’’مرد مومن‘‘ علامہ اقبال کا ایک ایسا وسیع وعریض تصور ہے کہ جس کا احاطہ کرنا مجھ جیسے حقیر انسان کے لئے تو کیا بلکہ اُن کے لئے بھی دشوار ثابت ہوا ہے جن کا نام علم وادب کے آسمان پر سورج کی مانند تاباں ودرخشاں ہے۔ اقبال کے دیگر تصورات کی طرح اُن کا یہ تصور بھی صدفیصد قرآنی ہے اگر چہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے ’’ مردِ مومن‘‘ کا تصور نٹشے ؔ کے تصور ’’فوق البشر‘‘ سے اخذ کیا ہے جو سراسر ایک بے بنیاد خیال ہے۔ کیونکہ نٹشے ؔکے فوق البشر اور اقبال کے مردِ مومن کے درمیان ایک بہت بڑا خلاپایا جاتا ہے جس کو کسی بھی طرح پُر نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر غلام قادر لونؔ کے بقول:
’’مردِ مومن جلال وجمال کا پیکر جمیل ہے وہ تمام دنیا
سے نبرد آزما ہو کر دنیا میں زندگی کا وہ دستور نافذ
کرنا چاہتا ہے جو خدانے نازل کیا ہے۔ نٹشے کا فوق
البشر اخلاقی اصولوں سے آزاد ہے جبکہ مردِ مومن اخلاقی
اصولوںکامحافظ اور سراپارحمت ہوتا ہے‘‘ (نٹشے اور اقبال)
نٹشے کا فوق البشر دنیا سے بے زاری اور رہبانیت کا تصور ہے جبکہ اقبال کا مردِ مومن عمل پیہم اور جہد مسلسل کا علمبردار ہے، فوق البشر اپنے ذاتی اور انفرادی دائرے میں محدود کردار کا نام ہے جو صرف اپنے اندر انقلاب کا متمنی رہتا ہے۔ اِس کے برعکس مردِ مومن اجتماعی اور قومی سطح پر انقلاب برپا کرنے کے لئے نہ صرف فکر مند رہتا ہے بلکہ بے شمار دشواریوں کا سامنا ہونے کے باوجود دنیا میں انقلاب لانے کی سعی وکوشش کرتا ہے۔ نٹشے کا فوق البشر جہاں نا امیدی اور مایوسی کا پیکر ہے وہاں اقبال کا مرد مومن ہر گھڑی قوموں کے لئے انذارو تبشیر کا کام انجام دیتا ہے۔ ؎
اے بندۂ مومن ! تو بشیری، تونذیری!
مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے اپنی مشہور تصنیف ’’نقوشِ اقبال‘‘ میں مردِ مومن کی انفرادی شان اور خصوصیت کا یوں ذکر کیا ہے۔
’’ اقبال کے اِس مردِ مومن اور ’’مسلم مثالی‘‘ کو اِس
کے ایمان کی قوت اور یقین کی ناقابلِ تسخیر طاقت
دنیا کے اُن سارے انسانوں سے جو شک وریب میں
مبتلا ہیں ممتاز کردیتی ہے اور اسی طرح وہ بزدل
انسانوں کے مقابلہ میں اپنی شجاعت ومردانگی
اور روحانی قوت سے ممتاز ہے۔ (نقوشِ اقبال۔۔۔۔۔۱۰۰)
چنانچہ خود بھی علامہ اقبال نے مردِ مومن کے اندر پائی جانے والی انفرادیت اور جملہ صفات کو جابجا اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ اِن چند اشعار کو دیکھئے۔ ؎
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
۰
شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشورِ کشائی
۰
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے تابِع تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی
۰
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گُم اُس میں ہے آفاق!
۰
اِس کے علاوہ ’’ضرب کلیم‘‘ میں مون کے عنوان سے علامہ نے ایک مختصر نظم میں مومن کی صفات سے متعلق کہا ہے۔ ؎
ہوحلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
یہ بالکل وہی صفات ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مومنین کے حوالے سے قرآنِ مجید کی اِس آیت میں کیا ہے۔
مُحَمَّّدٌ رَّسُوْ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفِّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ۔
محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں وہ کفار کے حق میں توسخت ہیں مگر آپس میں رحم دل۔ (سورۃ الفتح آیت ۲۹)
اسی نظم میں آگے کہتے ہیں۔ ؎
افلاک سے ہے اِس کی حریفانہ کشا کش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کُنجشک وحمام اِس کی نظر میں
جبریل وسرافیل کا صیاد ہے مومن
علامہ اقبال نے مردِ مومن کو اور بھی کئی القاب دیے ہیں۔ جیسے مردِ خدا، فردِ مسلمان، بندۂ حُر اور بندۂ مومن وغیرہ ۱۵؎ اور اُن کے مطابق جب دنیا پرمادہ پرستی غالب آجاتی ہے تو لوگوں کی بصارت زنگ آلودہ ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مردِ مومن اور عام لوگوں کے درمیان ایک پردہ حائل آجاتا ہے جس کی باعث مردِ مومن لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ نہ صرف موجود ہوتا بلکہ سماج میں پنپ رہی برائیوں، غلط قدروں اور طاغوت کے خلاف سرگرمِ عمل بھی ہوتا ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للِنَّاسِ تَاْ مُرُوْنَ بَا لْمُعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْ مِنُوْ نَ بِااﷲِ
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لئے برپا کیا گیا ہے۔ تم حکم کرتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو بدی سے اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر‘‘ (آلِ عمران۔۔۔۔۔۱۱۰)
اگر چہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی ٔ الحاجات
جو فقر سے ہے میسر، تونگری سے نہیں
۰
سبب کچُھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زدی سے نہیں
جاوید نامہ (اقبال کی مشہور فارسی تصنیف) میں اپنے فرزندِ ارجمند جاوید اقبال کو مخاطب بنا کر علامہ اقبال نے جس ’’مردِ حق‘‘ کی تلاش وجستجو میں سرگرداں رہنے کی تاکید کی ہے وہی ’’مردِ حق‘‘ اصل میں ’’مردِ مومن‘‘ ہے جس کی پہچان اِس مادہ پرست دور میں گُم ہوچکی ہے۔ ؎
ترسم ایں عصرے کہ تو زادی دراں
دربدن غرق است وکم داند زِجان!
چو بدن از قحطِ جاں ارزاں شود
مردِ حق درخویشتن پہناں شود!
۰
در نیا بد جستجو آں مرد را
گرچہ بیند روبرو آں مردِ را!
۰
تو مگر ذوقِ طلب از کف مدہ
گرچہ درکارِ تو اُفتد صد گرہ!
یعنی اے میرے بیٹے ! مجھے افسوس ہے کہ تو جس زمانے میں پیدا ہوا یہ زمانہ ایسا ہے کہ دنیا کی نظر جسم تک محدود ہے روح سے لوگ ناواقف ہیں۔ اور جب روح کے قحط سے بدن ارزاں ہوجاتے ہیں تو مادیت کا غلبہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مردِ حق پوشیدہ ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ اُس (مرد حق) کی پہچان گم ہوجاتی ہے۔ مگر اے میرے فرزند! تو مردِ حق کی تلاش میں ہمیشہ سرگرم عمل رہنا اگر چہ اس کام میں تجھے صدہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو اپنی طلب اور جستجو قائم رکھنا۔
سیر جاگیر سوپور
Cell No: 9858464730