بہار اپنے جوبن پر تھی اور میں صبح سویرے اپنے باغیچہ میں انگور کے تنے پر بیٹھا، مناظرِ فطرت میں مگن تھا۔ قریب ہی ریڈیو کشمیر سے کوئی نغمہ سرا تھا ؎
ام لولہ نیایِک آو لن یِر واجِنس گتِہ لاجِنَس
شِنہ مان ہنِہ ہنِہ گاجِنس پد مان ولیس مَد واجِنس
یَمِہ زندگی ہندی سُنی وگنی سمیُک مژرکُن پان میون
کِمَہ تام دُل مُل آمِہ ہژ کَتِہ کھاجِنَس کَتِہ واجِنَس
آواز کوئل کی کوک اور بلبل کی چہک سے زیادہ دلکش تھی۔ پھر حسین و جمیل الفاظ کے مناسب دروبست میں حقائقِ حیات کی آئینہ داری نے میرے دل کی اَتھاہ گہرائیوں کو گدگدایا۔ میری آنکھوں میں آنسواُمڈ آئے۔ میں نے انہیں ٹوکا کہ مت رو۔ اس پر دونوں آنکھیں چھلکنے لگیں۔ آخر میں جب غزل کا یہ مقطع سنا ؎
آدن چھُ وُنِہ تَس دِلبَرس وعدن وَفا نوزُک کتھا
نازُکؔ چُھ آخر نازکُے تَم ناو بییِہ بَٹھِ ڈاجِنَس
سن کر میں چونک گیا۔ یہ جناب نازکیؔ صاحب کی غزل ریڈیو سے نشر ہورہی تھی اور میں ان کے تخیلات کی وادیوں میں کھو گیا تھا۔میں پہلی مرتبہ جناب رشید نازکیؔ صاحب مرحوم سے ’’یوم نادِمؔ‘‘ کی تقریب کے موقع پر متعارف ہوا تھا۔ یہ تقریب ہر سال بڑے تزک و اہتمام سے نادم میموریل ہائر سیکنڈری سکول کلوسہ، بانڈی پورہ میں منعقد کی جاتی ہے۔ میں اُن دنوں وہاں کا ایک عام طالب علم تھا۔ مرحوم عبدالاحد نادِمؔ کے ہی خاندان کے ایک معروف بزرگ، عالم دین اور ماہر تعلیم مرحوم عثمان فاضلی صاحب اسکول کے پرنسپل تھے۔ نادمؔ صاحب نعتیہ شاعری میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس تقریب میں افتتاحی کلمات مرحوم عثمان فاضلی صاحب نے ارشاد فرمائے تھے۔ پھر بعض علماء و ادباء نے نادمؔ صاحب کی نعتیہ شاعری کے متعلق مقالات پیش کئے اور بعض ایک نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ جناب عبدالرشید نازکی صاحب نے اس نشست میں اختصار سے اپنے مقالہ کا زُبدۃ (Gist) پیش کیا جس کو سامعین نے بہت سراہا۔ اس تقریب کی دوسری نشست میں ایک نعتیہ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا جس میں بانڈی پورہ کے معروف شعراء نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔ ان میں مرحوم غلام رسول نازکیؔ، مرحوم محمد اکبر میرؔ، مرحوم منصور تبسمؔ، مرحوم خادمؔ صاحب، آنجہانی شری در رینا زارؔ اور مہمان شعراء میں جناب پروفیسر مرغوبؔ بانہالی صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر عبدالرشید نازکیؔ صاحب اس مشاعرے کے ڈائس انچارج تھے۔ جب انہوں نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا تو سامعین نے خوب داد دی۔ بزرگ شاعر مرحوم غلام رسول نازکیؔ صاحب نے اپنا کلام پیش کیا تو سب کے دل موہ لئے ،خاص طو رپر ان کی وہ رُباعی ہمارے یہاں زبان زدِ خاص و عام ہے ؎
چھُ کعبس سنگِ اسود داغ سینس
عرق چھوس زمزمُک پشپان جبینس
سیٹھا ارمان چھوس بخشس نہ ذاتن
سعادت یُس گمژ حاصل مدینس
آنجہانی شری در رینا زارؔ صاحب نے اپنی نعت سے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ استاد زارؔ صاحب، عبدالاحد آزادؔ اور مہجورؔ کے دوستوں میں سے تھے اور بلامبالغہ ان کے ہم پلہ شاعر ۔ موصوف سنسکرت کے علاوہ فارسی، اردو اور انگریزی ادب کے غواص تھے۔ اگر ان کا اُردو اور کشمیری کلام (جسے گزشتہ تین دہائیوں سے جموں وکشمیر کلچرل اکیڈمی کے تہہ خانے میں دیمک چاٹ رہے ہیں) شائع کیا جاتا تو ہمارے ادب میں ایک نئے دبستان کا اضافہ ہوتا۔ پروفیسر نازکیؔ صاحب جب بھی مشاعروں میں استاد زارؔ صاحب کو دعوتِ سخن دیتے تو پہلے ضرور سامعین کو ان کے شاعرانہ مقام ومرتبہ سے آگاہ فرماتے تھے۔
ہاں ،تو میں بھول ہی گیا تھا کہ جب پروفیسر نازکی صاحب نے پروفیسر مرغوب بانہالی صاحب کو دعوتِ سخن دی تو انہوں نے نعت سناکر سامعین کے دلوں کو لوٹ لیا۔ موصوف کو رب العزت نے حسنِ گفتار، حسنِ کردار، حسنِ اخلاق، حسنِ صورت اور حسنِ سیرت سے خوب آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔
بانڈی پورہ کے ادباء و شعرا نے’’ مجلس ِادب‘‘ کے نام سے ایک انجمن بنائی تھی۔ جناب نازکیؔ صاحب اس انجمن کے رُوح رواں تھے۔ یہاں ہم گاہے گاہے اپنے بزرگ شعراء کا کلام سنتے اور اپنا کلام بھی سناتے تھے۔ پھر نازکیؔ صاحب، ادبی مرکز کمرازکے صدر بنائے گئے۔ ان کی صدارت میں مختلف تقریبات کے مواقع پر جو علمی مباحث، ادبی مجلسیں اور مشاعرے ہوتے، ان پر کیف محفلوں میں مرحوم پروفیسر حاجنی صاحب شمع ِمحفل ہوتے۔ یہاں ہمیں نازکی صاحب کی نثری نگارشات اور شعری کاوشوں کو سننے کا خوب موقع ملا۔ ہم بھی ان محفلوں میں اپنا کلام سناتے اور کبھی کبھی علمی اور ادبی موضوعات پر تقریریں بھی کرتے۔ تب نازکی صاحب ایک سرکاری سکول کے مدرس تھے۔ پھر موصوف کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ کشمیری کے لیکچرر اور بعد میں پروفیسر بنے۔ انہی دنوں راقم الحروف بھی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں لیکچرر بنا۔ ہم نے مرحوم کو گھر میں اور ان تمام مذکورہ مرحلوں میں قریب سے دیکھا ہے۔ آپ کشمیری، اردو، فارسی اور انگریزی ادبیات کے رمز شناس تھے۔ رومیؔ، بیدلؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے دل دادہ تھے مگر مولانا جامیؔ سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھے۔ آپ کی نعتیہ شاعری سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہر صاحب ِنظر کو آپ کی علمی و ادبی نگارشات کا مطالعہ کرتے وقت آپ کی غیر معمولی ذہانت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔برصغیر کے معروف افسانہ نگار اور نقاد پروفیسر حامدی کاشمیری مرحوم نے آپ کے متعلق بجا فرمایا ہے:
’’ایسا لگتا ہے کہ فطرت نے ان کے لیے اپنے خزانوں کے در وا رکھے ہیں۔‘‘
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
٭٭٭٭٭