سید مصطفی احمد
دنیا کی جتنی عبادت گاہیں ہیں وہ قابل احترام ہیں۔ مذاہب کی بھرمار ہی زندگی میں چاشنی لاتی ہے۔ ہر مذہب میں عبادت گاہ ایک ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ ایک نظام ہوتا ہے جو صرف عبادت گاہ تک محدود نہیں ہوتا ہے بلکہ زندگی کے بیشتر معاملات میں راہنمائی کرتا ہے۔ نجی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک یہ عبادت گاہیں ہر سطح قابل تعریف کام کرتی ہیں۔ اسی طرح مسجد کا معاملہ ہے۔ خاص کر جامع مسجد کا۔ اسلام میں مسجد اور اداروں کی طرح ایک مکمل ادارہ ہے جو پورے سماج پر نمایاں اثر ڈالتی ہے۔ نجی زندگی سے لے کر معاشرتی زندگی پر مسجد کا اثر واضح ہے۔ ایک فرد کی تعمیر سے لے کر سماج کے ہر شعبے کا احاطہ کرنا، مسجد کا شیوہ ہے۔ اس کے علاوہ مسجد بہت سارے معاملات میں ضروری ہے جن کا ذکر آنے والے سطور میں کیا جارہا ہے۔
پہلا ہے معاشرتی ملاپ۔ مسجد ایک ایسی پاک جگہ ہے جہاں پر امیر غریب، کالا سفید، چھوٹا بڑا، وغیرہ جمع ہوجاتے ہیں اور تفریقی اور تخریبی عناصر سے دور رہتے ہیں۔ اس سے ایک قوم کی پہچان ہوجاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی بنیادوں پر ایک دوسرے کے گلے کو پکڑنے کی گندگیاں دور ہوجاتی ہیں۔ اصل میں مسجد میں جمع ہونے کا مطلب ہے کہ ہم سماج میں بھی اسی روش کو اپنائیں۔ یعنی مسجد میں ایک ہونے کا مطلب ہے کہ ہم سماج میں ایک ہو کر رہیں۔ ایک امام کے پیچھے کھڑے ہونے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی معاشرتی زندگی میں بھی ایک لیڈر کی پیروی کریں۔ اس کی باتوں کو مانیں۔ جب ایک انسان مسجد میں ہماری رہنمائی کرسکتا ہے، تو پھر زندگی کے دوسرے معاملات میں اس کی پیروی کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ ہے امام اور مقتدی کا رشتہ۔ امام کے معنی ہیں نماز کی امامت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ سماج کے ہر شعبے میں سبقت لینے اور انصاف پر مبنی فیصلے دینے والا۔امام وہ ہے جو خراب حالات میں مثبت راستوں کا تعین کرے، ڈوبتی کشتی کو حفاظت کے ساتھ نکالے،برے سے برے حالات میں اپنا ذہنی توازن برقرار رکھے۔ یہ ہے مسجد کا پہلا وصف۔ یہی وصف قوموں کو بناتا ہے۔
قومیں اس خصوصیت سے پروان چڑھتی ہیں۔ دوسرا ہے آپسی رنجشوں کا اختتام۔ مسجد میں چھوٹی چھوٹی رنجشیں ختم ہوجاتی ہیں جب ایک ہی صف میں ہر قسم کے لوگ کھڑا ہوجاتے ہیں جس میں ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ وہ نفرت بھول کر ایک ہی خدا کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ہے مسجد کا دوسرا وصف جو سماجی ناہمواریوں کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔
تیسرا ہے عاجزی۔ اللہ کے حضور جب انسان اپنا سر جھکا لیتا ہے تو اسے اس وقت اپنی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس پریہ واضح ہوجاتا ہے کہ میرے اوپر ایسی ذات کار فرما ہے جس کے حضور میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ میری ساری چیزیں میری اپنی نہیں ہیں۔ میں ہر چیز کے لیے اسی ذات کا محتاج ہوں۔ دنیا کے مناصب اور یہ دولت اور ثروت کی محفلوں پر نازاں ہونے کی کوئی بھی بنیاد نہیں ہے جب میں خود بے بنیاد ہوں۔
چوتھا ہے انفرادی شخصیت سازی ۔مسجد میں حدود میں رہنا سکھایا جاتا ہے۔ جب انسان مختلف قسم کے دروس سنتا ہے تو اس میں حد میں رہنے کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے اس میں خود احتسابی کا مادہ جنم لیتا ہے اور باہری ساخت پر بھی نمایاں اثرات پڑھتے ہیں۔ اس سے جینا آسان ہوجاتا ہے اور سماجی برائیوں کا بھی قلع قمع ہوجاتا ہے۔ لوگ کوئی بھی برا کام کرنے سے پہلے سوچتے ہیں اور اگر کریںبھی تو انجام کا ڈر ان کو اگلی بار اس سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
پانچواں ہے آخرت کی فکر۔ مسجد دنیا میں ایک ادارہ ہے مگر اس کے اثرات آخرت پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسان دنیا میں رہ کر آخرت کی فکر کرتا ہے اور فانی دنیا سے زیادہ محبت بھی نہیں کرتا ہے۔ دنیا کی ناپائیداری کے بارے میں سارے معلومات صاف ہوجاتے ہیں۔ اتنے فوائد کے باوجود ہم نے مسجد کو صرف مقدس جگہ سمجھا ہے۔ البتہ جب حالات خراب ہوجاتے ہیں تب اس کا تقدس پامال ہوجاتا ہے۔
صرف پانچ وقت کے لئے آنا مسجد کا بنیادی مقصد ہے ہی نہیں۔ مسجد پورا سال کھلی رہنی چاہیے تاکہ یہ ایک منظم ادارہ کی طرح کام کرے۔ یہ حکمت کا مرکز بنے۔ دنیاوی اور دینی مسائل کی کھوج میں علماء وہاں محو رہیں۔ فرصت کے لمحات میں وہاں بیٹھا جائے۔ وہاں مختلف کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ہمارے لئے کچھ مخصوص اوقات پر مسجد جانا ہی مسجد کا واحد مقصد نہیںہے۔ اس کے علاوہ کسی مہمان کو کسی موقع پر بلانا اور پھر کچھ وقت بتانا ہمیں قیام مسجد کا باعث نظر آتاہے۔ یہ سطحی سوچ ہے۔ اس سے اوپر اٹھنا ضروری ہے۔
مسجد کو ایک منظم اور متحرک ادارہ بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ سماجی مسائل کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے اگر ہم مساجد کو فعال بنائیں۔ وہاں تربیت کے سامان مہیا رکھیں اور بحث و مباحثہ کا ڈر بھی کھلا رکھیں۔ نوجوانوں کو اختلاف کے اصول سکھائے جاسکتے ہیں اور سماج کی حقیقی نشوونما کی طرف مائل ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے سب کو آگے آنا ہوگا اور اس ادارے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہوگا۔ یہی وقت کی ضرورت بھی ہے۔
رابطہ۔حاجی باغ، بڈگام کشمیر
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)