سرینگر// لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہاہے کہ کہ حال ہی میں جموں کشمیر میں پولیس چیف نے ایک بیان دیا تھا جس میں موصوف نے کہا تھا کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں پر حملہ کرنا اور انہیں تنگ طلب کرنا بہرصورت غیر اخلاقی عمل ہے جس سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔لیکن اُن کے اس بیان کے آنے کے بعد ہی بھارتی پولیس اور فورسز نے مزاحمت میں شامل لوگوں کے گھر والوں،خاندانوں اور رشتہ داروں پر حملے تیز تر کردئے ہیں جس کی وجہ سے دونوں اطراف سے اس قسم کے حملے اب ایک عام بات بن چکے ہیں۔یاسین ملک نے کہا کہ ۱۹۸۸ء سے قبل بھی پولیس اور فورسز مزاحمتی خیمے سے وابستہ پرامن جوانوں کے گھر والوں، رشتہ داروں والدین اور بھائی بہنوں کو گرفتار کرتے تھے،انہیں تذلیل و تحقیر کا نشانہ بناتے تھے اور جیلوں کی نذر کردیتے تھے ۔یہی ظلم و جبر بالآخر ۱۹۹۰ء میں ایک عوامی انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا جس نے اس خطے کی تاریخ ہی کو بدل ڈالا۔یاسین ملک نے کہا کہ ۱۹۹۰ء کے بعد سے اب تک مزاحمت میں شامل لوگوں کے گھروں اور گھر والوں پر دھاوا بول دینا ایک عام بات بن چکی ہے اور خاص طور پر ۲۰۰۸ء کے بعد سے پولیس اور فورسز نے بھائی کے بدلے بھائی،باپ کے بدلے بیٹا اور بیٹے کے بدلے باپ کو گرفتار کرنا اور مزاحمت میں شامل لوگوں کے گھروں پر حملے کرنا اپنا معمول بنارکھا ہے۔ترال اور جنوبی کشمیر کے دوسرے مقامات پر مزاحمتی جوانوں کے گھر والوں پر کئے گئے حملوں جس دوران شیر خوار بچوں تک کو بخشا نہیں گیا کو اس جبر کی تازہ مثال قرار دیتے ہوئے ‘ جے کے ایل ایف چیئرمین نے کہا کہ اب سید صلاح الدین کے بیٹے کو سات برس پرانے کسی کیس میں ڈال کر این آئی اے کے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے جو واضح طور پر سیاسی انتقام گیری اور باپ کے بدلے بیٹے پر عتاب نازل کرنے کا مذموم عمل ہے۔یاسین ملک نے کہا کہ بھارت اور اسکے حامیوںکو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس قسم کے ظلم و جبر سے وہ عوامی آواز کو دبا نہیں سکتے ہیں اور یہ کہ یہ ہتھکنڈے ماضی میں بھی ناکام ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ناکام و نامراد ہوکر رہیں گے۔