سرینگر//مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے حریت پسند سیاسی قیادت کے خلاف سٹنگ آپریشن کا آغاز کرنے کے لئے پولیس ٹاسک فورس اور آرمی انٹلی جنس ایجنسی کو سرگرم کئے جانے کی ظالمانہ کارروائی پر اپنی گہری تشویش اور فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی قیادت کی پُرامن سیاسی سرگرمیوں کیلئے فوج اور پولیس ٹاسک فورس کو میدان میں جھونک دینا سیاسی قیادت کو قتل کرنے یا جیل بھیج دینے کی ایک گہری سازش کا حصہ ہوسکتا ہے۔ مزاحمتی قیادت نے پچھلے ایک دو روز سے مذکورہ ایجنسیوں کی طرف سے حریت قیادت کے خلاف شبانہ چھاپہ مار کارروائیوں یا دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز پر اپنا شدید ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر ماس مومنٹ کی خاتون سربراہ فریدہ بہن جی کے گھر پر بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی میں سوار دو نوجوانوں کی طرف سے 2لاکھ روپے نقدی یہ کہہ کر فراہم کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس رقم کو ماس مومنٹ کے لئے بھیج دیا گیا ہے۔ فریدہ بہن جی نے رقم لینے سے انکار کیا اور مذکورہ اشخاص یہاں سے فرار ہوگئے۔ مزاحمتی قیادت نے حریت رہنماؤں کو بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے اس قسم کے سٹنگ آپریشن کو ایک مہلک سازش قرار دیتے ہوئے اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی۔ مزاحمتی قیادت نے دہلی کے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں مقید الطاف احمد شاہ کے گھر پر شبانہ چھاپہ مار کارروائی کے دوران اہل خانہ کو ہراساں کرنے کی کارروائی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تلاشی لینا اور اہل خانہ کو پریشان کرنا ایک شرم ناک اور بزدلانہ حرکت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔مزاحمتی قیادت نے حریت ترجمان اعلیٰ غلام احمد گلزار کو ائیر کارگو سرینگر کی طرف سے ٹیلی فون کے ذریعے SOGکے دفتر پر حاضر ہونے کے لیے کہا گیا۔ حریت رہنما نے SOGاہلکار کو دفتر پر ھاضر نہ ہونے کی یہ وجہ بتائی کہ وہ اس طرح فون کال پر حاضر نہیں ہوسکتے، البتہ اپنی رہائش گاہ کا ایڈرس بتاتے ہوئے گرفتار کئے جانے کی پیشکش سامنے رکھی۔ اس پیشکش کے جواب میں SOGاہلکار نے بتایا کہ ان کے پاس کئی اور طریقے بھی ہیں دیکھا جائے گا۔ یہ کہہ کر فون کاٹ دیا گیا۔ مزاحمتی قیادت نے اسی طرح کے ایک اور فون کال کے ذریعے سوپور میں SOGنے سینئر حریت پسند رہنما شبیر احمد ڈار کو حاضر دفتر نہ ہونے کی پاداش میں ایک شبانہ چھاپہ مار کارروائی کے ذریعے گرفتار کرکے حوالات میں مقید رکھا ہے۔ مزاحمتی قیادت نے ریاست کے کئی ایک اضلاع سے حریت پسند رہنماؤں اور اراکین کو SOGاور آرمی کیمپوں پر حاضر ہونے کے لیے دھمکی آمیز کارروائیوں میں شدّت لائے جانے کو ایک سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے اِسے آزادی اظہار رائے پر فوجی پہرہ بٹھانے کی ایک گھناؤنی سازش سے تعبیر کیا گیا جس پر اگر بروقت روک نہیں لگائی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔