جی ہاں!سال ِ گذشتہ کے دوران ہی وادیٔ کشمیر میں بجلی کےبحران کی جو کیفیت چلی آرہی تھی ،اُس نے موسم سرما کے آتے ہی سنگین صورت اختیار کرلی اور لوگوں کو درپیش مختلف بنیادی مسائل میں اضافہ کرکےپریشانیوں میں مبتلاکرڈالا تھا توبا لآخریہاں کی موجودہ سرکاری انتظامیہ کی طرف سے بجلی سپلائی کے لئے ایک کٹوتی شیڈول جاری کردیاگیا تھا ،جس کے تحت صارفین بجلی کومنظم طریقے پر مقررہ اوقات میںبجلی فراہم کرنے کا بھرپور یقین دلایا گیا تھا۔لیکن روایت کے تحت اُس شیڈول پر منظم طریقے پر عملدرآمد نہ ہونا تھا اور نہ ہو ا، بلکہ جہاں کہیں دن ورات میں سولہ گھنٹے بجلی سپلائی جاری رکھنی تھی ،وہاں دس بارہ گھنٹے تک بھی بجلی نہ پہنچی ،اسی طرح شیڈول کے مطابق جہاں مقررہ اوقات پر تین تین گھنٹے تک بجلی مہیا رکھنی تھی وہاں محض دودو گھنٹےتک ہی بجلی فراہم کی گئی،جبکہ بعض اوقات پورے پورے دن تک بجلی کی سپلائی بند رکھی گئی اور اس طرح مروجہ بجلی کٹوتی شیڈول کو بھی ایک تماشہ بنایا گیا ،جس کے نتیجے میںوادی کے اطراف و اکناف کےبیشتر علاقوں میں پینے کے پانی کی بہم رسانی کا مسئلہ بھی پیچیدہ ہوتاگیا،کیونکہ اکثر علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کے گھروں میںبغیر بجلی موٹر کے پانی حاصل ہوتاتو نہیں ہے،جبکہ بجلی کی نایابی سے وہ موٹر بھی بے کار پڑے رہے اور پینے کے صاف پانی کے حصول کے لئے لوگوں کوطرح طرح کے جتن کرنے پڑ ے۔حالانکہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ موجودہ جدید دور میں بجلی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے ،جس سے اب کسی بھی انسان کو چھٹکاراحاصل نہیں ۔روز مرہ زندگی میں صبح سے شام تک جتنی بھی چیزیں عام طور استعمال میں آتی ہیں،تقریباً ساری چیزیں بجلیوں ہی سے چلتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ترقی پذیر ملکوں میں پانچ دس منٹ کے لئے بجلی چلی جاتی ہے تو وہاں ہاہا کار مچ جاتی ہے اور اگر کچھ گھنٹوں کے لئے غائب رہے تو قیامت ِصغریٰ قائم ہوجاتی ہے ،زندگی تھم جاتی ہے،سانسیں رُکتی ہیں اور دم گھٹنے لگتا ہے۔ اگر ترقی پذیر ملکوں پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بھی اب بجلی ہی انسانی زندگی کے لئے ہر موڑ پر مسرتوں کا سامان فراہم کرتی ہے۔ظاہر ہے کہ بجلی کی عدم موجودگی میں زندگی مُرجھا جاتی ہےاور نظامِ زندگی کاتقریباً ہر شعبہ متاثر ہوجاتا ہے ،جس کا براہِ راست اثر عام لوگوں پر پڑتا ہے۔اب اگر جموں و کشمیر خصوصاً وادیٔ کشمیر کی بات کریں تو جہاں گرمیوں میںعموماً بجلی کی صورت حال ناپائیدار رہتی ہے،وہیں سردیوںمیںبجلی کی موجودگی کا مسئلہ پیچیدہ بن جاتا ہے۔چنانچہ گذشتہ سال کے دوران بھی بجلی کی عدم موجودگی کے خلاف جب جب عوامی ردِعمل سامنے آتا رہا تو موجودہ سرکاری انتظامیہ نے بھی وہیں روایتی باتیں سُنانا شروع کردیں جو یہاں کی سرکاریںپچھلی نصف صدی سے لوگوں کو سُناتی چلی آرہی تھیں۔بلکہ اس بار بجلی کی کمیابی ،اس کی پیداوار میں کمی ،اس کی چوری، ،فیس کی وصولیابی ،شمالی گرڈ کے قرضے اور مزید بجلی خریداری کے متعلق سرکاری رپورٹیں ، تفاصیل، دلیلیں اور وضاحتیں بھی عوام کے سامنے لائی گئیں تاکہ وادیٔ کشمیر کے صارفین بجلی کی طوطی بند ہوجائے، جبکہ انتظامیہ کی طرف اعلاناً کہا گیا کہ سردیوں کےرواں موسم میں صارفین ِ بجلی کو شیڈول کے مطابق بجلی فراہم ہوگی اورمیٹر شدہ اور غیر میٹر شدہ علاقوں کے لئے نافذ مقررہ سپلائی شیڈول پر سختی کے ساتھ عملدرآمد ہوگا۔مجبوراًصارفین ِبجلی نے سرکاری اعلانات پر اکتفا کرکے مقررہ شیڈول کے تحت اپنے روز مرہ زندگی کے ضروری کام کاج نمٹانےکا طریقہ اپنا لیا ۔لیکن قریباً پانچ مہینے گذرنے کو آرہےہیں کہ شہر اور دیہات کے مختلف علاقوں سےصارفین بجلی کو مقررہ شیڈول کے مطابق بجلی نہیں مل رہی ہےاور مقررہ شیڈول کے دوران بھی آنکھ مچولی دیکھنی پڑرہی ہے۔خصوصاً جن علاقوں میں میٹر نصب نہیں ہوئے ہیں ،وہاں کے صارفین بجلی کے ساتھ تو بالکل سوتیلا سلوک جاری رکھا گیا ہے۔کٹوتی دَر کٹوتی شیڈول کے تحت جب دو گھنٹے تک بجلی سپلائی جاری رکھنی ہوتی ہے تو اب محض ایک گھنٹہ تک ہی رکھی جاتی ہے اور یہ سلسلہ ہر بریک ڈاون وقفہ کے دوران جاری رکھا جارہا ہے۔ حالانکہ مقررہ فیس کو تِگنا کرکے سختی کے ساتھ وصولی ہورہی ہے،ناجائز استعمال پر قدغن لگ چکی ہے،میٹروں کی تنصیب بھی جاری ہےلیکن اس کے باوجود صارفین کو بجلی فراہم نہیں ہورہی ہے۔بجلی سپلائی کا یہ تماشہ افسوس ناک بلکہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔