آج سے چالیس پنتالیس برس پرانی بات ہے ۔میں پولیس لائنس بٹہ مالو سے گذر رہا تھا کہ اچانک میری نظریں دراز قد،گندمی رنگ، چہرے پر سجی سنوری سیاہ خوبصورت داڑھی اور سفید قمیص پاجامہ پہنے ہوئے، ہاتھوں میں بانسری اور تسبیح رکھے ہوئے ایک منفرد و مخصوص ،ظاہری جاہ و جلال اور تشخص والی، جانی پہچانی شخصیت پر ٹک گئیں یہ مولوی محمد اکرم وارہائیگامی صاحب تھے جنہیں اکرم صاحب یا ’لالہ صاؔب‘ بھی کہا جاتا تھا،جنہوں نے مجھے ،فورا ہی، ایک ہی نظر میں پہچان لیا اور سرِ راہ مجھ سے مسکراتے ہوئے، اس طرح بغل گیر ہوگئے کہ ان کے ساتھ ساتھ چلنے والے کچھ لوگ ،جن میں قریب ہی پولیس آفس میں ملازمت کرنے والے باوردی اشخاص بھی تھے، یہ دیکھکر متحیر آنکھوں سے ہمیںتکنے لگ گئے اور پھر جب اکرمؔ صاحب مرحوم نے ان سے میرا تعارف کرایا کہ یہ اشرفؔ آثاری ہیں، تو پھر وہ ایسے یکے بعد دیگرے مجھ سے ایسے گلے ملنے لگے ،جیسے ایک عرصہ سے ہماری جان پہچان ہو، حالانکہ میں انہیں بظاہر نہیں جانتا تھا۔پھر انہوں نے خود ہی وضاحت بھی کردی کہ وہ مجھ سے بہت دنوں سے متعارف ہیں کہ اکرم ؔصاحب کے چھپنے والے کشمیری شعری مجموعات میں، انہوں نے میرے پیش لفظ کئی کئی بار پڑھے ہیں ،اس لئے انہیں ناچیر کا نام ازبر ہے بلکہ ملاقات کا اشتیاق بھی رکھتے تھے۔
مولوی اکرم وار ہائیگامی سے میری جان پہچان میرے ایک عزیز عظیم الدین کے توسل سے ہوئی تھی جو بذاتِ خود ایک اچھے انسان تھے ،پڑھے لکھے، نرم مزاج،ملنسار،خداترس،حق گو الغرض ایک اچھے انسان میں موجود سب خوبیاںمرحوم میں موجود تھیں۔ ان کی اہلیہ بھی سادہ طبیعت خاتون تھی دونوں کا انتقال ہوچکا ہے۔ اللہ رب العزت مغفرت فرمائے۔اکرمؔ صاحب ان کے گھر، جو پرانے فتح کدل کے قریب ہی بر لب سڑک موجود تھا آکر ہفتوں رکا کرتے تھے، اس لئے ان کے گھر اکرم ؔصاحب سے ملنے والوں کی بھیڑ لگا کرتی تھی ،جن میں ہر طرح کے مرد و خواتین ہوا کرتی تھیں۔مولوی ؔصاحب کے ایک اور عزیز پیر زادہ شمس الدین( سینئرایڈوکیٹ جموں وکشمیر ہائی کورٹ) تھے۔ جو میرے بھی عزیز تھے اور جن کا انتقال چند برس قبل ہوا۔محبتِ رسولﷺ سے سرشار اورخدا ترس شخص تھے۔ اللہ رب العزت انہیں بھی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے ۔مولوی اکرمؔ ہائیگامی ان کے پاس بھی جایا کرتے تھے اور ان کے ہاں بھی قیام کرتے تھے۔
ہمارے ہاں ایک بار سرسری طور پر آئے تھے ان ہی دنوں کی بات ہے۔ آثارِ شریف درگاہ حضرتبل کے متصل ہی ہمارا آبائی گھر تھا ۔عید میلاد یا پھر معراج کی تقریب میں حضرت بل کی زیارت گاہ میںرات بھرعبادات میں شب بیدارکے بعد نمازِ فجر کے بعد ہمارے ہاں تشریف لائے تھے ۔تین چار اشخاص کے ہمراہ،جن میں ایک کا تعارف اپنے والدِ محترم ،خواجہ اسد اللہ وار صاحب کے طور پر کرایا تھا۔چائے ناشتہ کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔
دوسری بار14؍اگست 1982 کو میری شادی میں آئے تھے اور دہلی ،بہار،یوپی سے آنے والے بیس تیس مہمانوں،استاذی عشرتؔ کرتپوری مرحوم ،رشید آرٹسٹ ،صدیقی فوٹو گرافر،ٖفخر الدین واصل ؔ،تجمل حسن خان وغیرہ شخصیات کے ساتھ برات میں شامل ہوئے تھے اور سب لوگوں کے ساتھ خوب گھل مل گئے تھے۔میری شادی کے، دہلی سے بن کر آنے والے فوٹو البم میں ان سب کے مسکراتے چہرے آج بھی من و عن موجود ہیں اور اکثر ان بزرگوں کی یاد دلاتے ہیں۔جو آج ہم میں نہیں ہیں۔ جن میں ایک مولوی اکرمؔ صاحب وار بھی ہیں۔
انہیں دنوں مرحوم عمر مجید بھی ایک دن سائیکل پر ایک جمعہ کو ،اپنے بڑے فرزند ساجدؔ کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ ماشا اللہ ساجد ؔشاید ساتویں آٹھویں کے طالبِ علم تھے۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر سائیکل پر سوار ہوکر واپس گئے تھے،جب ان کی علالت کے دوران میں حسن ساہوؔ کے ساتھ ان کے پرانے گھر ،ان کی مزاج پرسی کے لئے گیا تھا، تو انہیں حسن ساہوؔ کی موجودگی میں یاد دلایا تھا ۔ساجدؔ اس سے قبل ہی انہیں کہیں گھمانے کے لئے ،لے جانے کی بات کررہے تھے، پھر انہیں یاد دلایا کہ اللہ کا شکر ہے میں بھی تمہیں ،بچپن میں گھمانے کے لئے لے جایا کرتا تھا جس کی گواہی آج آرہی ہے۔
ایڈوکیٹ پیر زادہ شمس الدین مرحوم نے لالہ صاؔب کو قریب سے دیکھا تھا اسلئے ان کے بارے میں اکثر کہا کرتے تھے کہ زندگی میں، راہِ سلوک میں کون کون سے مراحل سے انہیں گذرنا پڑا تھا ہمیں صرف اتنا پتہ تھا کہ مولوی اکرمؔ وار صاحب کواپنی نوجوانی میں کام دام چھوڑکر اپنے مرشد کامل، جو شاید کشتوار کے تھے، کے کہنے پر کشمیر سے باہر بمبئی جاکر مشقت و مزدوری کرنی پڑی تھی۔
؎ مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد
با خدا واصل نشد مولائے روم
تانکہ طالبِ شمس تبریزی نہ شد
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جب تک نہ مولوی محمد اکرم وار صاحب مجھ سے اپنے نئے کشمیری شعری مجموعے پر پیشِ لفظ لکھواتے اور اس کو شاملِ مجموعہ نہیں کرتے تو اسے شائع نہیں کرتے ۔’’گدرون‘‘ نام کے شعری مجموعے پر ابتداء میں میرا دو چار صفحات پر پیش لفظ چھپا ہے اور آخری صفحات پر مفتی بشیر الدین صاحب کے تاثرات کہ اس گھرانے کے ساتھ بھی مرحوم کے تعلقات تھے۔
کشمیری شاعری کے ساتھ بہت بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ ہر گھر میں کشمیری شاعر موجود ہیں ،بہر حال ان کی موجودگی کوئی بری بات نہیں ۔لیکن یہ سب حضرات اپنی شاعری کو صوفیانہ یا تصوف کی شاعری قرار دیتے ہیں خواہ وہ تصوف لفظ تک کے مفہوم و معنٰی سے واقف نہ بھی ہوں۔یہ سچ ہے کہ اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کسی یونیورسٹی یا مدرسے کی سند درکار نہیںہوتی ۔ضرورت اگر ہوتی ہے تو وہ صرف مولائے روم جیسے طالبِ صادق اور شمس تبریزی جیسے مرشدِ کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔
اکرمؔ ہائیگامی کی کشمیری شاعری کے بارے میں میری جو رائے، میرے تاثرات، میری نوجوانی میں تھے، جب میں ابھی شادی شدہ بھی نہیں تھا ،جن کا خلاصہ میں اکرمؔ صاحب کے مجموعاتِ کے پیشِ لفظ میں مفصل طور پر کر چکا ہوں ،جو تحریری طور پر آج بھی موجود ہیں، وہی آج بھی ہیں ،جبکہ الحمدللہ آج میں نانا بھی بن چکا ہوں۔ واقعی اس طرح کی شاعری اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عطا ہوتی ہے ۔جس کا میں بھی بہ نفس نفیس گواہ ہوں ایک واقعے کا ذکر کرنا شاہد یہاں مناسب رہیگا۔
ہوا یوں کہ میں اوپر مذکورہ مرحوم عظیم الدین صاحب کے ہاں، انہیں ایام میں پہنچا کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی کئی لوگ دائیں بائیں تشریف فرما تھے۔ میرے لئے بھی تھوڑی سی جگہ بنائی گئی، کمرے میں خاموشی تھی ،صرف اکرمؔ صاحب ترنم میں فی البدیہہ اونچی آواز میں کلام سنا رہے تھے اور ساتھ ہی بیٹھے کوئی صاحب اسے لکھ رہے تھے۔ مولوی اکرمؔ صاحب کی حالت عجیب تھی چہرہ
مغموم، بال پریشان، آنکھوں سے آنسو جاری تھے ،پوری داڑھی مسلسل اشک باری سے تر کیا ،گیلی ہوچکی تھی ،کسی سے کوئی کلام نہیں، بس آہ زاری اور اشکباری کے بیچ، ترنم میں ، اونچی آواز میں پابند کلام سنانے میں محوو مصروف تھے۔کچھ وقفے تک یہ حالت بدستورطاری رہی پھر خاموش ہوگئے اور دوسروں سے بات چیت کرنے ،خیریت و عافیت پوچھنے لگ گئے، اس دوران بیس تیس پابند غزلیں ہی کہہ سکتے ہیں، مکمل ہوچکی تھیں۔
یہ وہ دن تھے جب ان پر ہر وقت جذب،بے خودی اور وجدانی کیفیت طاری رہتی تھی۔ سفرِ طریقت جاری تھا،عشق حقیقی کے منازل طے ہورہے تھے ،حق گوئی و بے باکی مسلط ہونے لگی تھی ۔محبوب حقیقی جو ہر جگہ موجود ہے کہ لاموجود الی اللہ ،کے جلوئوں میں کھو گئے تھے اور شاہراہِ عشقِ حقیقی پر مسافر ،دنیا اور مافیھا سے بے نیاز ہوکر چل پڑا تھا، اور اسی کو زندگی کا حاصل ِکل بھی مانتے تھے جس کا حصول صرف اور صرف رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے توسل اور کرمِ خاص سے ہی ممکن ہوسکتا تھا اور ہے بھی، سلسلہ قادریہ یا پھر دوسرے سلاسل میں بھی دنیا کے تمام انسان ،اللہ کی مٖخلوق یا پھر احادیث کی رو سے عیال ہے کسی انسان کی دولت بادشاہت ،دنیاوی مرتبہ ،خاندان اسے اپنے دوسرے لوگوں سے ممتاز و مخصوص نہیں بنا سکتا،ہاں البتہ اس کے اعمال اور کردار و سوچ ایسا کرسکتی ہے۔
صوفیائے کرام کا فکر و فلسفہ انسان کو بانٹتا نہیں ہوتا نہ تقسیم کرنا ہوتا ہے، بلکہ ان کو جوڑتا ہوتا ہے ۔خالق اور مخلوق کی وحدانیت پر ان کا مکمل اور اٹل یقین ہوتا ہے، کسی کو بھی ان کے درمیان دوری یا خلیج پیدا کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، بظاہر ان کے کلام میں مذہبی جنونیت کے خلاف بغاوت بھی نظر آتی ہے ۔مختلف فرقوں اور طبقات میں بٹی ہوئی مخلوقات خدا پر ان کی یکساں نظر رہتی ہے اور وہ ہمیشہ اپنی اسی دھن میں مگن رہتے ہیں اورکوئی فاسد اور لایعنی خیال و ظن کو ان کے فکر و سوچ میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔یہی کیفیت ہمیشہ اور آٹھ پہر ان پر طاری رہتی ہے اور فرصت کے لمحات میں شاعری کی طرف بھی راغب ہوجاتے ہیں۔کہ ان کی شاعری بھی اسی طرزِ عمل کی آئینہ دار اور عکاس ہوتی ہے۔
بیچ میں ریڈیو اور ٹی وی کے مشاعروں میں بھی شرکت کی تھی، لیکن پھر فوراً ہی وہاں جانا ترک کردیاتھاکچھ پروگرام میں نے بھی سنے اور دیکھے تھے۔کئی سال تک اکرمؔ صاحب کے ساتھ رابطہ رہا پھر رفتہ رفتہ اس سارے منظر سے اکرم ؔصاحب روپوش ہوگئے ۔قریبی لوگ معلوم کرنے پر بتاتے تھے کہ گھر میں ہیں اور پھر موجودہ ابتر حالات کی وجہ سے کسی کو کسی کی خبر ہی نہیں رہی۔
مولوی اکرم ؔوار صاحب مرحوم بڑے ملنسار،خوش گفتار،نرم طبیعت،محبتِ رسولﷺ سے سرشار، خدا سے ڈرنے والے،ہمیشہ اپنے گناہوں اور خطائوں پر نادم اور شرمندہ ہوکر اللہ رب ا لعزت کے آگے رونے اور گڑ گڑانے والے،کسی کا دل نہ دکھانے والے،شریف النفس اورخاموش طبع انسان تھے۔ ان کی باہری یا ظاہری شخصیت جتنی اچھی تھی اتنی ہی ان کی اندرونی یا باطنی شخصیت بھی اچھی اور خوبصورت تھی۔دوسروں کے کام آنے میں انہیں مسرت اور خوشی حاصل ہوتی تھی۔عجیب اتفاق ہے کہ میں اور مرحوم پیر زادہ شمس الدین ایڈوکیٹ صاحب جب کسی دن ان کے آبائی گائوں ہائیگام سوپور مرحوم سے ملاقات کے لئے جانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ اسی دوران ایک دن ان کے انتقال کی خبر آئی، جسے سن کر بہت دکھ ہوا ۔آخری بیس تیس برسوں کی کوئی خبر نہ رہی،کہ کیا کررہے تھے، کہاں رہتے تھے اور کن کن کے ساتھ تعلقات تھے وغیرہ۔
مولوی محمد اکرم وار ہائیگامی مرحوم کی پوری شاعری کا گہرائی اور توجہ کے ساتھ مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کا اندرون اور بیرون ایک جیسا تھا وہ جو سوچتے تھے جسے اپنی عملی زندگی میں عملاتے یا برتتے تھے اسی سچ کا عکسِ جمیل ان کی شاعری میں بھی ہے۔مرحوم کا کلام شائع ہوا ہے شاید کلیات بھی اور شاید ابھی غیر مطبوعہ کلام بھی ہے جسے ابھی زیورِ طبع سے آراستہ ہونا ہے۔ماسٹر عبدالاحد صاحب اور دیگر کچھ مخلص لوگ اس ضمن میں جاں فشانی اور محنت و مشقت سے کام لے رہے ہیں اور بھرپور کوششیںکررہے ہیں جوقابلَ صد تحسین و ستائش ہیں۔امیدِ قوی ہے کہ یہ سلسلہ اسی شدو مد سے جاری رہے گا اور کشمیری شاعری اور شاعروں کو جو ہمارا اثاثہ اور بیش بہا سرمایہ ہیں، منظر عام پر لانے کی مزیدسعی ہوگی۔ اللہ رب العزت اس نیک کام کے ساتھ وابستہ لوگوں کو جزائے خیر سے نوازے آمین ثمہ آمین۔
صدرہ بل سری نگر (کشمیر)
Mob:- 9419017246