پروفیسر غلامحمد شادؔ صاحب حال ہی میں آخر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ۔تقریباً اَسی سال کی بامعنی اور باوقارزندگی گزارنے کے بعدآپ کا انتقال 6اگست2017ء کوسرکاری شفاخانہ صورہ میں ہوگیا۔آپ کا تعلق یوں تو کہنے کوبجبہاڑہ کی تاریخی طور اہم اوربے حد مُرد م خیز بستی سے تھا لیکن در حقیقت آپ پوری ریاست جموں و کشمیر کے ایک نمایندہ اورمنفرد قسم کے اُستاد ، محقق،شاعر اور ادیب تھے۔آپ کا نام کالج کی طالب علمی کے زمانے تک غلام محمد ہی تھے لیکن پھر شعر گوئی شروع کرکے المتخلص بہ ’’شادؔ‘‘ ہوگئے۔ گریجویشن کرلینے کے بعد آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رُخ کیا جہاں سے آپ 1961میں بیک وقت ایم اے ہسٹری اورایل ایل بی پاس کیا ۔دراصل اُن دنوں ایم اے کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی کلاسوں کے ذریعے ایل ایل بی کیا جاسکتا تھا ۔ واپس لوٹ کر آپ کالج میں استاد ہوگئے اور 1994ء کوسبکدوش ہوگئے ۔اب مکمل یکسوئی اور فراغت کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مصروف ہوگئے ۔ سرعت کے ساتھ لکھی ہوئی چیزوں کوشائع کرواتے گئے ۔ آپ نے ہمیں جو بے حد گراں قدر کتابیں عطافرمائی ہیں ان میں ’’تصوف ۔اکھ تعارف‘‘،شاہ ہمدان ؒکی ’’چہل اسرار‘‘کامنظوم ترجمہ ’’کشف الانوار‘‘اور’شورش ِ عہد جنون‘،قرنہ پھیور،آلوملو،اندرِم ضرب،شِل تہ شیہلتھ ،وَرفعنا لَکَ ذِکرک‘جیسی نثری اورشعری تخلیقات پرمبنی کتابیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔میںذاتی طور پر مرحوم پروفیسر صاحب سے 2007ء تک کوئی خاص واقفیت نہیں رکھتا تھا، صرف اس قدر علمیت تھی کہ موصوف ایک مذہبی قسم کے راسخ العقیدہ مسلمان اور اچھے شاعر ہیں۔ اتفاق سے کشمیر یونیور سٹی کے شعبہ اقبالیات کے زیر اہتمام برپاہونے والے ایک اردو مشاعرے میں موصوف صدرِمحفل تھے جب میں بھی محفل میں مدعو تھا ۔یہ شاید 9نومبر 2007ء کے دو روزہ سمینار کا جزوِآخرتھا ۔اقبالؔ کی زمین میں پڑھی گئی طرحی غزل پر موصوف کی مجھ میں دلچسپی بڑھی،یہ تقریب اُن سے پوری طرح متعارف اورمستفید ہونے کا باعث بنی ۔پھر میں خوشی قسمتی سے جموں و کشمیر آرمڈ پولیس کے چودھویں بٹالین کاکمانڈنٹ تعینات ہوکر 2010ء میں اننت ناگ پہنچ گیا ،وہاں بھی میں نے حسبِ عادت کچھ صوبائی سطح کے ادبی سمینار اور مشاعرے منعقد کروائے۔میں نے دانستہ طور اُن مشاعروں میں اُن شعراء کی شمولیت کوترجیحی طور یقینی بنائی جن میں مقابلتاً زیادہ سادگی ،انکساری ،شرافت اور عزت ِنفس کی صفت ہے اور جو عموماً اچھے مشاعروں میں شریک نہیں ہوپاتے ۔ لہٰذا پروفیسر جی ایم شادؔکو مدعو کرنا اور اُن کی صدارت میں بڑے بڑوں کی شرکت کا بھی اہتمام ہوا۔شادؔ صاحب بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوئے۔دراصل انہوں نے میرے پہلے اردو شعری مجموعے ’’صبا صورت‘‘کے شائع ہونے پر ایک سال پہلے سے ہی میری طرف التفات اور محبتوں کا سلسلہ شروع کررکھا تھا ۔انہوں نے مشاعرے میں ضعیف العمری کے باوجود اختتام تک موجودگی کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی تمام مطبوعہ تصانیف سے بھی نوازا بلکہ اُن پر مجھ سے قلم اٹھانے کی خواہش بھی ظاہر کی ۔کئی سال بعد بھی میں ہمہ وقتی محکمانہ مصروفیات کے باعث اُن کے حکم کے تعمیل نہ کرسکا ،البتہ پھر ایک بار فون پر اُن سے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ خدا نے چاہا تو مستقبل ِ قریب میں کسی بھی صورت میں لکھوں گا ۔یہ چند سطور بھی اُسی میثاق کا ہی نتیجہ ہیں۔
پروفیسر شادؔ صاحب کی مہارت اور دلچسپیاں دیگر شعبہ جات میں سے خاص طور پرتصوف ،کشمیر کی تاریخ ،الٰہیات ،اسلامیات ،فارسی اردو اور کشمیری شاعری وغیرہ میں نمایاں رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف میں اگر ’’تصوف۔اَکھ تعارف‘‘،’’مولا نکون‘‘اور متعدد کشمیری شعری مجموعے ہیں جن میں سے ’’شِل تہ شہلتھ ‘‘کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اردو میں بھی آپ کی شاعری کو خوب صورت شعری مجموعہ منظر عام پر آکر دادِتحسین حاصل کرچکا ہے ۔ آپ نے تراجم بھی کئے مثلاً فیض احمد فیضؔ کے منتخبہ کلام کو ’’شعلۂ آواز‘‘کے نام سے اور حضرت شاہِ ہمدان کے ’’چہل اسرار‘‘کو ’’کشف الانوار‘‘کے نام سے منظوم پیرائے میںعلمی وادبی دنیا کو سونپ دئے ۔حضرت شیخ العالم ؒکی شاعری کو اردو میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر چشم کشا نوٹس بھی لکھے ہیں ۔اسی طرح سے سلام کاکہ پوری کی شاعری کو ’’بشنوازنے‘‘کے نام سے جب کہ ساہتیہ اکیڈمی کے لئے’’مولوی انور شوپیانی‘‘اور ’’احد زرگر‘‘کے مونو گراف بھی شائع کروادئے ۔تاریخ کے پرفیسر کی حیثیت سے بھی مقالے لکھے اور کشمیر سے باہر جاکر بھی سمیناروں میں مقالات پڑھے اور شائع کروائے ۔سستی شہرت سے متنفر ہوتے ہوئے بھی گم نامی کے عالم میں نہیں رہے۔عوامی سطح پر تیز نظر رکھنے والوں کے محبوب رہے ،کشمیری شاعری ’شل تہ شہلتھ ‘‘ کے لئے انہیں ریاستی کلچرل اکیڈیمی کی جانب سے بہترین کتاب کا ایوارڈ ملا ، عوامی سطح پربھی حضرت شیخ العالم کی خوبصورت شاعری کے اردو ترجمے اور شرح و توضیحات کے باعث انہیں بھرپور مقبولیت اور عزت بھی ملی ہے ۔بہ ایں ہمہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرحوم پروفیسر صاحب کو کشمیر کی ادبی تاریخ اور تنقیدی تذکروں وغیرہ میں شاید اکثر اوقات کوئی بھی جگہ نہ ملی ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موصوف عصری سماج میں بعض شعراء و ادبا ء کی ریا کارانہ اُچھل کود سے متنفر تھے اوور صوفیائے کرام کی طرح نامساعد حالا ت میں گوشہ نشینی کوہی بہتر سمجھا لیکن میرے خیال میں اس سے بھی اہم تر اور بنیادی سبب یہ رہا ہے کہ شادؔ صاحب مرحوم زبردست تخلیقی اور علمی صلاحیتوں کے باوجود عجلت پسندی اور زودگوئی کے شکارتھے اور صرف اور صرف معیاری اور منتخب مواد کو ہی شائع نہیں کیا بلکہ انہوںنے شاید دیگر کالج اوریونیورسٹی پرفیسر صاحبان کی طرح ضرورت سے زیادہ فرصت مہیا ہونے اور اشاعت کے لئے رقومات کی فکر نہ ہونے کے باعث ضرورت سے زیادہ تصانیف اور تحریری مواد کو منظر عام پر لایا ۔شعری تخلیقات کے سلسلے میں تو خاص طور سے معیار کی طرف ہمیشہ دھیان نہیں دیا ،تقریباً پچاس سال پہلے معیاری غزلیں اور نظمیں تخلیق کرنے والے اس شاعر نے بعد میں رسائل اور مشاعروں میں شرکت نہ کرکے ادبی دنیا کا زبردست نقصان کیا کیونکہ معاصرین کے رد عمل کی روشنی میں ہی خوب سے خوب تر لکھنے کی تحریک اور توفیق ملاکرتی ہے ۔اگر کوئی مشاعرہ ہوتا تو پچاس سال میں عرش پرپہنچی یا پہنچائی گئی ہوتی لیکن شادؔ صاحب ایک کہنہ مشق شاعر ہوتے ہوئے رفتہ رفتہ صحافتی قسم کا ادب تخلیق کرتے رہے، جس کا میں نے پورے خلوص سے راست اظہار بھی کیا تھا لیکن تب تک بہت تاخیرہوچکی تھی۔پروفیسر غلام محمد شادؔ کی اردو شاعری اگرچہ مقدار کے لحاظ سے اردو سے بہت ہی کم ہے لیکن قابل ِستائش ہے ۔تقریباً پونے دو سو صفحات پر پھیلی ہوئی اس شاعری میںغزلیں ،نظمیں ،مزاحیہ منظومات اور متفرقہ اشعار بھی شامل ہیں ۔آپ کی غزل کے چند اشعار پر غور فرمایں ؎
سچ کہنے کو دل ترسے ہے اور رونے کو ترسے آنکھ
اشک کے دریا خشک ہوئے اے مولا کیسے برسے آنکھ
اپنی درگت کیا ہوجائے نکلیں گر بازار تلک
ہر اک پگ پر روکے سپاہی تاکے ہر بنکر سے آنکھ
اللہ تعالیٰ مرحوم کو مغفرت فرمائے اور ہمیں توفیق دے کر ایسے حق گو اور باکردار شعراء و ادباء کی منتخبہ تخلیقات کو عقیدت کے ساتھ پڑھیں اور ان کی تشہیر بھی کرتے رہیں۔آمین
موبائیل 9419027593