سبزار احمد بٹ
مرزا بشیر احمد شاکر 8 مئی 1950 کو سرینگر میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام مرزا غلام محی الدین بیگ ہے۔ کشمیر کے جنتے شعرا، ادبا، اور قلمکاروں نے اردو اور کشمیری زبان و ادب کی خدمت کی ہے اور ان زبانوں کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے یا جتنے بھی اقبال شناس ہیں، ان میں مرزا بشیر احمد شاکر کا نام سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے
بشیر صاحب سے میرا تعارف سوشل میڈیا کےذریعے ہوا۔ ایک دن میں نے ایک پوسٹ دیکھی ،جس میں چند کتابوں کا کور پیج اپلوڈ کیا گیا تھا۔ ان کتابوں کے نام پڑھتے ہی بشیر صاحب سے ملاقات کا تجس بڑھ گیا۔ میں نے کسی طرح سے ان کا نمبر معلوم کیا اور ان سے بات کی۔ انہوں نے جس محبت اور خلوص سے بات کی ، اس سے ملاقات کا تجسس اور بھی بڑھ گیا۔ ایک دن میں اپنے ایک دوست کو لے کر ان کے دولت خانے پر حاضر ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات ہوئی ۔ لیکن ایسا لگا کہ جیسے سب کچھ ادھورا ادھورا رہ گیا ۔ اس پوری ملاقات کے دوران ان کے فرزند جس طرح سے اپنے والد صاحب کی محبت میں ان کے ایک ایک حکم کو تعمیل کرتے تھے ،وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ میں جب ان کے کتب خانے میں داخل ہوا تو وہاں پر ان کی علم دوستی کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا۔میں کتابوں کے اس ضخیم خزانے کی طرف دیکھ ہی رہ تھا کہ ایک تختی پر نظر پڑھی جس میں صاف صاف یہ درج تھا کہ ’’ کتابیں ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں ‘‘ یہ دیکھ کر میرے ہونٹوں پر ایک من موہن سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔خیر نکلتے وقت مرزا بشیر شاکر نے مجھے اپنی چند کتابیں تحفتاً پیش کیں اور مجھے کتاب مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑھی۔ ان ہی کتابوں میں ان کی ایک کتاب گلرنگ بھی ہے ۔زیر تبصرہ کتاب گلرنگ علمی ادبی مضامین اور تبصروں پر مشتمل ہے۔ کتاب میں پروفیسر اکبر حیدری، کے پی شمس الدین ، جسٹس جاوید اقبال ،پروفیسر غلام بنی فراق، مرحوم نور محمد جیسی عظیم علمی ادبی شخصیات پر مدلل اور مفصل مضامین لکھے گئے ہیں ۔ ان شخصیات میں چند ایک کے مزرا بشیر احمد شاکر کے ساتھ مراسم بھی رہے ہیں، ان کا بھی خوب ذکر آیا ہے۔ کتاب میں شامل ایک مضمون کتاب خانہ اکبر حیدری الکشمیری پڑھ کر مرزا بشیر احمد کی علم دوستی اور کتاب دوستی کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے ۔مصنف نے اس مضمون میں ان تمام کتب خانوں کا حوالہ دیا ہے اور چند ایک کتب خانوں کے بارے میں تفصیل سے بھی لکھا ہے ،جن میں مصنف کو جانا نصیب ہوا ہے یا جن کتب خانوں سے مصنف نے استفاده کیا ہے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ مصنف نے کتابوں کو ہی اپنا اوڑھا بچھونا بنایا ہے۔ سیکنڈوں کتب خانوں کی خاک چھانی ہے۔ مذکورہ کتاب میں ’’ جسٹس جاوید اقبال سے ایک یادگار ملاقات ‘‘ نام کا بھی ایک شاندار مضمون شامل ہے۔جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ مرزا بشیر احمد شاکر صاحب ایک قابل قدر اقبال شناس ہیں ،موصوف کو تین بار پاکستان جانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ یاد رہے کہ یہ اسفار محض علمی اور ادبی اسفار تھے۔ پاکستان جا کر موصوف نے نہ صرف علامہ اقبال کے مقبرے کی زیارت کی ہے بلکہ علامہ کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال اور صاحبزادی منیرہ بیگم سے بھی ملاقات کی۔ مصنف نے اس ملاقات کی پوری تفصیل اس مضمون میں پیش کی ہے کہ کس محبت سے مصنف جسٹس جاوید اقبال کے بغلگیر ہوئے ہیں اور کتنی محنت اور مشقت سے موصوف نے کیمرہ حاصل کر کے جسٹس اقبال اور منیرہ جی کے ساتھ تصویریں لی ہیں ۔ جسٹس اقبال کی شخصیت سے متاثر ہو کر مرزا بشیر شاکر نے جاوید اقبال کی شخصیت پر بھی ایک شاندار مضمون لکھا ہے ۔ علامہ اقبال سے موصوف کی اس قدر عقیدت ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال کے خادم علی بخش پر بھی ایک شاندار مضمون تحریر کیا ہے۔ یاد رہے کہ علی بخش خود کہتے ہیں کہ میں نے چالیس سال تک علامہ اقبال کی خدمت کی ہےاور علی بخش نے علامہ اقبال کے ساتھ پیش آئے روحانی حالات و واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔ علی بخش آخری ایام میں بھی علامہ اقبال کے ساتھ رہے اور جب علامہ نے رحلت فرمائی، اُس وقت علی بخش علامہ کے پاؤں سے لپٹ کر روئے تھے ۔یہ سب اس انداز میں لکھا گیا ہے کہ آلِ اقبال کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے قاری بھی مصنف کے ساتھ رہا ہو۔ یاد رہے کہ مرزا بشیر احمد نے چالیس سال تک محکمہٴ ڈاک میں کام کیا ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس محکمہ کی رگ رگ سے واقف ہیں ۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے محکمہ کی خامی کے بارے میں انسان قلم نہیں اٹھاتا ہے جبکہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ موصوف نے بڑی بے باکی سے محکمہ ڈاک کے خامیوں کی نشاندہی کی ہے ۔مصنف نے اپنی اس کتاب میں فانی کشمیری کی کتاب ’’ حباب ‘‘ کا بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اور ماہنامہ ’’ حکیم الامت ‘‘ کا بھی تبصرہ کیا ہے ۔یاد رہے کہ یہ پروفیسر اکبر حیدری کی ادارت میں شائع ہونے والا ایک معتبر رسالہ ہے۔ پروفیسر اکبر حیدری کی وفات کے بعد یہ رسالہ ان کے فرند جناب ظفر حیدری کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔کتاب کے اس دوسرے حصے میں مصنف نے اقبال نادر معلومات، معرکہ اسرار خودی، اقبالیات اور زمانہ کانپور، کتابیں ہمنشیں میری، اور علامہ اقبال کے دیس میں جیسے شاندار ،علمی اور معلومات سے بھرپور مضامین بھی لکھے ہیں ۔ منجملہ طور ہر دیکھا جائے تو یہ کتاب اردو ادب میں ایک قابل قدر اور قابل سراہنا کتاب ہے۔ کتاب میں اگر چہ مختلف شخصیات اور ان کے علمی ادبی کارناموں کے بارے میں لکھا گیا ہے اور کتاب مرزا بشیر احمد شاکر کی کتب بینی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے، تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کتاب کا پیشتر حصہ اقبالیات پر منحصر ہے۔ کتاب میں شامل مضمون ’’درجواب غلام رسول بانڈے ‘‘ میں چند علمی نقطوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ علامہ کے بارے میں پیدا ہونے والی چند غلط فہمیوں کا جواب دلائل کے ساتھ دیا گیا ہے اور علامہ نے جو اشعار حضرت سید حسین مدنی کے بارے میں زیب قرطاس کئے ، ان کی وجہ محض ایک غلط فہمی بتائی گئی اور بعد میں علامہ کی اس وضاحت کا بھی حوالہ دیا گیا جو روزنامہ احسان لاہور میں شائع ہوئی تھی۔ اس طرح سے غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن اس مضمون کے جواب میں غلام رسول بانڈے نے جو مضمون شاکر صاحب کے نام لکھا، وہ بھی شامل کتاب ہے۔ جس میں بانڈے صاحب نے برہمی کا اظہار کیا ہے اور بشیر احمد شاکر سے متفق ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ خیر اس طرح سے یہ بحث آگے بڑھنے کے امکانات اور بھی روشن ہوجاتے ہیںاور کچھ نئے فکری زاویے ابھر کر سامنے آنے کے امکانات اور بھی روشن ہو جاتے ہیں ۔اس کتاب کے مطالعہ سے مرزا بشیر شاکر صاحب کی اقبال شناسی اور اقبالؒ سے ان کی عقیدت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔مزرا بشیر احمد شاکر کے وسعت ِقلم کا اندازہ اس کتاب کا انتساب دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے، انہوں نے اپنی اس کتاب کا انتساب ان غیر مسلم قلمکاروں کے نام کیا ہے جنہوں نے لسانی تعصب سے بالاتر ہو کر اردو زبان و ادب کے گیسو سنوانے میں ایک کلیدی رول ادا کیا۔
مذکورہ کتاب کا پیش لفظ پروفیسر حمید نسیم رفیح آبادی نے لکھا ہے جبکہ پروفیسر اکبر حیدری اور ایس ایم رحمان شمس جیسی شخصیات نے اس کتاب پر اپنے تاثرات پیش کئے ہیں۔ ان تاثرات سے کتاب کی اہمیت اور بھی مسلم ہوتی ہی۔
(نوٹ) میں ایک وضاحت کرنا چاہوں گا کہ اس سے پہلے میں نے مرزا بشیر احمد شاکر کے تخلیقی سفر پر ایک مضمون لکھا تھا۔جس میں میں نے یہ لکھا کہ موصوف نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کر کے محکمہ ڈاک میں ملازمت حاصل کی اور تعلیم کا سلسلہ منقطع کیا۔جبکہ درست یہ ہے کہ موصوف نے ملازمت کے بعد بھی نجی طور پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا)
[email protected]