھ روز یہ بحث و مباحثے کا موضوع رہی تو اس کے بعد کانگریس ، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے کچھ باغیوں کی مخلوط حکومت بنانے کا خیال مقبول ہوا ۔
حیرت اس بات پر نہیں کہ یہ پیشن گوئیاںکیوں اورکیسے عام ہوتی رہیں بلکہ حیرت یہ ہے کہ عوامی توجہ کا فوکس کہاں سے کہاں پہنچا۔جس دوران یہ مفروضے عام تھے اس دوران اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ایک بہت ہی اہم اورمفصل رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں براہ راست مسئلہ کشمیر کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے اس کے حل کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا ۔ اس رپورٹ میں حالانکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا بھی ذکر تھا لیکن اس نے بھارت کو بہت زیادہ پریشاں کردیا ۔بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اسے فوری طور پر مسترد کردیا ۔اس غیر معمولی واقعہ پر کشمیر میں عوامی سطح پر کہیں کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔نہ کسی مجلس میں اس پر بحث ہوئی نہ دکانوں اور ریستورانوں میں اس پر کوئی تبادلہ خیال ہوتا رہا ۔اس دوران فورسز کے ہاتھوں ایک اُنیس سالہ نوجوان فیضان غنی کی موت بھی ہوئی جس کے جلوس جنازہ میں لوگوں کی بھاری تعداد شامل تھی اور لوگ ہر جگہ اس پر غم و غصے اور افسوس کا اظہار کررہے تھے لیکن مقبول اورمعروف موضوع حکومت کا قیام تھا اور اب بھی ہے ۔نیشنل کانفرنس نے اعلان کیا کہ اسے کسی بھی پارٹی سے مل کر حکومت بنانے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ کانگریس بھی کہتی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ حکومت نہیں بنائے گی ۔ بی جے پی بھی کہتی ہے کہ حکومت بنانے کا اسے ابھی کوئی خیال نہیں لیکن لوگ پھر بھی ہر روز کوئی نہ کوئی حکومت بناتے ہیں ۔یوں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی خواہش ہے کہ جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آئے لیکن کئی دہائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ عوام ہر جمہوری حکومت سے نالاں رہے ہیں ۔
نیشنل کانفرنس کی حکومت تھی تو ہمہ گیر ایجی ٹیشن نے اس کا جینا حرام کردیا ۔کانگریس اور پی ڈی پی کی حکومت تھی تب بھی عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج رہے ۔ آزادی کی گونج چاروں طرف جاری تھی اور پی ڈی پی اوربی جے پی کی مخلوط حکومت میں تو تحریکِ مزاحمت پورے عروج پر رہی ۔ اسے دیکھ کر اس بات میں شک و شبہ کی کیا گنجائش باقی رہتی ہے کہ عوام کے لئے کسی بھی جمہوری حکومت میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ یہ موضوع ہی قابل نفرین ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیوںگورنر راج قائم ہوتے ہی ہوا بدل گئی اور جمہوری حکومت کے قیام کی قیاس آرائیاں سب سے مقبول اور معروف موضوع بن گیا ۔پتھر بازی کا شوق چھوٹ گیا اور اس کی جگہ حکومت سازی کی حرارت نے لی ۔ ہر تجزیہ نگار سوچ کی ان متضاد تبدیلیوں کو سمجھنے کی کتنی ہی کوشش کرے لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا ہے ۔جس دوران حکومت کے قیام کے قصے موضوعِ بحث تھے مسلسل بارشوں نے سیلاب کی صورتحال پیدا کردی ۔ جہلم کا پانی خطرے کا نشان پار کرگیا ۔2014ء کے تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنے والے لوگ پانی کے تیور دیکھ کر بھی دہشت زدہ نہیں تھے بلکہ بدستور حکومت کے قیام کے بارے میں قیاس آرائیوں پر تبادلہ خیال میںمصروف تھے ۔ یہ بحث کہیں بھی نہیں تھی کہ چوبیس گھنٹے کی بارش سے جہلم میں پانی کی سطح خطرے کا نشان کیوں عبور کرگئی ۔جہلم کی ڈریجنگ کے لئے مختص چارسوکروڑ روپے کہاں خرچ ہوئے ،اور سیلاب کا تدارک کرنے کے منصوبوں کا کیا ہوا ؟ فکر تھی تو بس اس بات کی تھی کہ حکومت کون بنائے گا ۔لوگوں کو اس بات کی کوئی اُمید نہیں کہ انتخابات کا انعقاد بھی ممکن ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھ کرکچھ دیر کے لئے یہ خیال بھی آتا ہے کہ تحریک مزاحمت کو لوگ بھول چکے ہیں لیکن جو لوگ کشمیر کی نفسیات کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے جب بھی کوئی کال آجائے گی لوگ اس پر لبیک کہیں گے ۔یہ تضاد نیا نہیں ہے بلکہ تاریخ کے اوراق کو پلٹئے تو ہر قدم پر اس طرح کا تضاد دیکھنے کو ملے گا۔
ڈوگرہ راج کے خاتمے کے بعد جب شیخ محمد عبداللہ ریاست کے وزیر اعظم بنے تووہ مقبول اور ہر دل عزیز لیڈر تھے لیکن بہت تھوڑے عرصے میں ان کی مقبولیت اور ہردل عزیزی پر سولیہ نشان پیدا ہوا جب نیشنل کانفرنس پر عام حلقوں میں تنقید کا رحجان پیدا ہوا یہاں تک کہ اس وقت کے مقبول ترین اور قومی شاعر مہجور نے بھی اپنے اشعار میں نیشنل کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔اس دوران مسلم کانفرنس کی سیاسی قوت میں اضافہ ہونے لگا۔مزاحمت کا عنصر عوام میں کہیں نہ کہیں موجود تھا جو شیخ صاحب کی مقبولیت کے نیچے دبا ہوا تھا ۔نیشنل کانفرنسی کارکنوں کی داداگری نے اسے اُبھارنا شروع کیا ۔اس کے بعدہمیشہ شیخ محمد عبداللہ کی مقبولیت اور مزاحمتی رحجان کی کشمکش جاری رہی ۔1953ء میں جب شیخ صاحب کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے نیچے اتار کر جیل بھیج دیا گیا تو وہ خود تحریک مزاحمت کی علامت بن گئے اور جب تک وہ مزاحمت کی علامت بنے رہے یہ کشمکش ختم ہوگئی ۔محاذ رائے شماری کے قیام کے بعد مزاحمتی رحجان ایک مکمل ،منضبط اور ہمہ گیر تحریک کی شکل میں ابھر آیااور یہ تحریک ہی عوام کی امنگوں اورخواہشوں کی علامت بن گئی ۔
لیکن جس بخشی غلام محمد نے شیخ محمد عبداللہ جسے وہ اپنا چھٹا ایمان کہتے تھے کے ساتھ غداری کی تھی وہ بھی تنہا نہیں تھا ۔ اس کے جلسوں میں بھی عوام کی بھاری تعداد شامل ہوا کرتی تھی ،وہ جلوس نکالتے تھے تو سڑکوں کے دونوں طرف لوگ اُن پر پھول برسایا کرتے تھے ۔وہ دریائی جلوس بھی نکالا کرتے تھے تو آبادی دریا کے دونوں کناروں پر ان کا استقبال کرتی نظر آتی تھی ۔اس پر جب کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کتنے لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ چالیس لاکھ اورجب ان سے پوچھا گیا کہ شیخ صاحب کے ساتھ کتنے لوگ ہیں تو انہوں نے جواب دیا چالیس لاکھ ۔ اس وقت کشمیر کی آبادی چالیس لاکھ ہی تھی ۔اسی کے پیش نظر اُس وقت کے مفکر اوردانشور یہ رائے پیش کرنے لگے تھے کہ شیخ محمد عبداللہ اگر اسی طرح جیلوں میں بندرہے اور کشمیرحکومت کوعوامی سپورٹ ملتا رہا تو محاذرائے شماری کی تحریک قصۂ پارینہ بن کر رہ جائے گی ۔انہیں جدوجہد کیلئے آئینی راستہ اختیار کرنے کے مشورے دئیے جانے لگے ۔ اور تجربے کے طورپر انہوں نے سرینگر حلقہ انتخاب سے آزاد امیدوار شمیم احمد شمیم کی حمایت کی جس کے مقابلے میں بخشی غلام محمد جو اس وقت ’’کامراج پلان‘‘ کا شکار ہوکر حکومت سے محروم ہوچکے تھے انتخاب لڑرہے تھے ۔بیگم شیخ محمد عبداللہ نے خانیار میں ان کے پہلے انتخابی جلسے میں انہیں شیخ محمد عبداللہ کے حمایت یافتہ اُمیدوار کے طور پر متعارف کیا اور مولا نا محمد سعید مسعودی نے ایک جلسے میں کہا کہ یہ مت دیکھو کہ تمہارا اُمیدوار کون ہے شیخ صاحب اگر بجلی کے کھمبے کو ووٹ دینے کیلئے کہے تو بلا چون و چرا ووٹ دو۔شمیم احمد شمیم کامیاب تو ہوئے لیکن بخشی غلام محمد نے بھی ووٹوں کی بڑی بھاری تعداد حاصل کی جس پر نئی دہلی سے شائع ہونے والے اُردو اخبار ملاپ نے ایک اداریہ لکھا جس میں حکومت ہند کو مشورہ دیا کہ بحشی غلام محمد بھی کشمیر میں ایک مقبول لیڈر ہیں اس لئے اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔یہ الیکشن اندرا عبداللہ ایکارڈ کیلئے شیخ صاحب کی آمادگی کی بنیاد بنا اور اسکی بنیادی وجہ لوگوں کے متضاد رحجانات ہی تھے ۔
اندرا عبداللہ ایکارڈ ہوا تو پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس کے خلاف آر پار کشمیر میں ہڑتال کی اپیل کی اورکشمیر میں مکمل ہڑتال ہوئی ۔دوسرے روز شیخ محمد عبداللہ ایکارڈ کے بعد کشمیر پہنچے تو ان کے استقبال میں ائر پورٹ سے لالچوک تک لوگ نعرے دیتے ہوئے کھڑے تھے ۔ اس ایکارڈ کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی نے مزار شہدا سے جلوس نکالا جس میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر شامل تھا اور گول باغ میں جب انہوں نے تقریر کی تو لگتا تھا کہ پوراکشمیر اس جلسے میں اُمڈ کر آیا ہے ۔
یہ تاریخ کی سچائیاں ہیں جنہیں کوئی رد نہیں کرسکتا ۔جب تک شیخ محمد عبداللہ زندہ تھے لوگ ان کے ساتھ تھے ۔ لیکن جب77ء کا الیکشن ہوا تو اس میں ان کے خلاف بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ منظم تھا مگر ووٹ نیشنل کانفرنس کے ہی حق میں ڈالا گیا اور تاریخ ساز کامیابی سے نیشنل کانفرنس کو ہمکنار کیا گیا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیخ صاحب کے مین سٹریم میں آنے سے شیخ صاحب کی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی لیکن مزاحمت کا جذبہ بھی اپنی جگہ پر موجود رہا اور جب بھی موقع ہاتھ آیا اس کا اظہار بھی کیا گیا ۔شیخ صاحب کے بعد ان کے فرزند کو بھی عوام کی حمایت حاصل رہی لیکن نئی دہلی نے جب ان کابھی تختہ پلٹ دیا تو لوگ ان کی حمایت میں کھڑے ہوئے لیکن جب انہوں نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تو مزاحمت کا جذبہ پھر اُبھر آیا جس نے اس اتحاد کیخلاف شیخ مخالف قوتوں کو متحد ہونے کا موقع فراہم کیا ۔اس کے بعد بندوق متعارف ہوئی تو مزاحمتی جذبے نے سب کچھ پلٹ کر رکھ دیا لیکن 96ء میں نیشنل کانفرنس کی حکومت بنی تو لوگوں نے فاروق عبداللہ کے جلسوں میں بھی حاضری دینی شروع کردی ۔
اس طرح وقت کے تقاضوں کے ساتھ لوگوں کے رحجانات بدلتے رہے لیکن مزاحمتی جذبہ ہر رحجان میں اپنی جگہ بناتا رہا۔بی جے پی پی ڈی پی اتحاد نے اس جذبے کو ایک بار پھر جلا بخشی اور جب یہ حکومت ختم ہوگئی تو مین سٹریم سیاست کے ساتھ دلچسپی نے پھر سرُ ابھارا ۔ کشمیر کی موجودہ قیادت کو متضاد رحجانات کی بیک وقت موجودگی اوراس کے سیاسی اثرات کا تجزیہ کرنا ہوگا اور اسی کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی کو بھی ترتیب دینا ہوگا ورنہ کشمیر غیر یقینی حالات کے ایک دور سے دوسرے دور میں داخل ہوتا رہے گا ۔مقاصد بھی اسی افراتفری کی نذر ہوتے رہیں گے اوراہداف بھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)